Pakistan, Aik Azeem Mulk Aur Iske Bekhabar Shehri
پاکستان، ایک عظیم ملک اور اس کے بے خبر شہری

دنیا کے کسی بھی کھیل کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو ایک اصول واضح نظر آئے گا: مقابلہ ہی ہے جو کھیل کو زندہ رکھتا ہے۔ اگر صرف ایک فریق رہے، ایک ٹیم، ایک ملک یا ایک کھلاڑی، تو نہ کھیل بچتا ہے، نہ جذبہ، نہ ناظرین۔ کرکٹ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ بلکہ شاید کرکٹ دنیا کا وہ کھیل ہے جو "مقابلے" اور "تعلق" دونوں پر یکساں انحصار کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ اسی کرکٹ کو بعض ملکوں نے اپنی "جاگیر" سمجھ لیا ہے، جیسے یہ کھیل نہیں، ایک کاروباری کمپنی ہو جس کے وہ واحد مالک ہوں اور اس سوچ کا سب سے بڑا مظہر آج بھارت ہے۔
مائیک ایتھرٹن، انگلینڈ کے سابق کپتان اور ایک معتبر تجزیہ کار، نے حال ہی میں ایک سادہ سی بات کہی: اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ تعلقات میں تلخی کم نہیں ہوگی تو ایشیائی کرکٹ کا مستقبل تاریک ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ہر سمجھ دار کرکٹ فین، تجزیہ نگار اور کھلاڑی برسوں سے کہہ رہا ہے۔ مگر بھارت کی اکڑ، اس کا تکبر اور اپنی دولت پر غرور اسے یہ سمجھنے نہیں دیتا کہ کھیل صرف میدان میں ہونے والے رنز اور وکٹوں سے نہیں جیتا جاتا۔ کھیل جیتا جاتا ہے احترام، شراکت اور رواداری سے۔
ایشیا کپ کے دوران جو مناظر سامنے آئے، وہ نہ صرف کھیل کی روح کے منافی تھے بلکہ بھارتی کرکٹ کے اندرونی تعصب کی بھی گواہی دیتے ہیں۔ بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو کا پاکستانی کپتان سلمان آغا سے ٹاس کے موقع پر مصافحہ سے انکار اور پھر ایشین کرکٹ کونسل کے پاکستانی صدر محسن نقوی سے ٹرافی وصول کرنے سے گریز، یہ سب اس ذہنی غرور کا مظہر ہے جس نے بھارت کو کھیل میں"تنہا بادشاہ" بننے کے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے۔
مائیک ایتھرٹن کی بات کا جواب بھارتی بورڈ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے دیا۔ مگر وہ جواب حقیقت میں ایک اعتراف تھا۔ انہوں نے کہا: "آج کے حالات میں بھارت نہیں، کوئی بھی بڑی ٹیم اگر ٹورنامنٹ سے دستبردار ہو جائے تو اسپانسرز کی توجہ حاصل کرنا بہت مشکل ہوگا"۔ غور کیجیے، "کوئی بھی بڑی ٹیم"۔ یہ الفاظ دراصل پاکستان کی طرف اشارہ تھے، لیکن بھارتی عہدیدار نے انہیں دبے الفاظ میں کہا تاکہ سچ کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں بھی معلوم ہے، اسپانسرز اور براڈکاسٹرز صرف بھارت کے لیے نہیں آتے، وہ پاکستان اور بھارت کے مقابلے کے لیے آتے ہیں۔ کرکٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا، سب سے زیادہ منافع دینے والا میچ ہمیشہ "پاک-بھارت میچ" ہوتا ہے۔
مگر افسوس کہ بھارت اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ اپنے میڈیا، اپنے بورڈ اور اپنے سرمایہ دارانہ نظام کے بل بوتے پر یہ تاثر دیتا ہے کہ "کرکٹ میں پیسہ صرف بھارت کی وجہ سے بنتا ہے"۔ حالانکہ یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ پیسہ صرف وہاں بنتا ہے جہاں مقابلہ ہو، دلچسپی ہو، جذبہ ہو اور یہ تینوں عناصر صرف پاکستان فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کرکٹ وہ واحد طاقت ہے جو کرکٹ کو دلچسپ، غیر متوقع اور زندہ رکھتی ہے۔ اگر دنیا کی تمام ٹیمیں ایک طرف کرکٹ کھیلیں اور پاکستان دوسری طرف نہ ہو، تو کوئی سیریز، کوئی ٹورنامنٹ، کوئی فائنل، کچھ بھی معنی نہیں رکھتا۔
کرکٹ کی تاریخ میں اگر بھارت کے بڑے نام ہیں، تو پاکستان کے پاس عظمت کی وہ داستانیں ہیں جو نسلوں تک سنائی جائیں گی۔ عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس، جاوید میانداد، شاہد آفریدی، یہ وہ نام ہیں جنہوں نے نہ صرف کرکٹ کو عزت بخشی بلکہ اسے کرشماتی حیثیت دی۔ دنیا کے لاکھوں فین کرکٹ کو ان چہروں سے پہچانتے ہیں۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے حالات کے بدترین طوفانوں میں بھی کرکٹ کو زندہ رکھا۔ دہشت گردی، مالی مشکلات، داخلی بحران، مگر پاکستان کرکٹ کا چراغ کبھی بجھا نہیں۔
یہی وہ نکتہ ہے جو بھارتی بورڈ بھول جاتا ہے یا شاید جان بوجھ کر نظر انداز کرتا ہے۔ بھارت کے پاس سرمایہ ہے، مگر روح نہیں۔ پاکستان کے پاس وسائل کم ہیں، مگر جذبہ بے مثال ہے۔ بھارت کے پاس میدانوں کی چمک ہے، مگر پاکستان کے پاس میدان میں دل کی دھڑکن ہے۔ کرکٹ میں وہ جوش، وہ غیر متوقع موڑ، وہ نڈر کھیل، وہ ایمان کی گرمی، صرف پاکستان سے جڑی ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ خود پاکستان کو اپنی قدر کا احساس نہیں۔ ہمارا بورڈ، ہمارے عہدیدار، ہماری انتظامیہ، سب اپنی حیثیت سے ناواقف ہیں۔ بھارت کے رویے پر احتجاج کرنے، اپنا حق مانگنے اور اپنی شرائط پر کھیلنے کی بجائے ہم اکثر جھکنے میں ہی "سفارتکاری" سمجھتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ دنیا پاکستان کے بغیر ادھوری ہے، خاص طور پر کرکٹ کی دنیا۔ بھارتی بورڈ کے اس افسر نے دبے الفاظ میں جو تسلیم کیا، وہی ہمارے لیے ایک بیداری کا پیغام ہے۔ انہوں نے مان لیا کہ پاکستان کے بغیر کرکٹ اسپانسرز کے لیے بے جان ہے۔
پاکستان کے شہریوں اور کرکٹ سے محبت کرنے والوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ یہ صرف کھیل کی بات نہیں، یہ وقار کی بات ہے۔ جب بھارت پاکستان سے کھیلنے سے انکار کرتا ہے، تو وہ صرف ایک میچ نہیں روکتا، وہ ایک قوم کی شناخت کو چیلنج کرتا ہے اور جب پاکستان کا بورڈ خاموش رہتا ہے، تو وہ اس چیلنج کو قبول نہیں کرتا بلکہ اس کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ ہمیں یہ رویہ بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنی طاقت کو پہچاننا ہوگا، اپنی وقعت کو سمجھنا ہوگا۔
بھارت کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ کرکٹ صرف "مارکیٹ" نہیں، ایک "روحانی تجربہ" ہے۔ یہ قوموں کے درمیان تعلقات کا پل ہے۔ اگر بھارت سمجھتا ہے کہ وہ کرکٹ کی دنیا کا بادشاہ ہے، تو اسے یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ بادشاہت اکیلے نہیں چلتی۔ رعایا کے بغیر سلطنت صرف ریت کا محل ہوتی ہے اور پاکستان اس سلطنت کی وہ بنیاد ہے جس کے بغیر پوری عمارت گر جائے گی۔
کرکٹ کا حسن دوستی اور دشمنی دونوں میں ہے۔ پاکستان اور بھارت کا میچ دنیا کے لیے محض کھیل نہیں، ایک تہذیبی واقعہ ہوتا ہے۔ لوگ نسلوں تک یاد رکھتے ہیں کہ کب جاوید میانداد نے چیتن شرما کو چھکا مارا، کب شاہد آفریدی نے بھارت کے خلاف دھواں دار اننگز کھیلی، کب محمد عامر نے ورلڈ کپ میں بھارتی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کیا۔ یہ لمحات کرکٹ کی معیشت کا سرمایہ ہیں۔ اسپانسرز اسی تاریخ پر پیسہ لگاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ بھارت نے کھیل کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنی کرکٹ سفارت کاری کو ازسرنو ترتیب دے۔ ہمیں بھارت کی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ اپنے مفاد کے مطابق کھیلنا چاہیے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے بغیر کرکٹ ادھوری ہے۔ اب ہمیں خود بھی یہ یقین پیدا کرنا ہوگا۔ بھارت کو اس کے غرور کا آئینہ دکھانا ہوگا کہ "تم اکیلے کچھ نہیں"۔ کھیل اس وقت بنتا ہے جب دونوں فریق کھیلیں، جب دونوں دل سے میدان میں اتریں۔
دنیا کی سب سے بڑی لیگ، آئی پی ایل، بھی اگر پاکستان کے بغیر چل رہی ہے تو محض ایک چمکتی محفل ہے جس میں جان نہیں۔ پاکستان کے کھلاڑیوں کی غیر موجودگی نے اسے یکطرفہ اور بورنگ بنا دیا ہے۔ بھارت کو پیسہ مل رہا ہے، مگر کرکٹ کی رونق کھو چکی ہے۔ پیسہ ہر چیز نہیں، جذبہ سب کچھ ہے اور جذبہ صرف پاکستان کے پاس ہے۔
لہٰذا یہ وقت ہے کہ ہم اپنی پہچان، اپنی عزت اور اپنے کردار کو یاد کریں۔ پاکستان ایک عظیم ملک ہے، اس کے شہری عظیم ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے قائدین، خواہ وہ کرکٹ بورڈ میں ہوں یا حکومت میں، اپنی عظمت سے ناواقف ہیں۔ بھارت چاہے جتنا بھی شور مچائے، کرکٹ کی دنیا کی سانس پاکستان کے دم سے چلتی ہے۔ جب تک پاکستان کھیلتا رہے گا، کرکٹ زندہ رہے گی اور جس دن پاکستان نے خاموشی اختیار کر لی، اُس دن دنیا کے سب سے بڑے اسٹیڈیم بھی سنسان ہو جائیں گے۔
یہ کھیل صرف گیند اور بلے کا نہیں، عزت اور انا کا ہے۔ بھارت کو یاد رکھنا چاہیے، سپر پاور وہ نہیں جو پیسہ بنائے، سپر پاور وہ ہے جس کے بغیر باقی سب ادھورے ہوں اور وہ ہے پاکستان۔

