Post Truth Ka Zamana, Jab Jhoot Sach Ban Gaya
پوسٹ ٹروتھ کا زمانہ، جب جھوٹ سچ بن گیا

یہ دنیا ہمیشہ سے سچ اور جھوٹ کی کشمکش کا میدان رہی ہے۔ کبھی سچ غالب آ جاتا ہے، کبھی جھوٹ کا طوفان سب کچھ ڈھانپ لیتا ہے۔ مگر جو زمانہ ہم میں سے ہر ایک اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، اسے شاید سب سے زیادہ خطرناک اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں جھوٹ نے نہ صرف اپنی موجودگی کو عام کر لیا ہے بلکہ اسے قبولیت بھی مل چکی ہے۔ یہ وہ دور ہے جسے دانشوروں نے Post Truth Era یعنی "عہدِ بعد از سچائی" کا نام دیا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جہاں سچ کوئی مطلق قدر نہیں رہا، بلکہ ایک "رائے" بن چکا ہے۔ اب حق وہی ہے جو ہمارے مفاد میں ہو، جو ہمیں اچھا لگے، یا جو ہمیں کسی وقتی فائدے کی صورت میں دکھائی دے۔
سچ کی جگہ اب جذبات نے لے لی ہے۔ دلائل کی جگہ احساسات نے۔ ثبوت کی جگہ تاثر نے اور یوں دنیا کی فکری بنیادیں ہل گئی ہیں۔ اب یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص دن دہاڑے جھوٹ بولے، مگر اگر وہ جھوٹ ہمارے تعصبات کے مطابق ہو، تو ہم نہ صرف اسے مان لیتے ہیں بلکہ اس کے دفاع میں سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے دور میں سچائی کی تعریف بدل گئی ہے۔ اب سچ وہ نہیں جو ثابت ہو سکے، بلکہ وہ ہے جو زیادہ شیئر ہو جائے۔
یہ وہ زہر ہے جو خاموشی سے ہماری رگوں میں اتر چکا ہے۔ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں رہا۔ ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی درجے میں اس فریب کا حصہ بن چکا ہے۔ سیاست سے لے کر مذہب، معیشت سے لے کر میڈیا، تعلیم سے لے کر عدلیہ۔ ہر شعبے میں سچائی پس منظر میں چلی گئی ہے۔ ہر طرف مفادات کے جال ہیں، خود غرضی کے سودے ہیں اور فریب کے نقاب ہیں۔ یہ وہ سماج ہے جہاں کردار سے زیادہ تاثر، دیانت سے زیادہ چالاکی اور سچ سے زیادہ داستان کی اہمیت ہے۔
انسانی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا وقت آیا ہو جب سچائی اتنی کمزور اور جھوٹ اتنا طاقتور رہا ہو۔ پہلے جھوٹ بولنے والا جانتا تھا کہ وہ غلطی کر رہا ہے، کم از کم ضمیر کبھی نہ کبھی جاگ جاتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے کو یقین ہے کہ وہی سچ کہہ رہا ہے۔ ضمیر مر نہیں گیا، بلکہ سو چکا ہے۔ انسان نے جھوٹ کو اتنی بار دہرایا ہے کہ اب وہی اس کی حقیقت بن گیا ہے۔ یہی تو پوسٹ ٹروتھ کا کمال ہے۔ جھوٹ کو اتنا بار دہراؤ کہ وہ "اپنا سچ" بن جائے۔
سیاست میں دیکھ لیجیے، وعدے جھوٹے، بیانات متضاد، مگر نعرے سچے دکھائی دیتے ہیں۔ میڈیا میں خبریں سچائی پر نہیں، ریٹنگ پر بنتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر شخص خبر رساں ہے، مگر سچائی کا کوئی ضامن نہیں۔ مذہب کے نام پر جذبات کو بھڑکانے والے وہی لوگ ہیں جو خود سب سے زیادہ مذہب سے دور ہیں۔ کاروبار میں دیانت کو "سادگی" سمجھ کر ٹھٹھا اڑایا جاتا ہے اور جھوٹے سودے کو "سفارت کاری" کہا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ اتفاقیہ نہیں ہے۔ یہ ایک سوچا سمجھا عمل ہے۔ دنیا کے بڑے نظام اب انسان کو سچ سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ سچ آزاد کرتا ہے اور غلامی کے نظام کو آزادی سے ڈر لگتا ہے۔ جھوٹ کے نظام کو زندہ رکھنے کے لیے سچ کو مسخ کرنا ضروری ہے۔ یہی قانونِ شیطان ہے۔ دھوکا، فریب اور تحریف۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان بھول جائے کہ حق اور باطل میں فرق کیا ہے۔ کہ جھوٹ محض اخلاقی کمزوری نہیں، بلکہ روح کی موت ہے۔
قرآن بار بار کہتا ہے کہ سچ بولنے والوں کے لیے نجات ہے اور جھوٹ بولنے والوں پر لعنت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جھوٹ انسان کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف"۔ مگر ہم نے اس بات کو روایت بنا کر چھوڑ دیا۔ اب جھوٹ محض جھوٹ نہیں رہا، بلکہ ایک "حکمت عملی" بن چکا ہے۔ ہم جھوٹ کو "چالاکی" سمجھتے ہیں اور سچ کو "کم عقلی"۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا پورا اجتماعی ضمیر زنگ آلود ہوگیا ہے۔
ہمیں یہ احساس دوبارہ پیدا کرنا ہوگا کہ جھوٹ محض زبان کا فعل نہیں بلکہ دل کی بیماری ہے۔ جھوٹ صرف سچائی کی ضد نہیں، بلکہ ایمان کی ضد ہے۔ جس نے جھوٹ کو اپنایا، اس نے دراصل شیطان کے قانون کو تسلیم کر لیا۔ یہی وہ قانون ہے جس کے تحت دنیا چل رہی ہے۔ دھوکے کا، فریب کا، تاثر کا، مفاد کا اور یہی وہ قانون ہے جسے ہمیں شکست دینی ہے۔
ہم دوبارہ سچ کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم خود بھی اس فریب کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنی بات، اپنے عمل، اپنے رویے اور اپنے ذرائع معلومات پر شک کرنا ہوگا۔ سچ کی تلاش وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے آپ پر سوال اٹھانے کی ہمت رکھتا ہو۔ جو اپنی غلطی کو ماننے کی جرات رکھتا ہو۔
ہمیں قانونِ الٰہی کی طرف واپس جانا ہے، کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جو سچ کی بنیاد پر قائم ہے۔ قرآن کہتا ہے: "حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، یقیناً باطل مٹنے ہی والا ہے"۔ (الاسراء: 81) مگر شرط یہ ہے کہ ہم سچ کو "ماننے" پر ہی نہ رکیں بلکہ اسے "جینے" کا فیصلہ کریں۔ سچ بولنا صرف زبان کا کام نہیں، کردار کا امتحان ہے۔ سچ بولنے والا ہمیشہ اکیلا ہوتا ہے، مگر تاریخ اسی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔
ہمیں اپنے گھروں، اداروں، اسکولوں، میڈیا، عدالتوں اور سیاست میں سچائی کو دوبارہ جگہ دینی ہوگی۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ کامیابی کا معیار دولت نہیں بلکہ دیانت ہے۔ ہمیں میڈیا سے مطالبہ کرنا ہوگا کہ وہ ریٹنگ کے لیے نہیں بلکہ حقیقت کے لیے خبر دے۔ ہمیں سیاست دانوں سے کہنا ہوگا کہ وہ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ سچائی کے لیے بولیں اور سب سے بڑھ کر ہمیں خود کو یہ کہنا ہوگا کہ سچائی کبھی پرانی نہیں ہوتی، بلکہ وہی وقت کو معنی دیتی ہے۔
یہ سچائی کی واپسی کا سفر آسان نہیں۔ اس میں تنقید ہوگی، مخالفت ہوگی، نقصان ہوگا۔ مگر یہی تو قربانی ہے جو سچ کے لیے دینی پڑتی ہے۔ ہم اگر واقعی اس دنیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں سچ بولنے کی عادت اور جھوٹ سے نفرت کی جرات پیدا کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے معاشرتی نظام میں دوبارہ وہ روشنی بھرنی ہوگی جو "ایمان" سے جنم لیتی ہے، نہ کہ "مفاد" سے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جھوٹ سے وقتی فائدہ ضرور ہوتا ہے، مگر انجام ہمیشہ تباہی ہے۔ سچ سے وقتی نقصان ہو سکتا ہے، مگر انجام ہمیشہ عزت ہے۔ دنیا نے جھوٹ سے بڑی بڑی سلطنتیں بنتے دیکھی ہیں، مگر وہ سب زمین بوس ہوگئیں۔ سچائی کبھی فنا نہیں ہوتی، کیونکہ وہ خالق کے قانون سے جڑی ہے۔
آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل محفوظ ہو، تو ہمیں اس پوسٹ ٹروتھ کے اندھیرے سے نکل کر روشنی کی طرف آنا ہوگا۔ ہمیں وہی بات پھر ماننی ہوگی جو ہمیشہ سے سچ رہی ہے، کہ حق ایک ہے اور باطل ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ جھوٹ کی بنیاد پر دنیا نہیں چل سکتی۔ یہ تجربہ ہم ہزار بار کر چکے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم پھر سے قانونِ الٰہی کی پناہ میں آئیں، سچ کو اپنا شعار بنائیں اور قانونِ شیطان کو شکست دیں۔
سچ کی واپسی ہی انسانیت کی بقا ہے اور جو اس سفر پر نکلے گا، وہ تنہا نہیں ہوگا، کیونکہ اللہ ہمیشہ سچوں کے ساتھ ہے۔

