Saron Par Parinde
سروں پر پرندے

رسولِ اکرم ﷺ کی بابرکت مجلسوں کا ذکر جب بھی ہوتا ہے تو دل پر عجب سکون اترتا ہے۔ وہ محفلیں جن میں نور کی بارش ہوا کرتی تھی، وہ نشستیں جن میں انسانیت کے سب سے عظیم رہنما جلوہ افروز ہوا کرتے تھے، ان کی ہیبت، ان کی عظمت اور ان کے وقار کو لفظوں میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ تاریخ نے یہ منظر محفوظ کر لیا ہے کہ جب صحابہ کرامؓ رسولِ عربی ﷺ کے سامنے بیٹھا کرتے تو ایسا سکوت اور ادب طاری ہوتا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ یہ محاورہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ذرا سی بھی حرکت کرنے کو گناہ سمجھتے، زبان سے غیر ضروری لفظ نکالنا تو دور، سانس تک آہستہ لینے کی کوشش کرتے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ کون ہے جو ان کے درمیان جلوہ افروز ہے، وہ کس ہستی کے سامنے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ رسول ہیں جن کے لبوں سے نکلنے والا ایک ایک لفظ انسانیت کی رہنمائی ہے، یہ وہ محفل ہے جہاں زمین پر بیٹھا انسان آسمانوں کی خبر سنتا ہے، یہ وہ مجلس ہے جہاں بیٹھنے والا خود کو اللہ کی قربت میں محسوس کرتا ہے۔
یہی وہ کیفیت تھی جس نے صحابہ کرام کو صحابی بنایا۔ وہ رسول ﷺ کے ادب کے پیکر تھے۔ ان کی توجہ، ان کی خاموشی اور ان کا دھیان ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ انہوں نے اپنے دل و جان کو مصطفیٰ ﷺ کے حوالے کر دیا تھا۔ وہ کوئی عام استاد نہیں تھے، یہ کوئی دنیاوی بادشاہ نہیں تھے، بلکہ یہ اللہ کے آخری نبی تھے، رحمت اللعالمین تھے۔ اس لیے ان کے سامنے بیٹھنا، ان کی محفل میں شامل ہونا اور ان کے کلمات کو سننا محض ایک سماعت نہ تھا بلکہ یہ سعادت کا دروازہ تھا۔ صحابہ کرام کی یہ کیفیت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ رسولِ خدا ﷺ کے ذکر اور ان کی سنت کے ذکرکے وقت ہمیں بھی ایسے ہی سکوت اور ادب کی کیفیت میں ڈھل جانا چاہیے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے حضور ﷺ کی محفل کا ادب تو دور کی بات، ان کے ذکر کا ادب بھی بھلا دیا ہے۔ جمعہ کا دن جسے "سید الایام" کہا گیا، جس دن کی فضیلت قرآن و حدیث میں بار بار بیان ہوئی، اس دن بھی ہم غفلت کی نیند سوتے ہیں، موبائل کی گھنٹیاں سننے کو تیار ہیں مگر خطبہ جمعہ سننے کو دل نہیں چاہتا۔ ہم محفلِ مصطفیٰ ﷺ کے آداب کو کیا سمجھیں گے جب ہماری ترجیحات ہی بدل گئی ہیں۔ ہم اپنے استاد کے سامنے، اپنے ماں باپ کے سامنے، حتیٰ کہ اپنے بڑوں کے سامنے بھی ادب سے نہیں بیٹھ سکتے، تو پھر ہم کیسے دعویٰ کریں کہ ہم رسولِ اکرم ﷺ کے صحابہ کی راہ پر ہیں؟
وہ صحابہ کرام جنہوں نے ان محفلوں میں بیٹھ کر زندگی کے ہر شعبے کی تعلیم پائی، وہ دراصل ادب کے پیکر تھے۔ انہوں نے سیکھا کہ جب استاد بولے تو شاگرد خاموش ہو، جب رسول ﷺ کلام کریں تو آنکھیں جھک جائیں، جب نبی ﷺ کسی طرف اشارہ کریں تو اس طرف بڑھنے میں دیر نہ کی جائے۔ یہی ادب، یہی خاموشی اور یہی دھیان ان کی کامیابی کا راز بنا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کے سب سے عظیم انسانوں میں شمار ہوئے۔ وہ کبھی اپنی رائے کو رسول ﷺ کی رائے پر مقدم نہ کرتے، وہ کبھی اپنی مرضی کو سنت کے مقابلے میں پیش نہ کرتے۔ ان کے دل کی دھڑکنوں میں بھی ادب اور احترام رچا بسا تھا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی محفلوں کو بھی ایسی محفلوں میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ہماری مجلسیں شور و ہنگامے سے بھری ہوتی ہیں، ایک ہی وقت میں کئی زبانیں بول رہی ہوتی ہیں، دل و دماغ کسی اور طرف بھٹک رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے گھروں میں، اپنی محفلوں میں اور اپنی مساجد میں وہی سکون اور ادب پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو صحابہ کرام کو رسول ﷺ کی محفل میں میسر تھا۔ یہ ادب صرف مجلس تک محدود نہیں، بلکہ ہماری زندگی کے ہر شعبے پر لاگو ہوتا ہے۔ قرآن کی تلاوت کے وقت بھی سکوت چاہیے، سنت کے بیان کے وقت بھی سکون چاہیے، دین کی بات سننے کے وقت بھی دھیان چاہیے۔
کاش ہم وہ منظر اپنی آنکھوں میں تازہ کر سکیں کہ صحابہ کرام کے سامنے رسول اللہ ﷺ جلوہ افروز ہیں اور وہ ایک لفظ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ وہ لمحہ ہے جس کے بعد دنیا کی کوئی اور محفل ایسی نہیں ہوگی۔ یہی یقین انہیں دنیا کا فاتح بنا گیا۔ آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیاں سنور جائیں، ہمارے معاشرے میں سکون آجائے، ہماری نسلیں راہِ راست پر آجائیں، تو ہمیں بھی اسی ادب کو اپنانا ہوگا۔
یہ محض ایک روایت نہیں بلکہ ایک پیغام ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ کامیابی کا راز صرف علم میں نہیں بلکہ ادب میں ہے۔ علم بغیر ادب کے انسان کو گمراہ کر دیتا ہے، لیکن ادب انسان کو اللہ کے قریب کر دیتا ہے۔ رسول ﷺ کے صحابہ علم کے ساتھ ساتھ ادب کے بھی امام تھے۔ انہوں نے یہ درس دیا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ دنیا تمہاری پیروکار ہو تو پہلے تم مصطفیٰ ﷺ کے غلام بنو۔
یوم الجمعہ ہمیں یہی یاد دلاتا ہے کہ یہ دن حضور ﷺ کی امت کے لیے خاص رحمتوں کا دن ہے۔ آج ہمیں اپنے جمعے کو بھی بدلنا ہے۔ جمعہ محض چھٹی کا دن نہیں بلکہ محفلِ رسول ﷺ کا دن ہے۔ اس دن درود و سلام کی کثرت کریں، قرآن کی تلاوت کریں، خطبہ توجہ سے سنیں اور اپنے دل کو حضور ﷺ کی محبت میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں دنیا میں سکون اور آخرت میں نجات عطا کرے گا۔
آخر میں دل چاہتا ہے کہ یہی دعا کی جائے کہ اللہ ہمیں بھی وہی ادب عطا کرے جو صحابہ کرام کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے نصیب ہوا، ہماری زبانوں کو بے ادبی سے محفوظ رکھے، ہمارے دلوں کو حضور ﷺ کی محبت سے لبریز کرے اور ہمارے گھروں کو ایسی محفلوں کا گہوارہ بنا دے جن پر فرشتے نازل ہوں۔ اگر ہم نے یہ ادب پا لیا تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے سب کچھ پا لیا۔ کیونکہ ادب وہ کنجی ہے جو مصطفیٰ ﷺ کے دروازے تک پہنچاتی ہے اور مصطفیٰ ﷺ کا در ہے وہ در ہے جس پر دستک دینے والا کبھی محروم نہیں ہوتا۔

