Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Pakistan Wahan Hai Jahan Fazal Mahmood Rehte Hain

Pakistan Wahan Hai Jahan Fazal Mahmood Rehte Hain

پاکستان وہاں ہے جہاں "فضل محمود" رہتے ہیں

1955 کا سال تھا۔ لندن کے ایک چھوٹے سے سکول کے کلاس روم میں جغرافیہ کی استانی کھڑی تھی۔ کمرہ گرم تو نہیں تھا، مگر بچوں کے چہروں پر معصومیت کی چمک نے فضا میں روشنی سی پھیلا رکھی تھی۔ استانی نے تختۂ سیاہ پر ایک بڑا سا نقشہ چاک سے بنایا اور نرمی سے پوچھا: "بچو! بتاؤ، پاکستان کہاں ہے؟"

کلاس میں خاموشی چھا گئی۔ ننھی منی بچیاں، جن کے گال سیب جیسے اور لہجے میں مٹھاس گھلی تھی، ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگیں۔ کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ پاکستان کس براعظم میں ہے، کہاں واقع ہے، یا کس قسم کے لوگ وہاں رہتے ہیں۔ لیکن ایک بچی نے اچانک ہاتھ کھڑا کیا۔ استانی نے مسکرا کر پوچھا، "ہاں بیٹی، تم بتاؤ؟"

بچی نے معصومیت سے کہا، "پاکستان وہ جگہ ہے جہاں فضل محمود رہتے ہیں"۔

یہ جواب ایک چھوٹی بچی کا تھا، مگر دراصل یہ ایک قوم کی پہچان کا اعلان تھا۔ وہ وقت تھا جب پاکستان ایک نیا ملک تھا، نقشے پر بھی نیا، دنیا کی سیاست میں بھی نیا۔ مگر اس ایک شخص، فضل محمود، نے اسے دنیا کے نقشے پر روشن کر دیا تھا۔ لندن، مانچسٹر، میلبورن، پورٹ آف سپین اور دہلی کے بچے تک جانتے تھے کہ فضل محمود کون ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک کرکٹر اپنے ملک کی شناخت بن جاتا تھا، جب قوم کا فخر سفید گیند سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے جھلکتا تھا۔

فضل محمود صرف ایک باؤلر نہیں تھے، وہ پاکستان کے خواب کی عملی تعبیر تھے۔ وہ اس نسل سے تھے جس نے برصغیر کی تقسیم دیکھی، جس نے خاک اور خون کے دریا پار کرکے ایک نئے وطن میں قدم رکھے اور جس نے اپنے زورِ بازو سے دنیا کو بتایا کہ یہ قوم کمزور نہیں۔ وہ گلابی گالوں، سیاہ بالوں اور شب رنگ پلکوں کے سائے میں جھیل سی نیلی آنکھوں والے، فخر سے کندھے جھٹکنے والے اور چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ سجائے، جب گیند ہاتھ میں لیتے تو صرف باؤلر نہیں، ایک پوری قوم ان کے بازو میں سمٹ آتی۔ ان کی ہر وکٹ، ہر اسپیل، پاکستان کے نام کا اعلان ہوتا۔

یہ واقعہ صرف ایک کرکٹر کی شہرت کا قصہ نہیں۔ یہ ایک پیغام ہے کہ قومیں اپنی پہچان اپنے کردار، محنت اور دیانت سے بناتی ہیں۔ فضل محمود کے پاس آج کے کھلاڑیوں جیسی سہولیات نہیں تھیں۔ نہ اسپانسرشپ، نہ فائیو اسٹار ہوٹل، نہ میڈیا کوریج۔ ان کے پاس صرف ایک چیز تھی۔ اپنے ملک سے محبت۔ وہ محبت جو ہر گیند کے ساتھ پھسلتی ہوئی دنیا کے سامنے پاکستان کا پرچم لہرا دیتی۔

اور یہی وہ جذبہ ہے جو اس قوم کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ وہی جذبہ جو ایک مزدور کو دھوپ میں پسینہ بہانے پر مجبور کرتا ہے تاکہ اس کے بچوں کی کتابیں تر نہ ہوں۔ وہی جذبہ جو ایک فوجی کو برف میں کھڑا رکھتا ہے تاکہ کسی بچے کے کانچ جیسے ہاتھ سردی سے نہ پھٹ جائیں۔ وہی جذبہ جو ایک استاد کو شام دیر تک اسکول میں روک لیتا ہے تاکہ اس کا شاگرد زندگی کے امتحان میں کامیاب ہو سکے۔ وہی جذبہ جو ایک پائیلٹ کو لمبی سرد اندھیری راتوں میں ہوا میں رکھتا ہے کہ اس ملک کے نونہال گہری نیند لے کر صبح سکول جا سکیں۔

ہماری پہچان فضل محمود جیسے لوگ ہیں۔ وہ جو خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں، مگر ان کے کام کی بازگشت برسوں بعد بھی دنیا کے گوشے گوشے میں سنائی دیتی ہے۔ آج ہم شاید انہیں بھول گئے ہیں، مگر دنیا نے انہیں اس وقت یاد رکھا جب پاکستان کا نام نیا تھا اور وہ اس نام کے ساتھ ایک خواب کی طرح جگمگا رہے تھے۔

یہ قوم جب بھی گمراہ ہوتی ہے، جب بھی مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکتی ہے، اسے یہی کردار یاد دلانے چاہییں۔ وہ کردار جنہوں نے بنا ساز و سامان کے، بنا وسائل کے، صرف اپنے جذبے سے معجزے کر دکھائے۔ جیسے سات میں کی شب آسمانوں کے بازوں نے دکھائے۔ سیاہ تاریک رات ان کی آنکھوں کے نور کو دھندلا نہ سکی۔ یہ لوگ یاد دلاتے ہیں کہ وطن کی خدمت کے لیے دولت نہیں، نیت درکار ہے۔ ان کے ہاتھوں میں سونے کی چمک نہیں تھی، مگر ان کے دلوں میں ایمان کی روشنی ضرور تھی۔

آج کا پاکستان مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ معیشت کمزور، سیاست بکھری اور معاشرہ تقسیم۔ مگر اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں، تو ہمیں بار بار ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے ناممکن کو ممکن بنایا۔ وہ سائنس دان جو لیبارٹری کے ٹوٹے آلات سے ایٹمی قوت بن گئے، وہ فوجی جو دشمن کے ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوا، وہ استاد جس نے مٹی کی چھت تلے نسلوں کو تعلیم دی، وہ ڈاکٹر جو آفت کے دنوں میں بغیر اجرت کے مریضوں کے زخم بھرتا رہا۔ وہ ہواباز جو جان پر کھیل کر فضاؤں کی حفاظت پر معمور رہا، جھپٹتا پلٹتا رہا اور فضاؤں کا بادشاہ کہلایا۔

یہ سب ہمارے فضل محمود ہیں۔ یہ سب اس بچی کے جواب کی توسیع ہیں، "پاکستان وہاں ہے جہاں فضل محمود رہتے ہیں"۔ یعنی جہاں محبت، دیانت اور قربانی کا جذبہ زندہ ہے، وہی پاکستان ہے۔ چاہے وہ گاؤں کی مٹی ہو، شہر کا شور، یا بیرون ملک کسی مزدور کا پسینہ۔

مگر سوال یہ ہے کہ آج فضل محمود کہاں ہیں؟ کیا وہ جذبہ، وہ خلوص، وہ وطن سے عشق ہمارے اندر باقی ہے؟ آج ہم اپنی پہچان کھو رہے ہیں۔ ہمارے بچے جانتے ہیں کہ امریکہ کہاں ہے، دبئی کہاں ہے، مگر انہیں یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کیوں ہے؟ انہیں بتایا نہیں گیا کہ اس مٹی کے پیچھے کتنے فضل محمود، کتنے علم دین، کتنے نُور خان، کتنے ایم ایم عالم، کتنے ستار علوی، کتنے حبیب جالب، کتنے عبدالستار ایدھی اور کتنے بابر سدھو چھپے ہوئے ہیں۔ وہ سب جنہوں نے اپنے عمل سے اس ملک کا نام زندہ رکھا۔

قومیں اس وقت زندہ رہتی ہیں جب ان کے ہیرو زندہ رہیں۔ ہیرو صرف وہ نہیں ہوتے جو ٹی وی پر نظر آئیں۔ ہیرو وہ ہوتے ہیں جو کسی گلی، کسی فضا، کسی سمندر، کسی برف پوش پہاڑ، کسی صحرا، کسی میدان، کسی دفتر، کسی اسکول، یا کسی ہسپتال میں خاموشی سے فرض ادا کر رہے ہوں۔ وہ جن کے نام پر کوئی یادگار نہیں بنتی، مگر ان کے کردار پر قومیں قائم رہتی ہیں۔

فضل محمود جیسے لوگ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ عزت پیسوں سے نہیں، کردار سے ملتی ہے۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ وطن سے محبت الفاظ میں نہیں، عمل میں چھپتی ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ قوم کی پہچان اس کے لیڈروں سے نہیں، بلکہ اس کے کردار سے بنتی ہے اور کردار وہی بناتا ہے جو فضل محمود کی طرح اپنی زمین سے سچا ہو، اپنی ذمہ داری سے مخلص ہو اور اپنے رب پر ایمان رکھتا ہو۔

پاکستان صرف ایک زمین کا ٹکڑا نہیں۔ یہ ایک خواب ہے۔ ایک نظریہ، ایک ایمان ہے۔ اس کی بنیاد قربانی پر رکھی گئی، اس کی دیواریں محنت سے اٹھیں اور اس کی چھت دعا سے قائم ہے۔ یہ ملک اس وقت تک قائم رہے گا جب تک اس کی گلیوں میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو فضل محمود کی طرح وطن کو اپنی پہچان سمجھتے ہیں، نہ کہ وطن کو چھوڑ کر پہچان تلاش کرتے ہیں۔

ہاں، آج اگر کوئی استانی پھر وہی سوال پوچھے، "پاکستان کہاں ہے؟"

تو جواب شاید یہی ہونا چاہیے، پاکستان وہاں ہے جہاں ایمان ہے، جہاں اخلاص ہے، جہاں فضل محمود جیسے لوگ ابھی زندہ ہیں۔

پاکستان وہاں ہے، جہاں دل اپنے وطن کے لیے دھڑکتے ہیں۔

اور جب تک یہ دل دھڑکتے رہیں گے، پاکستان بھی دھڑکتا رہے گا۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali