Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Pakistan Ki Tehzeebi Wirasat, Mohenjo Daro Se Taxila Tak

Pakistan Ki Tehzeebi Wirasat, Mohenjo Daro Se Taxila Tak

پاکستان کی تہذیبی وراثت، موئنجوداڑو سے ٹیکسلا تک

جب کبھی ہم پاکستان کو صرف 1947 سے شروع ہونے والی ایک نئی ریاست سمجھ کر دیکھتے ہیں، تو ہم ایک بہت بڑے تاریخی فریب میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کوئی اچانک نمودار ہونے والی سیاسی سرزمین نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عظیم تہذیبی تسلسل کا وارث ہے۔ یہ زمین ان گمشدہ صداؤں، مدفون خوابوں اور روشن خیالات کی پروردگار ہے جو ہزاروں سالوں سے اس خطے کی خاک میں رچے بسے ہیں اور اگر ہم اس تہذیبی وراثت کو سمجھنے کی سچی خواہش رکھتے ہیں، تو ہمیں ایک نظر موئنجوداڑو اور ٹیکسلا پر ضرور ڈالنی ہوگی، کیونکہ یہ دونوں مقام اس سرزمین کی تاریخی شناخت کے دو ستون ہیں۔

موئنجوداڑو، ایک ایسا شہر جو وقت کی گرد میں چھپ کر صدیوں تک خاموش رہا، لیکن جیسے ہی وہ دریافت ہوا، تاریخ نے اس پر حیرت سے نظریں گاڑ دیں۔ سندھ کی تہذیب کا یہ شاہکار شہر اُس وقت وجود میں آیا تھا جب نہ یونان نے فلسفہ تراشا تھا، نہ مصر نے اپنے اہرام بلند کیے تھے۔ یہاں کے لوگ تحریر جانتے تھے، صفائی ستھرائی سے واقف تھے، شہری منصوبہ بندی میں ماہر تھے، پانی کی نکاسی کا مکمل نظام رکھتے تھے اور شاید سب سے اہم بات، ایک ایسی تہذیب کے علمبردار تھے جو جنگ و جدل کی جگہ نظم و ضبط، سکون اور تمدن کو ترجیح دیتی تھی۔

جب ہم موئنجوداڑو کی گلیوں میں جھانکتے ہیں، تو ہمیں ایک ایسا سماج دکھائی دیتا ہے جو انسان کی بنیادی ضروریات سے آگے جا کر ذہنی آسودگی، خوبصورتی اور ہم آہنگی کا متلاشی تھا۔ وہاں کے گھروں میں غسل خانے تھے، نالیاں تھیں، پانی کے کنویں ہر گھر کے قریب تھے۔ یہ صرف مٹی کی اینٹوں سے بنے ہوئے دیواریں نہیں تھیں، یہ تمدن کے خواب تھے جو صدیوں پہلے اس دھرتی پر جاگے تھے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جس زمین پر آج ہم رہتے ہیں، وہ کسی وقت دنیا کی سب سے ترقی یافتہ تہذیبوں میں شمار ہوتی تھی؟ کیا یہ احساس ہی کافی نہیں کہ ہم کسی عام قوم کے وارث نہیں بلکہ اُس نسل کی اولاد ہیں جس نے علم، صفائی، مساوات اور شہری شعور کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنایا؟

اور پھر وقت کا پہیہ گھوما، صدیوں کا فاصلہ طے ہوا، سلطنتیں آئیں اور مٹ گئیں، مگر اس زمین کا جوہر ماند نہ ہوا۔ شمال کی طرف نگاہ کریں تو ہمیں ٹیکسلا ملتا ہے۔ وہی شہر جو علم، فکر، فلسفہ، فن تعمیر اور بین المذاہب ہم آہنگی کا مرکز تھا۔ ٹیکسلا ایک ایسا مقام تھا جہاں بدھ مت کے راہب، ہندو مت کے پنڈت اور فلسفے کے طالب علم اکٹھے رہتے، سیکھتے، سکھاتے، سوال کرتے اور نئے خیالات کی بنیاد رکھتے۔ یہاں صرف کتابیں نہیں کھلتی تھیں، ذہن کھلتے تھے۔ یہاں صرف سبق نہیں یاد ہوتے تھے، شعور بیدار ہوتا تھا۔

ٹیکسلا نے صرف بدھ مت کے ماننے والوں کو متاثر نہیں کیا بلکہ یونان، ایران، چین اور وسط ایشیا کے لوگوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ سکندر اعظم کا سپہ سالار جب اس سرزمین پر آیا تو حیران رہ گیا کہ یہاں فلسفہ، طب، ریاضی اور ستاروں کی چال پڑھنے والے موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر، یہاں علم کو عبادت سمجھا جاتا ہے۔ ٹیکسلا کی وہ جامعات، وہ استاد، وہ دروازے، جو کبھی علم کے متلاشیوں کے لیے کھلے تھے۔ وہ آج ہمارے حافظے سے تقریباً مٹ چکے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موئنجوداڑو اور ٹیکسلا محض آثار قدیمہ کے مقامات نہیں ہیں، بلکہ یہ ہمارے فکری، تمدنی اور تہذیبی شجر کی جڑیں ہیں۔ جو قومیں اپنی جڑوں کو بھول جاتی ہیں، وہ درخت کی طرح سوکھ جاتی ہیں اور شاید ہم اسی سوکھے پن کا شکار ہیں۔ ہم نے اپنے تعلیمی نصاب سے ان مقامات کا ذکر تو کر رکھا ہے، مگر ان سے جو تعلق روحانی، فکری اور قومی سطح پر ہونا چاہیے تھا، وہ قائم نہ ہو سکا۔ ہم نے اپنی نئی نسل کو بتایا ہی نہیں کہ ان کے قدم جس مٹی پر پڑتے ہیں، وہ مٹی کبھی دنیا کے شعور کی رہنما تھی۔

آج جب ہم اپنی نوجوان نسل کو مغرب کے فکری ماڈلز، امریکی تعلیمی نظام، یا یورپی فلاسفہ کے حوالے دیتے ہیں، تو ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری زمین بھی سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے سوچنے والوں سے محروم نہ تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مغرب نے اپنے مفکرین کو یاد رکھا، ہم نے اپنے محسنوں کو تاریخ کی فائلوں میں دفن کر دیا۔ موئنجوداڑو اور ٹیکسلا کی یہ خاموشی ہماری فکری غفلت کا نوحہ ہے۔

اگر ہم سنجیدگی سے اپنے معاشرے کو فکری اور تہذیبی لحاظ سے اٹھانا چاہتے ہیں، تو ہمیں واپس اسی مٹی کی طرف لوٹنا ہوگا، جہاں تمدن نے پہلا قدم رکھا تھا، جہاں کتاب نے پہلی سانس لی تھی، جہاں انسان نے اپنی زندگی کو خوبصورت بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ زمین جس پر وہ کھڑے ہیں، کبھی اس دنیا کا "مرکز علم" تھی۔ ہمیں انہیں یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ عام نہیں، خاص ہیں۔ کہ ان کے رگ و ریشے میں موئنجوداڑو کا تمدن اور ٹیکسلا کی دانائی رواں ہے۔

پاکستان صرف قدرتی وسائل، دریاؤں، پہاڑوں اور سمندروں کا مجموعہ نہیں، یہ تہذیبوں کا گہوارہ ہے اور اگر ہم اس شعور کو اپنا لیں تو شاید ہم اپنے تعلیمی اداروں میں علم کی شمع دوبارہ روشن کر سکیں۔ شاید ہمارے شہروں میں پھر سے صفائی، تنظیم اور سلیقے کی خوشبو لوٹ آئے۔ شاید ہمارے لوگ پھر سے سوچنا شروع کر دیں اور سوال کرنا سیکھ جائیں اور شاید ہم دوبارہ وہی بن سکیں جو ہم صدیوں پہلے تھے۔ تہذیب کے علمبردار، دانش کے محافظ اور انسانیت کے خادم۔

موئنجوداڑو کی مٹی اور ٹیکسلا کے پتھروں میں آج بھی وہ سرگوشیاں زندہ ہیں جو ہمیں اپنی پہچان یاد دلاتی ہیں۔ وہ ہم سے سوال کرتی ہیں: "کیا تم جانتے ہو، تم کون ہو؟"

ہمیں صرف اتنا کرنا ہے کہ ان آوازوں کو سننے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نے سن لیا، تو شاید ہماری تاریخ ہمیں دوبارہ گلے لگا لے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan