Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Roshan Zameer, Mazboot Eman, Insaniyat Ke Dushmano Ka Sad e Bab

Roshan Zameer, Mazboot Eman, Insaniyat Ke Dushmano Ka Sad e Bab

روشن ضمیر، مضبوط ایمان، انسانیت کے دشمنوں کا سدِِّ راہ

اللہ تعالی نے ہمیں زندگی بخشی اور رسولِ رحمت ﷺ کے ذریعے ہدایت دی کہ معاشرے کی بنیاد رحم، عدل اور امن پر رکھی جائے۔ سورۃِ نساء کی آیت نمبر 91 ہمیں ایک تاریخی اور عملی تناظر میں خبردار کرتی ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو بظاہر امن کا لبادہ اوڑھ لیں مگر اندر سے فتنے اور تباہی کے خواہاں ہوں۔ مگر قرآن کی نصیحت اور رسول ﷺ کی سنت کا اصل مقصد ہمیں اندھی تقلید یا انتقامی جذبے میں مبتلا کرنے کی دعوت نہیں دیتی، بلکہ وہ ہمیں باخبر، متوازن اور منصفانہ رہنے کا دستور دیتی ہے۔ حقیقی جنگ اور جھگڑے میں بھی شرعی ضابطے، انسانی حقوق اور معاشرتی انصاف کی پاسداری اولین شرط ہے۔ اس کالم کا مقصد یہی ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی روشنی میں عقل اور ضمیر کو جگائیں، تاکہ اندھیروں میں گھِرے انسان اپنے لیے روشنی تلاش کریں اور معاشرے کو ان عناصر سے محفوظ رکھ سکیں جو انسانیت کے دشمن ہیں۔ مگر وہ راستہ جو قرآن و سنت بتاتے ہیں، وہ راستہ انصاف، قانون، اصلاح اور رحم پر مبنی ہے، نہ کہ خودسرانہ خوں ریزی یا انتقام پر۔

سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کون انسانیت کا دشمن ہے؟ وہ صرف وہ افراد نہیں جو جھوٹے نعروں کے ساتھ نظر آئیں، بلکہ وہ نظام، خیالات یا عمل بھی ہو سکتے ہیں جو لوگوں کو جہالت، غربت، خوف اور نفرت میں مبتلا کرتے ہیں۔ انسانیت کے دشمن وہ ہیں جو ظلم کو معمول بناتے، معیشت کو تباہ کرتے، معاشرتی رشتوں کو بگاڑتے، تعلیم اور فکر کو کچلتے اور انسانی وقار و آزادی کو پامال کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کا سب سے پہلے رخ یہ ہونا چاہیے کہ ہم انہیں پہچانیں۔ ان کی سوچوں، ان کے طریقہ کار، ان کے اثرات اور ان کے مقاصد کو سمجھیں۔ پہچان کے بغیر کوئی بھی قدم اندھا اور خطرناک ہو سکتا ہے۔

دوسرا، رسولِ کریم ﷺ نے ہمیشہ اصلاح، نصیحت اور موقع پر درگزر کی فضیلت بتائی۔ اگر کوئی شخص غلط راہ پر ہے تو پہلے مرحلے میں نصیحت، مثال اور دعوتِ خیر کی کوشش لازمی ہے۔ معاشرتی رگوں میں محبت، تعلیم اور انصاف کی روح ڈالنے سے ایسے فتنے کمزور پڑتے ہیں۔ معاشرے کا بنیادی دفاع مضبوط خاندان، مستحکم نظامِ تعلیم، روزگار کے مواقع اور عدل پر مبنی قانون ہے۔ جب لوگوں کو روٹی، احترام اور حق تک رسائی ملے تو وہ انتقام اور تشدد کی طرف کم مائل ہوتے ہیں۔

تیسرا، جب کوئی قوت براہِ راست امن و سلامتی کو نقصان پہنچاتی ہے۔ چوری، دہشت، قتلِ عام یا ریاستی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس صورتحال میں بھی حل صرف دو راستوں تک محدود نہیں: پہلا، قانونی اور ریاستی انسداد: پولیس، عدالتی کاروائی اور ریاستی ادارے جو انصاف کے ذریعے مجرمانہ عناصر کو نشانہ بنائیں، دوسرا، اجتماعی شعور و تنظیم جو قانونی دائرے میں رہ کر ان عناصر کا مقابلہ کرے، معلومات، تحقیق، صحافت اور عالمی و مقامی قانون سازی کے ذریعے۔ یہ راستہ نہ صرف شریعت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے بلکہ عالمی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق بھی درست ہے۔

چوتھا، اسلامی تعلیمات میں"حرمتِ نفس" اور "عدل" اتنی بنیادی جگہ رکھتے ہیں کہ قرآن نے انسانی جان کو محفوظ رکھنے کو پوری انسانیت کے برابر قرار دیا۔ اس لیے کسی شخص، جماعت یا نظام کے خاتمے کا حکم صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے یا پھر جائز ریاستی عمل کے ذریعے، فرد کو خود رائے پر مبنی قتل یا سزا دینے کا اختیار نہیں۔ اگر کوئی اِضطراری دفاعی اقدام مقامی قانون کے تحت جائز سمجھا بھی جائے تو اس کے لیے شواہد، مناسب عدالت اور عوامی مفاد کی سخت شرط لازم ہے۔ اسے کبھی انتقام یا ذاتی غیض و غضب کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔

پانچواں، عملی راہِ کار یہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد کی کمیونٹی کو مضبوط کریں۔ مساجد اور مدارس میں معاشرتی تعلیمات پر زور، اسکولوں میں تنقیدی سوچ اور رواداری کی تربیت، مقامی اداروں میں احتساب اور شفافیت، غربت کے خلاف سماجی پروگرام اور ذہنی صحت و سماجی بحالی کے مراکز بنا کر۔ جب معاشرہ مضبوط ہوگا تو وہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور بدعنوانی کے خلاف ایک فوج کی مانند کھڑاہوگا۔ مگر یہ فوج قانون، اخلاق اور علم پر مبنی ہوگی، نہ کہ خونی و خودسرانہ عمل پر مبنی۔

چھٹا، ذاتی سطح پر ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ سنتِ نبوی کی روشنی میں اپنے اندر اصلاح کرے: حسنِ گفتگو، رحم، عدل اور نصیحت کا طریقہ اپنائے۔ دعا، قرآن کی تلاوت اور اجتماعی عبادات سے دلوں میں روشنی آئے گی اور معاشرتی رشتے مضبوط ہوں گے۔ حضرتِ رسول ﷺ کے معمولات، آپ کے صلح و شمولیت کے واقعات اور آپ کی تشفیقی حکمتیں ہمارے لیے زندہ نمونہ ہیں کہ کیسے سخت حالات میں بھی رحم اور حکمت کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے۔

ساتواں، جب دشمن عناصر بین الاقوامی یا منظم شکل میں ہوں تو مقامی کوششوں کے ساتھ بین الاقوامی صلاح و مشورہ، قانونی چارہ جوئی اور تعاون لازمی ہے۔ دہشت گردی یا جرائم کے خلاف دنیا بھر میں عدالتیں، انسانی حقوق کے ادارے اور بین الاقوامی قوانین موجود ہیں۔ ان کا استعمال ہمارے اصولِ شریعت اور انسانی حقوق کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمیں ایسی پالیسیاں چاہئیں جو جارحیت کو خود بڑھاوا نہ دیں بلکہ بچانے اور اعتماد بحال کرنے پر مرکوز ہوں۔

آخر میں، یاد رکھیں کہ قرآن نے ہمیں نصیحت کی ہے کہ غور و فکر کرو اور ہر قدم میں اللہ سے رہنمائی طلب کرو۔ اندھیروں سے روشنی تک پہنچنے کا وہی پختہ راستہ ہے جو اللہ اور رسول ﷺ نے دکھایا ہے یعنی علم، حکمت، عدل اور محبت۔ انسانیت کے دشمنوں کو "خاتمہ" کرنے کا اصل مطلب یہ نہیں کہ ہم ہاتھ میں ہتھیار اٹھائیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم ان کی ریشہ دوانیوں، شرارتوں اور ان کے نظام کو اجتماعی شعور، تعلیم، انصاف اور رحم کے ذریعے ناکام بنائیں تاکہ آئندہ نسلیں آزاد، باوقار اور امن میں جی سکیں۔

لیکن اگر پھر بھی یہ بعض نہ آئیں تو اللہ کے حکم کے مطابق اپنے تیار رکھے ہتھیاروں کا مناسب اور اللہ اور رسول کے احکامات کی روشنی میں استعمال کرتے ہوئے ان کو راہ راست پر لائیں اور انسان جانوں سے کھیلنے سے بعض رکھیں۔ جب ہم اسی معیار پر عمل کریں گے تو اللہ کی رحمت اور رسول ﷺ کی سنت کے مطابق ہم حقیقی معنوں میں انسانیت کا دفاع کر رہے ہوں گے اور یہی وہ ضرورت ہے جس کی آج کے دور میں شدت سے تقاضا ہے۔

اللہ ہمیں ہدایت دے، ہمیں عقل، صبر اور شجاعت دے کہ ہم حق کی راہ میں عدل اور رحمت سے کام لیں اور ہمارے معاشروں کو امن، علم اور بھلائی سے بھر دے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali