Rafaqat Ki Musafat Aur Insan Ki Asal Haqiqat
رفاقت کی مسافت اور انسان کی اصل حقیقت

انسان کی زندگی میں دوستی ایک ایسا تحفہ ہے جو کبھی کبھی ہمیں بہت کچھ دے جاتا ہے اور کبھی ہماری برداشت اور ظرف کا امتحان لینے لگتا ہے۔ ہم سب اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر نئے دوست بناتے ہیں، پرانے چھوڑ دیتے ہیں، کچھ کے ساتھ فاصلہ رکھ لیتے ہیں اور کچھ سے ہمیشہ کے لئے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایک سوال ہمیشہ ذہن کے دروازے پر دستک دیتا ہے: کیا دوستی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی کمزوریوں کو بدلنے کی کوشش کریں یا پھر ان کو ان کی خامیوں سمیت قبول کر لیں؟
یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ جب آپ کسی کے قریب زیادہ وقت گزارتے ہیں تو اس کی شخصیت کی باریکیاں اور عادات آہستہ آہستہ آپ پر کھلنے لگتی ہیں۔ وہ چھوٹی سی عادت جو دور سے دیکھنے پر بالکل معمولی لگتی تھی، قریب جا کر ایک بڑی الجھن میں بدل جاتی ہے۔ وہی دوست جو ابتدا میں بےحد دلچسپ لگتا تھا، کچھ عرصہ بعد اپنی معمولی سی بات سے ہمیں بیزار کر دیتا ہے اور پھر انسان سوچتا ہے کہ کاش یہ ایسا نہ ہوتا، یہ اپنی اس عادت کو بدل لے۔ مگر کیا یہ ممکن ہے؟ کیا واقعی ہم کسی اور کی شخصیت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں؟
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ دوسرا انسان کیسا ہے۔ اصل الجھن یہ ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں۔ ہر شخص کے ذہن میں ایک خاکہ ہوتا ہے کہ دوسرے کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ نرمی سے بات کریں، ہر وقت ہمارے جذبات کا خیال رکھیں، ہماری پسند کے مطابق چلیں، ہمارے انداز کو سراہیں اور ہماری مرضی کے مطابق ڈھل جائیں۔ لیکن ہم خود کتنی بار اس معیار پر پورے اترتے ہیں؟ شاید ہی کبھی۔ دوسروں کے لئے کسوٹی تیار کرنے والا انسان اپنی ذات کے معاملے میں اتنا سخت احتسابی رویہ اختیار نہیں کرتا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہمیں دوسروں کی کمیاں دور سے صاف دکھائی دیتی ہیں لیکن اپنی کوتاہیاں ہماری نظر کے آئینے میں دھندلا سی جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ دانائی سے یہ اصول اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ ہر کسی کے ساتھ زیادہ وقت نہ گزاریں۔ وہ نئے دوست بناتے ہیں، تعلقات استوار کرتے ہیں لیکن انہیں زندگی کا مستقل حصہ نہیں بناتے۔ بظاہر یہ رویہ سرد مہری یا بے رخی لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک طرح کی خود حفاظتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ قریب رہنے سے شکوے بڑھتے ہیں، فاصلے باقی رکھتے ہیں تو محبت سلامت رہتی ہے۔
انسانی رشتے دراصل ایک آئینہ ہیں۔ ہم دوسروں میں وہ دیکھتے ہیں جو کبھی کبھی خود ہمارے اندر چھپا ہوتا ہے۔ دوسروں کی خامیوں پر تنقید کرنا آسان ہے لیکن ان خامیوں کا عکس جب اپنی ذات میں تلاش کیا جائے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم بھی اسی زنجیر کے قیدی ہیں۔ وہ شخص جو ہر وقت دوسروں کے رویے پر تنقید کرتا ہے، کبھی خود یہ نہیں سوچتا کہ اس کے اپنے رویے کا دوسروں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ دنیا ہمیں قبول کرے، لیکن دنیا کو ہم قبولیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں دوستی امتحان میں ڈال دیتی ہے۔ دوستی قربانی مانگتی ہے، برداشت مانگتی ہے، خامیوں کو نظرانداز کرنے کا حوصلہ مانگتی ہے۔ لیکن اگر ہم یہ سب نہ کر سکیں تو دوستی بوجھ بن جاتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دوست ہمیشہ مثالی ہو، ہماری توقعات پر پورا اترے، ہماری ترجیحات کا احترام کرے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی انسان کامل نہیں۔ اگر ہم دوسروں کو بدلنے کے بجائے انہیں جیسا ہیں ویسا قبول کرنا سیکھ جائیں تو شاید ہماری زندگی آسان ہو جائے۔
انسانی تعلقات کا اصل حسن یہی ہے کہ ان میں تفاوت ہے۔ اگر سب ایک جیسے سوچنے لگیں، ایک جیسا رویہ اختیار کر لیں تو زندگی بے رنگ ہو جائے۔ اختلاف، اختلافِ رائے، مختلف عادات اور رویے ہی انسانی زندگی کو متنوع اور بھرپور بناتے ہیں۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ ہم دوسروں کو بدلنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ ہمارا اصل کام اپنی ذات کی اصلاح ہے۔ اگر ہم اپنی کمزوریوں کو پہچان کر ان پر قابو پانے کی کوشش کریں تو شاید دنیا ہمیں پہلے سے بہتر نظر آنے لگے۔
لیکن یہاں ایک اور نکتہ بھی ہے۔ یہ سوچنا کہ دوستوں سے فاصلہ رکھ کر خامیوں سے بچا جا سکتا ہے، مکمل طور پر درست نہیں۔ تعلقات سے فرار ایک وقتی سکون دے سکتا ہے مگر یہ مستقل حل نہیں۔ انسان سماجی مخلوق ہے، اسے ساتھ چاہیے، ہمراہی چاہیے۔ اگر ہم ہر بار یہ سوچ کر تعلقات کو کمزور کریں کہ زیادہ قربت خامیوں کو بے نقاب کر دیتی ہے تو پھر ہم کبھی بھی مضبوط رشتہ قائم نہیں کر سکیں گے۔ تعلق کا اصل حسن تو تب ہے جب ہم دوسروں کی کمزوریوں کے باوجود ان سے جڑے رہتے ہیں۔ اصل قربانی تب ہے جب ہم کسی کو اس کی عادتوں سمیت قبول کرتے ہیں اور اس کے باوجود اپنی محبت قائم رکھتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ زیادہ وقت گزارنے سے دوست کی خامیاں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ لیکن یہی وقت ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ صبر اور برداشت سے کس طرح پیش آ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں وہ صفت عطا کرتا ہے جو ہر بڑے انسان کی پہچان ہے: درگزر۔ اگر ہم دوسروں کے لئے درگزر کرنا سیکھ لیں تو ہم خود اپنی زندگی کو آسان بنا لیتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ انسان کی سب سے بڑی خامی اس کی اپنی انا ہے۔ انا ہی ہے جو ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ دوسروں کو ہمارے مطابق ہونا چاہیے۔ انا ہی ہے جو ہمیں دوسروں کی کمزوریوں پر شور مچانے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن جب انسان انا کے پردے کو ہٹا کر دیکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ دوسروں کا رویہ نہیں، بلکہ ہماری توقعات ہیں۔ اگر ہم اپنی توقعات کو کم کر لیں، دوسروں کو ان کی اصل شکل میں قبول کر لیں تو دنیا اچانک بہت روشن اور پرسکون لگنے لگتی ہے۔
زندگی کا سفر بہت مختصر ہے۔ ہمیں ہر وقت دوسروں کو بدلنے کی مشق نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی بجائے ہمیں اپنی ذات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہر انسان یہ سوچ لے کہ مجھے اپنا رویہ درست کرنا ہے، مجھے اپنی خامیوں پر قابو پانا ہے، تو پھر دوسروں کی کوتاہیاں خودبخود کم محسوس ہونے لگیں گی۔ تب ہمیں یہ بھی اندازہ ہوگا کہ دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے سے ان کی خامیاں نہیں، بلکہ ان کی انسانیت، ان کی محبت، ان کی قربانی اور ان کا خلوص زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔
یاد رکھیں، انسان کامل نہیں، دوستی کامل نہیں، تعلق کامل نہیں۔ کامل صرف برداشت اور محبت ہے اور یہ وہ تحفہ ہے جو ہم دوسروں کو دے سکتے ہیں۔ اگر ہم یہ تحفہ دینا سیکھ لیں تو ہماری زندگی بھی آسان ہو جائے گی اور ہمارے رشتے بھی۔
شاید اسی لئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ دوست ہمیشہ بناؤ، لیکن انہیں دل کے اتنا قریب نہ کرو کہ وہ تمہاری آزمائش بن جائیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ دوست اگر آزمائش بھی ہیں تو یہ وہ آزمائش ہے جو ہمیں بہتر انسان بناتی ہے۔ اگر ہم دوسروں کے ساتھ وقت گزار کر ان کی خامیوں کو برداشت کرنا سیکھ جائیں تو یہی دوستی ہمیں برداشت، درگزر اور محبت کا وہ سبق دیتی ہے جو دنیا کی کوئی کتاب نہیں سکھا سکتی۔
آخر میں، ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ دوسروں کا رویہ ہماری مرضی کے مطابق کبھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہمارا رویہ دوسروں کے لئے کیسا ہونا چاہیے، یہ مکمل طور پر ہمارے اختیار میں ہے اور یہی اختیار ہماری اصل طاقت ہے۔ یہی طاقت ہمیں ایک بہتر دوست، ایک بہتر انسان اور ایک بہتر معاشرہ بنا سکتی ہے۔

