Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Phirta Hai Zamane Mein Khuda Bhes Badal Ke

Phirta Hai Zamane Mein Khuda Bhes Badal Ke

پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کے

آدم کی کسی روپ میں تحقیر نہ کرنا
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کے

یہ شعر ایک دروازہ ہے۔ ایک ایسا دروازہ جو انسان کو خود اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ محض دو مصرعے نہیں، یہ کائنات کی سب سے بڑی روحانی حقیقت کا خلاصہ ہیں۔ یہ وہ صدا ہے جو صدیوں سے اہلِ دل کے کانوں میں گونجتی رہی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی تحقیر دراصل اس خالقِ حقیقی کی توہین ہے جس نے اسے اپنی روح سے مزین کرکے زمین پر بھیجا۔

ہماری دنیا بظاہر ترقی یافتہ ہے، مگر اس کی روح میں زوال ہے۔ انسان آج بھی انسان کو کمتر سمجھتا ہے۔ کبھی رنگ، کبھی نسل، کبھی مذہب، کبھی زبان اور کبھی محض مادی حیثیت کی بنیاد پر۔ ہم نے انسان کو انسان ماننا چھوڑ دیا ہے۔ کسی کے کپڑوں، کسی کے لہجے، کسی کے عقیدے یا کسی کے غربت زدہ چہرے پر فیصلے صادر کر دیتے ہیں۔ مگر شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ خالق نے کہا تھا، "وَلَقَدُ كَرَّمُنَا بَنِي آدَمَ"، یعنی ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔ یہ عزت خدا نے دی ہے، انسان نے نہیں، لہٰذا کوئی بھی انسان کسی دوسرے کو اس عزت سے محروم نہیں کر سکتا۔

اگر ہم غور کریں تو یہ شعر دراصل انسان کے باطن میں چھپے الوہی نور کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خدا ہر لمحہ کائنات کے ہر ذرے میں جلوہ گر ہے۔ کبھی مسکین کے چہرے پر، کبھی یتیم کے آنسوؤں میں، کبھی مزدور کے پسینے میں، کبھی ماں کی دعا میں اور کبھی اس فقیر کی خاموش مسکراہٹ میں جو سب کچھ کھو کر بھی مطمئن رہتا ہے۔ مگر ہم اندھے ہیں، ہمیں خدا صرف مسجد کے اندر، یا کسی مخصوص لباس میں، یا کسی خاص تسبیح کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنی تخلیق کے ہر روپ میں موجود ہے۔

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ شاید جس فقیر کو ہم صدقے کا سکہ پھینک کر آگے بڑھ جاتے ہیں، وہی فقیر خدا کی سب سے پیاری مخلوق ہو؟ شاید وہی ہمارے رزق کا ذریعہ ہو، ہماری دعاؤں کی قبولیت کی کنجی ہو۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بڑے بڑے ولیوں نے خدا کو انسانوں کی صورتوں میں دیکھا، ان کے رویوں میں پہچانا اور اسی معرفت سے اپنے دلوں کو جِلا دی۔

مگر آج کا انسان؟ آج کا انسان اپنی برتری کے خمار میں بدمست ہے۔ اسے اپنی گاڑی، اپنی ڈگری، اپنا عہدہ، اپنا بینک اکاؤنٹ، اپنا لباس اور اپنی "پہچان" عزیز ہے۔ وہ خود کو خدا سے زیادہ سمجھدار سمجھ بیٹھا ہے۔ دوسروں کو دیکھتا ہے تو ان میں عیب تلاش کرتا ہے، اپنے اندر جھانکنے کی زحمت نہیں کرتا۔ یہ وہی انسان ہے جو کسی کو جھاڑ کر کہتا ہے، "تمہیں کیا پتا، تم کون ہو؟" اور دراصل وہی شخص یہ سوال خود سے نہیں پوچھتا کہ میں کون ہوں؟

کبھی کبھی خدا انسانوں کے بھیس میں آتا ہے، آزمانے کے لیے۔ وہ دیکھتا ہے کہ تم اس کے بندے کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو۔ شاید وہ تمہارے دروازے پر بھوکا آ کر کھڑا ہو اور تم اسے جھڑک دو۔ شاید وہ تمہارے ماتحت کسی کمزور کی شکل میں ہو اور تم اس پر آواز چڑھا دو۔ شاید وہ کسی ٹھیلے والے کے روپ میں ہو جس سے تم جھگڑ جاؤ اور پھر تم یہ بھول جاؤ کہ تم دراصل خدا کے امتحان میں فیل ہو چکے ہو۔

قرآن کہتا ہے، "فَأَيُنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجُهُ اللَّهِ"، تم جدھر بھی رخ کرو، خدا کا چہرہ وہیں ہے۔

تو پھر ہم کسی چہرے کی توہین کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم کسی آنکھ کو حقیر کیسے کہہ سکتے ہیں، جب اس میں خدا کی نشانی ہے؟

ایک صوفی نے کہا تھا، "جب تو کسی انسان سے نفرت کرتا ہے، تو دراصل تو اس خدا سے نفرت کرتا ہے جس نے اسے بنایا ہے" اور یہی وہ نکتہ ہے جو اس شعر میں مضمر ہے۔

"آدم کی کسی روپ میں تحقیر نہ کرنا، پھرتا ہے زمانے میں خدا روپ بدل کے"، یعنی خدا کبھی سوال بن کر آتا ہے، کبھی جواب بن کر، کبھی غم بن کر، کبھی خوشی بن کر، کبھی زخم بن کر، کبھی مرہم بن کر۔ جو انسان اس کی تلاش میں ہے، وہ ہر شے میں اسے پہچان لیتا ہے۔

کائنات کے ہر ذرے میں خدا کا عکس ہے۔ درختوں کے سبز پتوں میں، پرندوں کی چہچاہٹ میں، جھُرنوں گڑگڑاہٹ میں، ندی کے شور میں، ایک بچے کی مسکراہٹ میں، ایک بزرگ کے جھری دار چہرے میں، ہر شے میں وہ جھلکتا ہے۔ لیکن جو انسان دوسرے انسانوں کی تذلیل کرتا ہے، وہ دراصل خدا کی اس جھلک کو مٹا دیتا ہے۔

ہم سب کو کبھی نہ کبھی اپنی روح کے اندر یہ سوال ضرور گونجتا ہے کہ "آخر میں کس چیز سے بہتر ہوں؟" میری ظاہری حالت، میری زبان، میرا مذہب، یا میرا مقام؟ اگر خدا نے چاہا تو یہ سب پل میں چھن سکتا ہے۔ مگر اگر تم نے انسانیت کی لاج رکھی، تو وہ تمہارے اندر اپنا نور ڈال دے گا۔

اسی لیے قرآن کہتا ہے، "إِنَّ أَكُرَمَكُمُ عِندَ اللَّهِ أَتُقَاكُمُ"، خدا کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، نہ کہ امیر، طاقتور یا مشہور۔

یہ شعر ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ انسانیت کا جوہر روحانی ہے، ظاہری نہیں۔ انسان کی اصل پہچان اس کا کردار ہے، نہ کہ اس کی قمیص، داڑھی، یا زبان۔ خدا کی پہچان کرنے والا شخص کسی کو کمتر نہیں کہہ سکتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خدا اپنی مخلوق میں سانس لیتا ہے۔

یہی صوفیا کی تعلیم تھی۔ وہ کہتے تھے، "خدا سے محبت کا پہلا زینہ مخلوق سے محبت ہے"۔ رومیؒ نے کہا تھا: "میں نے خدا کو انسان کے چہرے میں دیکھا"۔ بلھے شاہ نے کہا: "منہ زور دنیا نوں چھوڑ کے آ، اندر رب دا نور پیا"۔ یہ سب اسی ایک پیغام کی مختلف آوازیں ہیں، آدم کی تحقیر نہ کرو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اس میں خدا چھپا ہو۔

ہمیں اپنی آنکھوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ شاید منظر بدلنے کی ضرورت نہیں، نظر بدلنے کی ضرورت ہے۔ جس دن ہم نے ہر انسان میں خدا کا عکس دیکھ لیا، اس دن دنیا بدل جائے گی۔ نفرتیں مٹ جائیں گی، طبقات کا فرق ختم ہو جائے گا اور زمین جنت بن جائے گی۔ مگر تب تک ہم اندھے رہیں گے، جب تک ہم دوسرے انسانوں میں خدا کو دیکھنے کے بجائے اپنے آپ کو "خدا" سمجھتے رہیں گے۔

اگر تم کسی کی مدد کرتے ہو تو یہ سمجھ کر نہ کرو کہ تم اسے دے رہے ہو۔ یہ سمجھو کہ تمہیں موقع دیا گیا ہے کہ تم خدا کی خدمت کر سکو۔ اگر تم کسی کو معاف کرتے ہو تو یہ سوچو کہ تم خدا کے مزاج کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہو۔ اگر تم کسی کے لیے آسانی پیدا کرتے ہو تو جان لو کہ وہ آسانی تمہارے لیے لکھ دی گئی ہے۔

زندگی ایک مسلسل امتحان ہے۔ ہر چہرہ، ہر لمحہ، ہر واقعہ ایک آزمائش ہے اور کبھی کبھار وہی معمولی سا لمحہ، وہی معمولی سا انسان تمہارے لیے نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ خدا چھپ کر آتا ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ دیکھنا چاہتا ہے، کون اسے پہچانتا ہے۔

اس شعر کا پیغام صرف اخلاقی نہیں، یہ روحانی بیداری کی صدا ہے۔ یہ کہتا ہے: "اگر تم نے کسی انسان کو حقیر جانا، تو سمجھو تم نے اپنے خالق کے نور کو ٹھکرا دیا" اور اگر تم نے ہر انسان میں خدا کا عکس پہچان لیا، تو سمجھو تم نے خدا کو پا لیا۔

یہی اصل معرفت ہے۔ یہی اصل دین ہے۔ یہی اصل انسانیت ہے۔ آدم کی تحقیر مت کرو۔ کیونکہ شاید اگلے لمحے وہی آدم تمہارے رب کا روپ لیے تمہارے سامنے کھڑا ہو۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam