Pak China Tawun Ki Nayi Jehaten
پاک چین تعاون کی نئی جہتیں

پاکستان ایک بار پھر اقتصادی تعاون کے اس بڑے فورم، چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت منعقد ہونے والے جائنٹ کوآپریشن کمیٹی (JCC) اجلاس کے قریب پہنچ رہا ہے۔ یہ اجلاس 26 ستمبر کو بیجنگ میں ہوگا اور پاکستان اس اجلاس کے لیے اپنی ترجیحات اور منصوبہ جات کی فہرست مرتب کر رہا ہے۔ ہر اجلاس کی طرح اس بار بھی امیدوں اور خدشات کا امتزاج ہے۔ کچھ منصوبے ایسے ہیں جو طویل عرصے سے زیرِ التوا ہیں اور کچھ نئے تقاضوں کے ساتھ ایجنڈے میں شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس بار خاص طور پر کراکرم ہائی وے (KKH-II)، مین لائن (ML-1) اور ایسٹ بے ایکسپریس وے پر توجہ دی جائے گی۔ ان منصوبوں کی تفصیل اور ان کے ساتھ وابستہ توقعات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان آنے والے برسوں میں کس سمت آگے بڑھنا چاہتا ہے اور چین کے ساتھ تعاون کو کس سطح تک لے جانا چاہتا ہے۔
کراکرم ہائی وے کا دوسرا مرحلہ، جسے عرف عام میں KKH-II کہا جاتا ہے، نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے لیے بھی ایک اسٹریٹجک منصوبہ ہے۔ یہ شاہراہ وہی ہے جس نے دونوں ممالک کو جغرافیائی اعتبار سے جوڑے رکھا ہے اور اب جب نئے ڈیمز اور دیگر منصوبوں کی وجہ سے کچھ حصے زیرِ آب آ رہے ہیں، تو اس کی نئی سمت اور نئی تعمیر ناگزیر ہوگئی ہے۔ 100 کلومیٹر کے اس حصے کی نئی الائنمنٹ کے لیے لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور اب یہ منصوبہ 502 ارب روپے کا ہو چکا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اس منصوبے کے لیے چین سے زیادہ تر سرمایہ فراہم کیا جائے، کیونکہ مقامی وسائل اس قدر بڑے منصوبے کے لیے ناکافی ہیں۔ یہ لاگت میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تعمیراتی اخراجات کس طرح بڑھتے ہیں اور ایسے منصوبے کس قدر بڑے مالی بوجھ کا تقاضا کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ KKH کی نئی شکل مستقبل کی ٹریڈ اور آمد و رفت کا بنیادی ذریعہ بنے گی اور اس کے بغیر پاک۔ چین تجارتی رابطے کمزور پڑ سکتے ہیں۔
اسی طرح مین لائن (ML-1) ریلوے منصوبہ پاکستان کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن کی آپ گریڈیشن کئی برسوں سے زیرِ بحث ہے، مگر عملی پیش رفت بہت سست رہی۔ اس بار پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اس منصوبے کو مرحلہ وار آگے بڑھایا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں کراچی سے روہڑی سیکشن پر کام ہوگا، جس کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) پہلے ہی 1.2 ارب ڈالر دینے پر آمادہ ہو چکا ہے۔ یہ حصّہ سب سے زیادہ اسٹریٹجک بھی ہے کیونکہ اسی ریلوے ٹریک کے ذریعے ریکو ڈیک منصوبے کی معدنیات کی ترسیل ممکن ہوگی۔ اس منصوبے کی تکمیل کا ہدف 2028 رکھا گیا ہے اور اگر واقعی یہ وقت پر مکمل ہوا تو یہ پاکستان کی اقتصادی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلی لا سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان چین کو کیسے قائل کرے گا کہ وہ مزید 500 ملین ڈالر روہڑی تا ملتان سیکشن کے لیے فراہم کرے، تاکہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ ایک مشترکہ فنانسنگ ماڈل تشکیل دیا جا سکے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سفارتکاری اور معاشی حکمت عملی دونوں کا امتحان ہے۔
ایسٹ بے ایکسپریس وے بھی پاکستان کے لیے اس بار ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ 14 کلومیٹر طویل شاہراہ گوادر کو نئے بین الاقوامی ایئرپورٹ اور ریکو ڈیک کے ساتھ جوڑے گی۔ اس منصوبے پر 30 ارب روپے سے زیادہ لاگت آئے گی اور پاکستان چاہتا ہے کہ اس میں بھی چین سے 85 فیصد سرمایہ فراہم کیا جائے۔ دیکھنے میں یہ منصوبہ چھوٹا لگتا ہے، مگر اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ گوادر پورٹ کو حقیقی معنوں میں فعال بنانے کے لیے سڑکوں اور رابطہ کاری کے نیٹ ورک کی اشد ضرورت ہے۔ بندرگاہ تب ہی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن سکتی ہے جب اسے ملک کے اندرونی حصوں اور ہوائی اڈے سے براہِ راست جوڑا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس منصوبے کو بھی ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
تاہم صرف انفراسٹرکچر ہی سب کچھ نہیں۔ اس بار دونوں ممالک نے پانچ نئے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ ان میں نمو (growth)، سبز معیشت (green economy)، علاقائی ترقی (regional development)، لائیو اسٹاک اور زراعت شامل ہیں۔ اس فہرست سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک۔ چین تعاون اب صرف سڑکوں اور ریلوے تک محدود نہیں رہا بلکہ معیشت کے ان شعبوں تک بھی پھیل رہا ہے جو براہِ راست عوام کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ زراعت اور لائیو اسٹاک میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداوار بڑھانا، سبز معیشت کی طرف بڑھ کر ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانا اور پسماندہ علاقوں کی ترقی پر زور دینا وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کی معیشت کو پائیداری کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کی اس وقت کی مالی حالت سب پر عیاں ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر محدود ہیں، درآمدات اور برآمدات میں عدم توازن ہے اور اندرونی قرضوں کا بوجھ الگ۔ ایسے میں اربوں ڈالر کے یہ منصوبے پاکستان کی برداشت سے باہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر چین کی طرف دیکھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چین کس حد تک پاکستان کی یہ خواہشات پوری کرے گا۔ چین کے اپنے معاشی مسائل بھی ہیں اور عالمی حالات بھی بدل چکے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت چین نے دنیا بھر میں بے شمار منصوبے شروع کیے، لیکن اب وہ خود بھی محتاط رویہ اختیار کر رہا ہے۔ پاکستان کو اپنی داخلی تیاری بھی کرنی ہوگی، کیونکہ صرف بیرونی سرمایہ کاری پر انحصار کرنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ JCC کا یہ اجلاس صرف منصوبہ جات کی فہرست بنانے کا فورم نہیں بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات کی سمت متعین کرنے کا موقع بھی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ اجلاس اپنی سنجیدگی دکھانے کا امتحان ہوگا۔ اگر ہم حقیقی اصلاحات کے بغیر صرف قرضوں اور فنڈنگ کے مطالبات لے کر بیجنگ جائیں گے تو شاید ہمیں زیادہ کامیابی نہ ملے۔ چین بھی اب نتائج چاہتا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے CPEC کے منصوبوں پر تنقید یہ ہے کہ وہ سست روی کا شکار ہیں، بروقت مکمل نہیں ہوتے اور ان کا عوامی فائدہ نظر نہیں آتا۔ پاکستان کو اس تاثر کو بدلنا ہوگا۔
ریکو ڈیک کی کان کنی اور اس کی معدنیات کی ترسیل کے منصوبے کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ اگر صحیح طریقے سے مکمل ہوا تو پاکستان کے لیے زرمبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مگر شرط یہی ہے کہ اس کی آمدنی شفاف انداز میں استعمال ہو اور صرف قرضوں کی ادائیگی یا کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو پورا کرنے تک محدود نہ رہے۔ یہ وہ موقع ہے جب پاکستان اپنی معدنی دولت کو اقتصادی ترقی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
پاکستان اور چین کے تعلقات ہمیشہ سے ایک دوسرے پر اعتماد اور دوستی کی بنیاد پر استوار رہے ہیں۔ مگر اب ان تعلقات کو نئے عالمی تناظر میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ اقتصادی تعاون کے ماڈل بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ صرف سڑکیں اور ریلوے بنانے سے ترقی نہیں ہوگی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی، تعلیم، انسانی وسائل کی ترقی اور ادارہ جاتی اصلاحات بھی ضروری ہیں۔ یہی وہ چیلنج ہے جو پاکستان کے پالیسی سازوں کے سامنے ہے۔
آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ JCC کا یہ اجلاس پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے اور امتحان بھی۔ موقع اس لیے کہ اگر ہم صحیح ترجیحات کے ساتھ جائیں تو ہمیں چین سے بڑے منصوبوں کے لیے سرمایہ مل سکتا ہے اور اقتصادی تعاون کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ امتحان اس لیے کہ اگر ہم صرف مانگنے والے بنے رہے اور اپنی ذمہ داری پوری نہ کی تو یہ موقع ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کب تک دوسروں پر انحصار کرتا رہے گا اور کب اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا۔ چین ہماری مدد ضرور کر سکتا ہے مگر اصل کامیابی تب ہوگی جب ہم اپنی داخلی صلاحیت کو بروئے کار لائیں۔ JCC کا یہ اجلاس اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کا ایک قدم ہے۔

