Sarapa Shafqat, Sarapa Rehmat
سراپا شفقت، سراپا رحمت ﷺ

لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں، تمہاری تکلیف انہیں گراں معلوم ہوتی ہے، تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے اور مہربان ہیں۔ یہ کوئی عام جملہ نہیں، یہ کلامِ الٰہی ہے، جس نے انسانیت کو قیامت تک کے لیے وہ تعارف عطا کر دیا ہے جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شخصیت کے گرد ستاروں کی مانند جگمگاتا رہے گا۔
ذرا سوچئے، ہم میں سے کون ہے جو اپنی زندگی کی کٹھنائیوں میں یہ نہ چاہتا ہو کہ کوئی اس کا مونس و غمگسار ہو؟ کون ہے جو اپنی آنکھوں میں چھپی ہوئی نمی کے پیچھے ایک ہمدرد چہرہ تلاش نہ کرتا ہو؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے رشتے چاہے کتنے ہی قریبی کیوں نہ ہوں، ایک نہ ایک مقام پر وہ تھک جاتے ہیں۔ باپ کی شفقت بھی وقت کی دھول میں کمزور پڑ جاتی ہے، ماں کی ممتا بھی اولاد کی نافرمانی سے زخمی ہو جاتی ہے، دوستوں کی رفاقت بھی مفاد کے پل صراط پر ڈگمگا جاتی ہے، لیکن ایک ذات ہے جس کی شفقت اور محبت کو کبھی زوال نہیں آیا، وہ ہے رحمت للعالمین ﷺ کی ذات۔
قرآن نے جب یہ کہا کہ "تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں"، تو گویا یہ اعلان کیا کہ وہ کسی آسمانی مخلوق کی طرح ناقابلِ فہم نہیں، وہ فرشتے کی صورت میں نہیں بلکہ انسان کی حیثیت میں مبعوث ہوئے۔ ان کی بھوک بھی تمہاری طرح تھی، ان کی پیاس بھی تمہاری طرح بجھتی تھی، وہ بھی بازاروں میں چلتے، سوداگر سے سودا کرتے، اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھتے، بچوں کے ساتھ کھیلتے اور صحابہؓ کے ساتھ ہنسی مذاق فرماتے۔ اس لیے تمہارے لیے ان کی پیروی ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ انسان اپنے نبی کو ایک "دور پرے" کی ہستی نہ سمجھے بلکہ اپنا اپنا سا جانے، اپنے دکھ درد میں شریک سمجھے، اپنی محرومیوں میں قریب محسوس کرے۔
آیت کا دوسرا حصہ وہ ہے جو دل کے نہاں خانوں کو ہلا دیتا ہے: "تمہاری تکلیف ان پر بھاری گزرتی ہے"۔ ذرا دیکھیے تو سہی، یہ کیسا عجیب تعلق ہے! دنیا کے قائد اور رہنما اپنے ماننے والوں کو صرف اپنی طاقت بڑھانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے پیروکار ان کے لیے قربان ہوں، ان کی خواہشات پر اپنی زندگیاں لگا دیں، مگر محمد مصطفیٰ ﷺ کا حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ آپ ﷺ اپنے ماننے والوں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں، ان کی بھوک کو اپنی بھوک، ان کے دکھ کو اپنا دکھ۔ وہ راتوں کو کھڑے ہو کر گھنٹوں روتے صرف اس لیے کہ کہیں ان کی امت جہنم میں نہ چلی جائے، کہیں وہ اللہ کی رحمت سے محروم نہ رہ جائیں۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جبریل امینؑ نے آکر بتایا کہ اللہ نے آپ ﷺ کو اختیار دیا ہے کہ اگر چاہیں تو ان کی امت کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کر دیا جائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: "نہیں، مجھے یہ پسند ہے کہ میں اپنی امت کو دیکھوں، ان کے لیے شفاعت کروں اور اللہ کی رحمت ان پر سایہ فگن ہو"۔ یہ بات بتاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خواہشات میں اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں تھا، وہ ہر دم امت کے خیر خواہ اور دعا گو تھے۔
یہاں یہ حقیقت بھی دل میں اُترتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف ایک معلم یا قانون دینے والے نہیں تھے، وہ دراصل ایک سراپا رحمت ہستی تھے۔ آپ ﷺ نے زندگی کے ہر موڑ پر یہ دکھایا کہ ان کی محبت کسی قبیلے، کسی نسل، کسی ملک یا کسی مفاد تک محدود نہیں بلکہ ایک وسیع سمندر کی طرح ہے جو ہر پیاسے کو سیراب کرنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ جنگ اُحد میں جب دشمنوں نے آپ ﷺ کو زخمی کر دیا، آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہو گئے اور خون بہہ رہا تھا، تو آپ ﷺ نے پھر بھی اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا: "اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، یہ نہیں جانتے"۔ سوچنے کی بات ہے کہ کون سا رہنما ہے جو اپنے دشمنوں کے لیے بھی خیرخواہ ہو؟
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے آپ ﷺ کے لیے وہ الفاظ استعمال کیے جو عموماً اللہ تعالیٰ کی صفات کے لیے مخصوص ہیں: "رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ"۔ یعنی نہایت شفیق اور مہربان۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا عکس اگر کسی انسان میں دیکھنا ہو تو وہ محمد ﷺ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں کہا گیا "وَمَا أَرُسَلُنَاكَ إِلَّا رَحُمَةً لِّلُعَالَمِينَ"۔ آپ ﷺ کی رحمت نہ صرف مومنین بلکہ پوری انسانیت، حیوانات، پرندے، درخت، حتیٰ کہ بے جان پتھروں تک کے لیے تھی۔
اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی کو دیکھیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ نبی اکرم ﷺ کی یہ شفقت صرف ماضی کی تاریخ نہیں بلکہ آج بھی ہمارے ساتھ ہے۔ وہ شفقت اس وقت بھی ہے جب ہم گناہوں میں ڈوب کر اپنے آپ کو برباد کرتے ہیں اور وہ ﷺ اللہ کے حضور ہماری مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ وہ محبت اس وقت بھی ہے جب ہم نماز میں سستی کرتے ہیں مگر پھر بھی آپ ﷺ کی سنتیں ہمیں پکارتی ہیں کہ واپس آؤ، یہ وہ راستہ ہے جو تمہیں سکون دے گا اور وہ ہمدردی اس وقت بھی ہے جب ہم امت کی حالتِ زار پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ ﷺ کی آنکھوں کے آنسو یاد آ جاتے ہیں جو صرف اس لیے بہتے تھے کہ کہیں یہ امت بھٹک نہ جائے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس عظیم شفقت کو پہچانیں اور اس کے سامنے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں۔ ہم اپنے نبی ﷺ کو صرف جشن میلاد یا صرف قصے کہانیوں میں یاد کرنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ ان کی شخصیت کو اپنی زندگی میں اُتارنے کی کوشش کریں۔ ان کی تعلیمات، ان کی سنتیں، ان کا اخلاق اور ان کا طرزِ زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ ان کی عاجزی کو دیکھیں کہ دنیا کا سب سے بڑا رہنما ہونے کے باوجود اپنے صحابہؓ کے ساتھ مل کر مسجد نبوی کی تعمیر میں مٹی اٹھاتے ہیں، اپنی ازواج مطہراتؓ کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور اپنی امت کے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ کیا یہ وہی پیغمبر نہیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "بیشک تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے"۔
اگر آج ہم اپنی اجتماعی زوال کی حالت کو دیکھیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہم نے اپنے نبی ﷺ کی محبت کو صرف زبانوں تک محدود کر دیا ہے۔ ہم ان کے ذکر پر آنکھیں تو نم کرتے ہیں لیکن ان کی تعلیمات کو بھول گئے ہیں۔ وہ نبی جو سچائی، دیانت اور عدل کے پیکر تھے، ہم نے ان کی امت ہو کر جھوٹ، بددیانتی اور ناانصافی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا۔ وہ نبی جو دوسروں کے دکھ میں تڑپتے تھے، ہم نے اپنی خودغرضی میں دوسروں کی تکلیف کو نظر انداز کر دیا۔ یہ فرق ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی ہم اس نبی ﷺ کے امتی کہلانے کے اہل ہیں جسے اللہ نے دنیا کا سب سے شفیق اور مہربان ہادی بنا کر بھیجا؟
کالم کے اس مقام پر یہ سوال ہر قاری کے دل میں گونجنا چاہیے کہ ہم اپنے نبی ﷺ کی محبت کا حق کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ جواب بڑا سادہ ہے: ان کی اطاعت کرکے، ان کی سنت کو زندہ کرکے، ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا چراغ بنا کر۔ محبت صرف دعویٰ نہیں بلکہ عملی ثبوت مانگتی ہے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ نبی ﷺ قیامت کے دن ہماری شفاعت کریں، تو آج ہمیں ان کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا، ان کے اخلاق کو اپنانا ہوگا اور ان کی امت کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا۔
آخر میں، یہی حقیقت ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو ہمارے لیے "تم میں سے" اور "تمہارے اپنے" کہہ کر بھیجا تاکہ ہم یہ نہ بھولیں کہ وہ ہمارے دل کے قریب ہیں، ہماری دعاؤں کا جواب ہیں، ہماری آنکھوں کے آنسوؤں کا سہارا ہیں۔ ان کی محبت اور شفقت کا احاطہ لفظوں میں ممکن نہیں۔ ہمیں صرف یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ ہمیں ان کی اطاعت کی توفیق دے، ان کی سنت پر عمل کرنے والا بنائے اور قیامت کے دن ہمیں ان کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

