Pakistan Ka Akhri Bara Admi?
پاکستان کا آخری بڑا آدمی؟

پاکستان کی تاریخ میں جب بھی کسی عظیم ہستی کا ذکر ہوتا ہے تو قوم کے دلوں میں احترام اور محبت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ حال ہی میں نامور صحافی جبار مرزا کی کتاب پاکستان کا آخری بڑا آدمی منظر عام پر آئی، جو محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جدوجہد اور مصائب کی داستان بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف تاریخ کے ایک باب کو کھولتی ہے بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر یہ قوم ہر بار کیوں یہ اعلان کرتی ہے کہ فلاں شخص ہی اس میدان کا آخری بڑا آدمی تھا؟ جبار مرزا نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ قاری ان کے درد، قربانی اور غیر معمولی عزم کو محسوس کرتا ہے۔
وہ لمحہ یاد آتا ہے جب مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا اور ایک حساس دل رکھنے والا نوجوان سائنسدان یہ عزم کرتا ہے کہ اب وطن کو کبھی ایسے المیے سے دوچار نہیں ہونے دے گا۔ اس نے اپنی زندگی کا مقصد ایک ہی بنا لیا: پاکستان کو ناقابلِ تسخیر دفاع عطا کرنا۔ وہ اپنی جان، اپنی عزت، اپنے آرام، حتیٰ کہ اپنے خاندان تک کو اس مقصد پر قربان کر گیا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ تاریخ نے اس کے ساتھ وہ انصاف نہ کیا جس کا وہ حق دار تھا۔ کچھ ناعاقبت اندیش اور بزدل حکمرانوں نے اپنے وقتی مفادات کی خاطر اس کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی، مگر حقیقت یہ ہے کہ قوم آج بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنا ہیرو مانتی ہے اور مانتی رہے گی۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے آخری بڑے آدمی تھے؟ کیا ان کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوگا جو ملک و قوم کے لیے قربانی دے؟ کیا اب ہم مایوس ہو جائیں کہ تاریخ کا باب بند ہو چکا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ دنیا کا نظام ہی کچھ اور ہے۔ آغازِ آفرینش سے لے کر آج تک کسی ایک شخصیت کو دائمی حیثیت نہیں ملی۔ ہر دور میں کچھ لوگ آتے ہیں، اپنے حصے کا کام کرتے ہیں، کوئی ناتمام کہانی شروع کرتے ہیں یا کسی پرانے کام کو نئی جان بخشتے ہیں اور پھر اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ مگر کہانی رکتی نہیں، کارواں تھمتا نہیں، قافلہ چلتا رہتا ہے۔ اللہ نے اس کائنات کو اس اصول پر قائم کیا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا آئے گا اور پہلے سے بہتر انداز میں آگے بڑھائے گا۔ اگر تاریخ صرف ایک شخصیت پر رکی رہتی تو نہ سائنس ترقی کرتی، نہ ادب پھلتا پھولتا، نہ ریاستیں وجود میں آتیں، نہ تہذیبیں آگے بڑھتیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک فضائی معرکے نے اس حقیقت کو پھر سے اجاگر کر دیا کہ بڑے لوگ صرف ماضی کا حصہ نہیں بلکہ حال اور مستقبل کا بھی سرمایہ ہیں۔ جب بھارتی جارحیت کے جواب میں ہماری فضائیہ نے حیران کن کارکردگی دکھائی تو دنیا کو اندازہ ہوا کہ پاکستان ائر فورس اب بھی "سیکنڈ ٹو نن" ہے۔ میں نے کئی مواقع پر کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ اصغر خان اور نور خان جیسی قیادت اب کہاں، وہ تو قصۂ پارینہ ہیں۔ لیکن موجودہ فضائی قیادت اور ہمارے نوجوان ہوا بازوں نے اس سوچ کو غلط ثابت کر دکھایا۔ انہوں نے اپنے پیش رو قائدین اور کنگز آف دی سکائیز ہوابازوں کو سامنے رکھ کر، ان کی بہادری اور بصیرت سے سبق لے کر، ان سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھائی۔
یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوگیا بلکہ مسلسل محنت، تربیت اور عزم صمیم کا نتیجہ تھا۔ جس طرح ماضی میں نور خان اور ان کے ساتھیوں نے عرب اسرائیل جنگ کے دوران ایسی فضائی مہارت دکھائی تھی کہ دنیا حیران رہ گئی، بالکل اسی طرح آج کے سپوتوں نے اپنی جرات اور فن کے ذریعے عالمی سطح پر پاکستان کا وقار بلند کر دیا۔ اس رات جب ہمارے طیارے فضا میں بلند ہوئے تو لگتا تھا جیسے رفیقی، ایم ایم عالم، سجاد حیدر، ستار علوی، سیف الاعظم اور راشد منہاس کی روحیں خوشی سے جھوم رہی ہوں گی۔ وہ یہ دیکھ کر مسکرا رہی ہوں گی کہ ان کے وارث موجود ہیں، ان کے خواب زندہ ہیں، ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے نئے چراغ جل اٹھے ہیں۔
یہی اصول ہر میدان پر لاگو ہوتا ہے۔ چاہے سائنس کا شعبہ ہو یا ادب کا، چاہے کھیلوں کی دنیا ہو یا صحافت کا میدان، چاہے مذہب کی خدمت ہو یا تعلیم و تربیت کا شعبہ، ہر جگہ لوگ آتے ہیں، اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالتے ہیں اور رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد یہ کہنا کہ اب یہ میدان ویران ہوگیا ہے، دراصل مایوسی کا اظہار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کبھی ویران نہیں ہوتی، یہ سرزمین ہمیشہ زرخیز رہتی ہے۔ ایک بیج مرتا ہے تو اس کے سینکڑوں نئے پودے جنم لیتے ہیں۔ ایک چراغ بجھتا ہے تو اس کی روشنی سے درجنوں نئے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔
ہمیں اپنی تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے۔ علامہ اقبال کو لوگ کہتے تھے کہ ان کے بعد کون ایسا شاعر آئے گا جو قوم کو بیدار کرے۔ لیکن ہمیں فیض، احمد ندیم قاسمی اور حبیب جالب جیسے نام ملے جنہوں نے اپنی شعری قوت سے نسلوں کو جگایا۔ قائداعظم کے بعد کہا گیا کہ اب قیادت کا فقدان ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف شخصیات سامنے آئیں جنہوں نے اپنی بساط کے مطابق قوم کی رہنمائی کی۔ کھیلوں کے میدان میں بھی یہی ہوا۔ ہاکی اور کرکٹ کے ہیروز کے بعد ہر بار کہا گیا کہ اب وہ دور واپس نہیں آئے گا، لیکن ہم نے نئے ستاروں کو ابھرتے دیکھا۔
اسی طرح سائنس کے میدان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اگر ہم آخری بڑا آدمی قرار دیں گے تو یہ ان کے ساتھ بھی ناانصافی ہوگی اور آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی۔ وہ اپنی جگہ بے مثال ہیں، لیکن اللہ کی قدرت محدود نہیں۔ وہ نئے دماغ پیدا کرتا ہے، نئی صلاحیتیں عطا کرتا ہے اور ہر دور میں کوئی نہ کوئی چراغ روشن رکھتا ہے۔ اگر آج ہم مایوس ہو گئے اور یہ سمجھ لیا کہ اب وہ بات نہیں رہی تو یہ دراصل ہماری سوچ کی محدودیت ہوگی۔ ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ یہ زمین اب بھی زرخیز ہے، یہ قوم اب بھی ہیرے پیدا کر سکتی ہے، یہ ملت اب بھی اپنی رگوں میں تازہ خون دوڑا سکتی ہے۔
مایوسی ایمان کے خلاف ہے۔ جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے، وہ کبھی مایوس نہیں ہوتی۔ وہ اپنے ہیروز کو یاد بھی رکھتی ہے اور نئے ہیروز کو تراشنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔ اس لیے ہمیں ہرگز یہ نہیں کہنا چاہیے کہ فلاں شعبے کا آخری بڑا آدمی گزر گیا۔ یہ کہنا قوم کی خود اعتمادی کو مجروح کرتا ہے۔ ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ فلاں شخص نے اپنی بساط کے مطابق کام کیا اور اب ہمیں اس سے بھی بہتر کرنا ہے۔ یہی تسلسل قوموں کو زندہ رکھتا ہے۔
کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ اگر ماضی کے بڑے لوگ کسی طرح آج واپس آ جائیں اور دیکھیں کہ ان کے بعد کیا کچھ ہوا ہے تو وہ خوش ہو جائیں۔ نور خان اگر دیکھیں کہ آج کے ہواباز کس طرح اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وطن کا دفاع کر رہے ہیں تو مسکرا اٹھیں گے۔ عبدالقدیر خان اگر دیکھیں کہ نوجوان سائنسدان کس طرح نئی ٹیکنالوجی کے خواب دیکھ رہے ہیں تو ان کی آنکھوں میں روشنی بھر جائے گی۔ اقبال اگر دیکھیں کہ نوجوان اب بھی ان کے اشعار سے حوصلہ پاتے ہیں تو ان کی روح کو سکون ملے گا۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ماضی کے ہیروز کو یاد رکھیں، ان سے سیکھیں، لیکن مایوسی کا شکار ہرگز نہ ہوں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ یہ مٹی اب بھی زرخیز ہے، یہ قوم اب بھی نئے چراغ پیدا کرے گی۔ آنے والے دنوں میں بھی کوئی نہ کوئی عبدالقدیر خان ہوگا، کوئی نہ کوئی نور خان ہوگا، کوئی نہ کوئی اقبال ہوگا، کوئی نہ کوئی راشد منہاس ہوگا۔ کیونکہ یہ دنیا کبھی خالی نہیں رہتی۔ یہ قافلہ کبھی رکتا نہیں۔
ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

