Punjab Mein Tibbi Taleem Ki Intehai Be Rehmana Policy
پنجاب میں طبی تعلیم کی انتہائی بے رحمانہ پالیسی

پاکستان اس وقت ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں ایک طرف ہمارے حکمران دن رات ملک اور قوم کے لیے بے پناہ محنت کر رہے ہیں، تو دوسری طرف کچھ پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کے دلوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف دن رات جاگ کر کام کر رہے ہیں، ان کے اخلاص اور نیک نیتی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ان کی کاوشوں کے لیے دل سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں صحت، طاقت اور بصیرت عطا فرمائے، ان کے قدموں کو استقامت بخشے اور پاکستان کو دنیا کا سب سے روشن ستارہ بنانے کی توفیق دے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے اس ملک کے لیے جو انقلابی اقدامات کیے وہ تاریخ کا روشن باب ہیں اور آج ان کی بیٹی پنجاب میں اور ان کے بھائی مرکز میں اسی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود، کچھ فیصلے ایسے ہیں جو عوام کے لیے اذیت کا سبب بن جاتے ہیں اور قوم کے نونہالوں کے خواب توڑ دیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک پنجاب کی حالیہ میڈیکل کالج داخلہ پالیسی ہے، جس نے لاکھوں غریب اور محنت کش خاندانوں کے دلوں کو زخمی کر دیا ہے۔
یہ پالیسی اس قدر بے رحمانہ اور غیر منصفانہ ہے کہ اب ایک غریب کا بچہ میڈیکل کالج میں داخلے کا خواب دیکھنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔ پہلے ہی طبی تعلیم کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کر دیا گیا تھا، اب اس نئی پالیسی نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ فیسیں اتنی بڑھا دی گئی ہیں کہ ایک متوسط یا غریب خاندان کے لیے یہ سوچنا بھی محال ہوگیا ہے کہ ان کا بچہ ڈاکٹر بن سکے گا۔ تعلیم کو اگر کاروبار اور منافع کمانے کا ذریعہ بنا دیا جائے تو پھر یہ ملک کے مستقبل کے ساتھ ایک کھلا مذاق ہے۔
وزیراعظم صاحب! تعلیم کو پیسہ کمانے کا ذریعہ نہ بنائیے۔ آپ کا تعلق ایک پرانے کاروباری خاندان سے ہے آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ پیسہ بنانے کے ہزاروں اور طریقے ہیں۔ ان طریقوں کو اپنائیے لیکن تعلیم کو عوام کے لیے آسان بنائیے۔ اگر یہ بچے آج سستی یا مفت تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بنیں گے تو کل یہی اس ملک کی خدمت کریں گے اور اپنی مہارت، محنت اور ایمانداری سے آنے والی کئی دہائیوں تک ملک کو ہزار فیصد زیادہ کما کر دیں گے۔ تعلیم پر خرچ اصل سرمایہ کاری ہے، لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں تعلیم کو ایک ناقابل برداشت بوجھ بنا دیا گیا ہے۔
پالیسی کا ایک اور انتہائی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے بچوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ جو پاکستانی مزدوری کے لیے اکیلے پردیس جاتے ہیں، جن کے خاندان یہاں رہ جاتے ہیں، ان کے بچوں کے لیے میڈیکل کالج کے کوٹے کو ختم کرکے صرف ان پاکستانیوں کے بچوں کے لیے رکھا گیا ہے جو اپنے پورے خاندان کے ساتھ بیرونِ ملک رہتے ہیں۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ یہ کوٹہ اصل میں تمام سمندر پار پاکستانیوں کا تھا اور سب کو برابر کا حق ملنا چاہیے تھا۔ اب یہ کوٹہ صرف ان لوگوں کے پاس چلا گیا ہے جن کے خاندان بھی ان کے ساتھ باہر ہیں۔ وہ غریب مزدور جو اپنا خون پسینہ بہا کر پاکستان کی معیشت کو سہارا دیتے ہیں، ان کے بچوں کے لیے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ یہ کیسی ناانصافی ہے؟ کیا وہ غریب پاکستانی جو برسوں اپنے بچوں سے دور رہتے ہیں تاکہ پاکستان میں زرِ مبادلہ بھیج سکیں، کیا ان کے بچوں کو ڈاکٹر بننے کا حق نہیں ہے؟ کیا ان کی قربانیاں رائیگاں جائیں گی؟
وزیراعظم صاحب! آپ تو جانتے ہیں کہ غریب مزدور کی کمائی کہاں کہاں خرچ ہوتی ہے۔ وہ دن رات محنت کرتا ہے، پیسہ بھیجتا ہے تاکہ یہاں اس کا خاندان جی سکے۔ وہ اپنی ذات کو قربان کر دیتا ہے، اپنی جوانی، اپنے دن رات پردیس کی آگ میں جلا دیتا ہے تاکہ اس کے بچے پڑھ لکھ سکیں اور آگے بڑھ سکیں۔ لیکن اس پالیسی نے ان کے خواب چکنا چور کر دیے ہیں۔ وہ کیسے برداشت کریں گے کہ ان کے خون پسینے کی کمائی سے چلنے والے ملک میں ان کے بچوں کے ساتھ یہ زیادتی ہو؟ آپ کے دل پر کیا گزرے گی اگر آپ کے سامنے کوئی مزدور والد یہ کہے کہ "وزیراعظم صاحب! ہم تو مسافر ہیں، مسافر کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی، لیکن آپ کی پالیسی نے ہمیں بددعا دینے پر مجبور کر دیا ہے"۔
وزیراعلیٰ صاحبہ مریم نواز! آپ سے ہماری اپیل ہے کہ اپنی پالیسی پر ازسرِ نو غور فرمائیے۔ تعلیم پر رحم کیجیے۔ میڈیکل تعلیم کو بھاری فیسوں سے آزاد کیجیے۔ یہ صرف امراء کا حق نہیں ہے کہ ان کے بچے ڈاکٹر بنیں، یہ حق غریب کے بچے کا بھی ہے۔ تعلیم کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہونا چاہیے۔ یہی اس ملک کی اصل خدمت ہے۔ یہی اصل انقلاب ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ایک غریب خاندان کا بچہ ڈاکٹر بنتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے خاندان کی تقدیر بدل دیتا ہے بلکہ پورے علاقے کے لیے روشنی کا چراغ بن جاتا ہے۔ وہ اپنے جیسے غریبوں کا سہارا بنتا ہے۔ لیکن اگر یہ راستے بند ہو جائیں تو پھر صرف وہی بچے آگے بڑھیں گے جن کے والدین کے پاس دولت ہے اور یوں ملک میں ایک نیا طبقاتی نظام کھڑا ہو جائے گا، جہاں علم صرف امراء کی جاگیر ہوگا۔ کیا یہی خواب ہے اس پاکستان کا جس کے لیے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں؟ کیا یہی خواب ہے قائداعظم کا کہ تعلیم چند خاندانوں تک محدود ہو جائے؟
وزیراعظم صاحب اور مریم نواز صاحبہ! اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے، آپ تاریخ بدل سکتے ہیں۔ آپ اگر یہ پالیسی واپس لیں، تعلیم کو سستا اور سب کے لیے برابر کریں، سمندر پار پاکستانیوں کے تمام بچوں کو برابر کا حق دیں، تو آپ کو نہ صرف ملک کے اندر دعائیں ملیں گی بلکہ باہر بیٹھے لاکھوں پاکستانی مزدور آپ کو دل سے یاد کریں گے۔ مسافر کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ اللہ بھی ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو شفقت کرتے ہیں، جو نرمی اختیار کرتے ہیں، جو عوام پر بوجھ نہیں ڈالتے بلکہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔
آج یہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ تعلیم کو کاروبار بناتے ہیں یا خدمت کا ذریعہ۔ آپ اگر اس قوم کے بچوں پر رحم کریں گے، تو یہ قوم کل آپ کے لیے دعاؤں کا حصار کھڑا کر دے گی۔ لیکن اگر یہ دروازے بند کر دیے گئے، تو پھر یہ ملک اپنے ہی نونہالوں کے خوابوں کو دفن کر دے گا۔
ہم آپ سے اپیل کرتے ہیں، وزیراعظم صاحب! مریم نواز صاحبہ! رحم کیجیے۔ سختی نہ کیجیے۔ یہ قوم آپ سے محبت کرتی ہے، آپ کے ساتھ کھڑی ہے، لیکن یہ محبت اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب آپ عوام کے دکھ درد کو سمجھیں گے۔ تعلیم سب کا حق ہے، اسے سب کے لیے آسان بنائیے۔

