Pyas, Jo Mutala Ban Gayi
پیاس، جو مطالعہ بن گئی

مطالعہ ایک ایسا چراغ ہے جو تاریکیوں میں راستہ دکھاتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو ہر ایک کے لیے کھلا ہے مگر صرف وہی اس پر چلتا ہے جس کے دل میں جستجو ہو، جو جاننے کی پیاس میں جل رہا ہو، جس کے دل میں لاعلمی کی گھٹن ہو اور جسے ہر جواب کے پیچھے چھپے سوال کی صدا سنائی دیتی ہو۔ مطالعہ کوئی فرض نہیں، یہ ایک ذوق ہے، ایک لطیف سا شوق جو اندر سے ابھرتا ہے، جو کسی نصیحت یا حکم سے پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اس وقت جنم لیتا ہے جب انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ نہیں جانتا، کہ دنیا بہت وسیع ہے اور وہ ابھی بہت چھوٹا ہے۔ یہ احساس جب رگ و پے میں اترتا ہے تو مطالعہ عبادت بن جاتا ہے اور کتابیں مصلٰی۔
مطالعہ کی جڑیں اس سوال میں پیوست ہوتی ہیں جو کسی لمحے اچانک ذہن میں پیدا ہوتا ہے: "ایسا کیوں ہے؟" جب یہ سوال دل میں اترتا ہے تو سکون سے بیٹھنا محال ہو جاتا ہے۔ تب انسان در بدر پھرتا ہے، لفظوں کے جنگل میں، سطروں کی گھاٹیوں میں، حرفوں کی پہاڑیوں پر اور وہ علم کے کسی چشمے تک پہنچنے کے لیے ہر کتاب کو کھنگالتا ہے۔ سوال کی تپش ہی مطالعہ کا پہلا محرک ہے۔ جس دل میں سوال نہ ہوں، اس دل کو کتابیں بےمعنی لگتی ہیں۔ اس لیے مطالعہ ہر شخص کا مقدر نہیں، بلکہ وہ نعمت ہے جو فقط طلبگار کو عطا ہوتی ہے۔ جو سیکھنے کی جستجو رکھتا ہو، جو حیرت کے احساس سے آشنا ہو، جو کسی بھی جواب سے مطمئن نہ ہو بلکہ ہر جواب میں ایک نیا سوال تلاش کرے۔
انسان جب محسوس کرتا ہے کہ وہ بہت کچھ نہیں جانتا، تب اس کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ لاعلمی کا یہ احساس ایک نعمت ہے۔ یہ انسان کے لیے آئینہ ہے، جس میں وہ خود کو اپنی اصل شکل میں دیکھتا ہے۔ مطالعہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان اپنی کمزوریوں کو پہچانتا ہے، اپنی سوچ کو بہتر بناتا ہے، اپنی فکر کو گہرا کرتا ہے اور بالآخر ایک متوازن اور بردبار انسان بن جاتا ہے۔ مطالعہ کا مقصد صرف معلومات کا حصول نہیں، بلکہ شعور کی تشکیل ہے۔ یہ شعور ہی ہے جو انسان کو بولنے سے پہلے سوچنے، لکھنے سے پہلے سمجھنے اور فیصلہ کرنے سے پہلے غور کرنے کی تربیت دیتا ہے۔
جو جتنا علم رکھتا ہے، وہ اتنا ہی جانتا ہے کہ وہ کتنا نہیں جانتا۔ یہی وہ راز ہے جو اہلِ علم کو مسلسل مطالعے پر اکساتا ہے۔ علم کا دریا ایسا ہے کہ جتنا پانی پیا جائے، پیاس اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ اہلِ علم کے ساتھ رابطہ انسان کو اس پیاس سے روشناس کراتا ہے۔ ان کی باتوں میں جو وسعت، گہرائی اور توازن ہوتا ہے، وہ سننے والے کے اندر ایک خاموش خلش پیدا کرتا ہے، ایک غیر مرئی طلب۔ انسان سوچنے لگتا ہے، "کاش میں بھی اتنا جانتا، کاش میری باتوں میں بھی ایسا وزن ہوتا"۔ یہی خلش مطالعہ کی طرف کھینچتی ہے اور یہ کھچاؤ وقتی نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا تعلق بن جاتا ہے جو عمر بھر ساتھ رہتا ہے۔ کتاب پھر ساتھی بن جاتی ہے، دوست، مشیر اور کبھی کبھی استاد۔
مطالعہ محض علم کا ذخیرہ نہیں، بلکہ یہ انسان کی شخصیت میں ایک نئی روح پھونکتا ہے۔ یہ سوچنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے، دوسروں کو سمجھنے کی قوت دیتا ہے، اختلاف کو برداشت کرنے کا ظرف عطا کرتا ہے اور انسان کو اپنے نظریات پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مطالعہ انسان کو تعصبات سے نکال کر وسعتِ نظر کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ یہ دل کو نرم کرتا ہے اور دماغ کو روشن۔ یہ اندر کے شور کو خاموش کرکے بیرونی شور میں سننے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ مطالعہ وہ آئینہ ہے جس میں انسان صرف دوسروں کو نہیں بلکہ خود کو بھی دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔
جہالت سے نفرت انسان کو علم کی تلاش میں لگا دیتی ہے۔ جو اپنے اندر جہالت کا وجود محسوس کرتا ہے، وہ اس سے فرار چاہتا ہے اور اس فرار کا واحد راستہ علم ہے۔ لیکن علم بازار میں بکتا نہیں، یہ صرف مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے اور مطالعہ وہ کھوج ہے جس میں انسان تنہا سفر کرتا ہے۔ اس راستے میں نہ تالیاں بجتی ہیں، نہ داد ملتی ہے، نہ کوئی پرستار ملتا ہے، بلکہ صرف خاموشی ہوتی ہے، تنہائی ہوتی ہے اور سطروں کا وہ سمندر ہوتا ہے جس میں غوطہ زن ہونے کے بعد انسان ایک نئی دنیا میں آنکھ کھولتا ہے۔ وہ دنیا جہاں ہر چیز کا مفہوم بدل جاتا ہے، جہاں ہر چیز کو ایک نیا تناظر ملتا ہے اور جہاں انسان خود کو نئے زاویے سے دیکھنے لگتا ہے۔
حقیقت کی طلب بھی مطالعہ کو جنم دیتی ہے۔ جو دنیا کے ظاہر پر مطمئن نہیں ہوتے، وہ باطن تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش کا ذریعہ مطالعہ ہے۔ ہر سطر ایک پردہ ہٹاتی ہے، ہر صفحہ ایک نئی کھڑکی کھولتا ہے اور یوں انسان حقیقت کے قریب تر ہوتا جاتا ہے۔ مطالعہ انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ سچائی کوئی جامد چیز نہیں، بلکہ ایک مسلسل سفر ہے۔ ہر کتاب ایک قدم ہے، ہر مصنف ایک ہم سفر۔ لیکن یہ سفر وہی کرتا ہے جو سچائی سے عشق رکھتا ہے۔ جو تقلید پر قناعت نہیں کرتا، جو روایت سے آگے بڑھنا چاہتا ہے، جو اپنے ذہن کے دروازے بند نہیں رکھتا بلکہ ان پر مسلسل دستک سنتا ہے۔
مطالعہ صرف نصابی کتابوں کا نام نہیں، بلکہ وہ شعور ہے جو زندگی کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنے کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔ یہ وہ تنقیدی نظر ہے جو سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔ یہ وہ داخلی روشنی ہے جو اندھیروں میں بھی راستہ دکھاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جتنے زیادہ سوالات ہوں، اتنی زیادہ مطالعے کی طلب ہوتی ہے۔ جو لوگ سوال کرنے کا فن سیکھ لیتے ہیں، وہی مطالعہ کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ سوالات وہ زینہ ہیں جس سے انسان علم کی چوٹی تک پہنچتا ہے اور مطالعہ وہ سیڑھی ہے جس پر ہر سوال ایک نیا قدم بن جاتا ہے۔
کبھی کبھی مطالعہ انسان کو اتنا تنہا کر دیتا ہے کہ وہ اپنے ہی خیالات سے ڈرنے لگتا ہے۔ لیکن یہ تنہائی ایک پاکیزہ خلوت ہوتی ہے، جس میں انسان اپنی ذات سے ہمکلام ہوتا ہے۔ یہ وہ خاموشی ہے جس میں سب سے گہری آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ مطالعہ انسان کو شور سے نکال کر ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں لفظوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور ہر لفظ ایک راز ہوتا ہے۔ ان رازوں کو سمجھنے کے لیے دل میں نرمی، ذہن میں وسعت اور آنکھوں میں جستجو ہونی چاہیے اور جب یہ سب مل جائے تو مطالعہ صرف ایک عمل نہیں رہتا، بلکہ ایک روحانی تجربہ بن جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہم نے مطالعہ کو ایک بوجھ سمجھ لیا ہے۔ ہم کتابیں صرف امتحان کے لیے پڑھتے ہیں، یا صرف وہی پڑھتے ہیں جو ہمارے نظریے کی تائید کرے۔ ہم نے سوالات سے ڈرنا سیکھ لیا ہے، ہم نے لاعلمی کو عیب سمجھ لیا ہے، ہم نے اہلِ علم کو صرف تقریروں کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مطالعہ اب ایک نایاب عمل بنتا جا رہا ہے۔ لیکن جو لوگ اس ذوق کو پال لیتے ہیں، وہ اندر سے روشن ہو جاتے ہیں۔ وہ کتابوں کو صرف معلومات کے لیے نہیں، بلکہ اپنی روح کی تسکین کے لیے پڑھتے ہیں۔ وہ مطالعے سے سکون حاصل کرتے ہیں اور اس سکون سے زندگی کو بہتر بناتے ہیں۔
مطالعہ وہ درخت ہے جس کی جڑیں سوالات میں، تنے میں پیاس، شاخوں میں جستجو اور پتوں میں سچائی ہوتی ہے۔ اس درخت کا پھل شعور ہوتا ہے، حکمت ہوتی ہے، بردباری ہوتی ہے۔ جو اس درخت کو اپنے دل میں اُگاتا ہے، وہ زمانے کے طوفانوں سے نہیں ڈرتا۔ اس کا وجود ٹھوس ہو جاتا ہے، اس کی بات میں وزن آ جاتا ہے اور اس کے کردار میں نرمی آ جاتی ہے۔ مطالعہ انسان کو صرف ذہنی طور پر نہیں، اخلاقی طور پر بھی بہتر بناتا ہے۔ یہ انسان کو خود پر قابو پانا سکھاتا ہے، دوسروں کو سمجھنے کا شعور دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ انسان کو انسان بناتا ہے۔
اور سب سے حسین بات یہ ہے کہ مطالعہ کا یہ ذوق جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے، اتنا ہی نکھرتا جاتا ہے۔ یہ شوق کبھی پرانا نہیں ہوتا، یہ کبھی ماند نہیں پڑتا۔ جو اس ذوق کو پالے، وہ عمر کے کسی بھی حصے میں نئی زندگی شروع کر سکتا ہے۔ جو مطالعہ سے دوستی کر لے، اسے تنہائی کا خوف نہیں رہتا، اسے جہالت کا ڈر نہیں رہتا اور اسے سچائی کا سامنا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ایسے لوگ زندگی کو ایک تحفہ سمجھتے ہیں اور مطالعہ کو اس تحفے کو سمجھنے کی کنجی۔
یقین کیجئے، مطالعہ صرف کتابوں کا ذخیرہ نہیں، بلکہ وہ زادِ راہ ہے جس کے بغیر کوئی بھی قافلہ علم کی وادی میں سفر نہیں کر سکتا۔ اس لیے اگر آپ کے دل میں کبھی لاعلمی کا احساس پیدا ہو، اگر آپ کو کبھی سچائی کی پیاس لگے، اگر آپ کو کبھی سوالوں نے بےچین کر دیا ہو، تو سمجھ لیجیے کہ آپ مطالعے کے لیے تیار ہیں۔ بس ایک کتاب اُٹھائیے اور سفر شروع کیجیے۔ یہ سفر مشکل ضرور ہے، مگر اس کا ہر لمحہ زندگی بدلنے والا ہوتا ہے اور جو اس سفر پر نکل پڑے، وہ کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں آتا۔

