Omar Yaghi, Ghurbat Se Azmat Tak
عمر یاغی، غربت سے عظمت تک

دنیا کے شور و غوغا، طاقت کی سیاست اور علم کے میدان میں ہر سال کوئی نہ کوئی نیا نام طلوع ہوتا ہے جو انسانیت کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ذہانت اور عظمت کسی خاص نسل، قوم، زبان یا خطے کی جاگیر نہیں۔ 2025 کے نوبل انعام برائے کیمیا کے اعلان نے بھی یہی سبق دوبارہ دہرا دیا، جب ایک فلسطینی نژاد سائنسدان، عمر یاغی، دنیا کے سامنے انسان کی محنت، استقامت اور خوابوں کی سچائی کی علامت بن کر ابھرا۔ وہ فلسطینی بچہ، جو کبھی اردن کی تنگ اور بے نور گلیوں میں علم کے چراغ جلانے کی کوشش کر رہا تھا، آج دنیا کے روشن ترین دماغوں میں شامل ہے۔
عمر یاغی کی کہانی محض ایک سائنسدان کی کامیابی کی داستان نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کی جدوجہد کا نوحہ بھی ہے جس نے حالات کے اندھیروں میں امید کے ستارے جلائے۔ وہ غربت کی کوکھ سے اُٹھ کر دنیا کے بلند ترین سائنسی اعزاز تک پہنچا اور اس نے یہ ثابت کیا کہ خواب اگر سچے ہوں، نیت اگر صاف ہو اور عزم اگر پہاڑ کی طرح اٹل ہو، تو راستے چاہے کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں، منزل خود چل کر آتی ہے۔
یہ کہانی ایک ایسے لڑکے سے شروع ہوتی ہے جو اردن کے ایک محلے میں پیدا ہوا جہاں آسمان تنگ چھتوں کے بیچ سے جھانکتا تھا اور گلیاں اتنی پتلی تھیں کہ وہاں کھل کر دوڑنا تو کجا کھل کر سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔ اس کے والد ایک معمولی قصائی تھے، جن کی تعلیم بمشکل پانچ یا چھ جماعتوں تک محدود تھی، مگر دل میں بیٹے کے لیے بڑے خواب تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دنیا کی تقدیر کتابوں کے صفحوں پر لکھی جاتی ہے۔ ان کی ماں ان پڑھ تھیں، مگر ماں کے دل میں بیٹے کے لیے جو دعا تھی، وہ آسمانوں کو چیرتی ہوئی اوپر تک پہنچتی تھی۔
عمر بچپن ہی سے مختلف تھا۔ وہ ان بچوں میں سے نہیں تھا جو گلیوں میں خاک اُڑاتے پھریں۔ اس کے ہاتھ میں اکثر کوئی پرانی کتاب، کوئی ادھورا اخبار، یا کوئی پھٹا ہوا رسالہ ہوتا۔ وہ لفظوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا، ان میں چھپی روشنی کو پہچاننے لگتا۔ باپ دیکھتا، مسکراتا اور کبھی کبھی ہاتھ رکھ کر کہتا، "پڑھو عمر، خوب پڑھو، علم ہی وہ چراغ ہے جو تمہیں ان تاریک گلیوں سے نکالے گا"۔
اور پھر وہ دن آیا جب باپ نے اُسے اپنے سینے سے لگایا۔ ایک عام قصائی باپ نے اپنے بیٹے سے کہا: "بیٹا! تم امریکہ جاؤ، وہاں جا کر پڑھو، محنت کرو، کچھ ایسا کرو کہ دنیا تمہیں یاد رکھے۔ تمہارے اندر وہ روشنی ہے جو زمانوں کو بدل سکتی ہے"۔ یہ الفاظ کسی دولت مند باپ کی نصیحت نہ تھے، یہ ایک غریب مگر روشن ضمیر والد کا خواب تھا جو اپنے بیٹے میں اپنے نام سے بڑی تقدیر دیکھ رہا تھا۔
عمر نے اس خواب کو سینے میں بسا لیا۔ وہ امریکہ گیا۔ وہاں نیویارک کے ہڈسن ویلی کمیونٹی کالج میں داخلہ لیا۔ زبان اجنبی، ماحول اجنبی، جیب خالی، مگر دل میں آگ تھی، جو اسے تھکنے نہیں دیتی تھی۔ وہ پڑھتا رہا، محنت کرتا رہا اور ایک کے بعد ایک منزل عبور کرتا گیا۔ اسی جذبے نے اُسے نیویارک ہی کی ایک بڑی یونیورسٹی میں پہنچا دیا۔ وہاں سے اُس نے علم کی نئی دنیاؤں کے در وا کیے۔
یہاں سے عمر یاغی کا سفر محض ایک طالب علم کا نہیں رہا، ایک موجد، ایک تخلیق کار، ایک مفکر کا سفر بن گیا۔ اس نے مادّے (Matter) کو نئے زاویے سے دیکھنا شروع کیا۔ اس کے تحقیقی کام نے "Metal–Organic Frameworks" یعنی ایسے جال نما سالمات کی تخلیق کی راہ ہموار کی جو گیسوں اور توانائی کے محفوظ کرنے میں انقلاب لا سکتے ہیں۔ آج دنیا جو "کلین انرجی" کے خواب دیکھ رہی ہے، وہ دراصل عمر جیسے سائنسدانوں کی ذہانت کا ثمر ہے۔
2025 میں، سویڈن کی سٹاک ہوم اکیڈمی نے جب اعلان کیا کہ "نوبل انعام برائے کیمیا" ایک جاپانی، ایک آسٹریلین اور ایک فلسطینی نژاد امریکی سائنسدان کو مشترکہ طور پر دیا جا رہا ہے، تو لمحہ بھر کے لیے پوری دنیا خاموش ہوگئی۔ فلسطین، جو برسوں سے جنگ، آنسو اور ویرانی کی علامت سمجھا جاتا رہا، آج علم، تحقیق اور انسانیت کی جیت کی علامت بن گیا۔
عمر یاغی نے یہ انعام صرف اپنے لیے نہیں جیتا، بلکہ اُن تمام بچوں کے لیے جیتا ہے جو خستہ حال گلیوں میں بیٹھ کر خواب دیکھتے ہیں۔ اُن ماں باپ کے لیے جیتا ہے جو کم پڑھے لکھے ہیں مگر اپنے بچوں کو تعلیم کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ اُس نے یہ انعام اُن تمام فلسطینیوں کے نام کیا ہے جو آج بھی خاک اور آنسوؤں کے بیچ روشنی تلاش کرتے ہیں۔
یہ واقعہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہم ایسے معاشروں میں رہتے ہیں جہاں اکثر لوگ حالات کا رونا روتے ہیں، قسمت کو کوستے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ موقع نہیں ملا۔ مگر عمر یاغی جیسے لوگ دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ موقع خود بنایا جاتا ہے۔ جس کے پاس خواب ہوتے ہیں، وہ راستے خود پیدا کرتا ہے۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اصل سرمایہ دولت نہیں، علم ہے۔ اصل طاقت بندوق نہیں، قلم ہے۔ اصل انقلاب نعرے نہیں، تحقیق لاتی ہے۔ فلسطینی بچے نے دنیا کو یہ سچ دکھا دیا کہ جو قوم اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کتاب دے دیتی ہے، وہ بالآخر دنیا کی قیادت کرتی ہے۔
عمر یاغی کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ علم کے راستے میں غربت رکاوٹ نہیں۔ ہاں، یہ راستہ طویل، مشکل اور تکلیف دہ ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ اس نے وہی کیا جو ہر بڑے انسان نے کیا۔ اپنے حالات سے لڑا، خوابوں سے وفا کی اور اپنی محنت سے قسمت کو شکست دی۔
کیا ہمارے ملک کے بچے بھی ایسا نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارے گاؤں، قصبوں اور شہروں میں ایسے ذہین بچے نہیں بستے؟ بستے ہیں، مگر ان کے راستے میں نظام کھڑا ہے، وسائل کی کمی کھڑی ہے، معاشرتی بے حسی کھڑی ہے۔ ہمیں ان رکاوٹوں کو توڑنا ہوگا۔ اگر ایک فلسطینی قصائی کا بیٹا نوبل انعام جیت سکتا ہے تو ہمارے اسکولوں کے بچے کیوں نہیں؟ فرق صرف حوصلے اور ترجیح کا ہے۔
عمر یاغی کی کامیابی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ اپنے باصلاحیت افراد کو پہچانتی ہیں، انہیں سپورٹ کرتی ہیں، انہیں پرواز کے لیے پر لگاتی ہیں۔ ہم اگر اپنے نوجوانوں کو مواقع دیں، تحقیق کے لیے سازگار ماحول فراہم کریں، تو یقیناً ہمارے بیٹے بیٹیاں بھی دنیا کے کسی بھی نوبل انعام یافتہ سے کم نہیں ہوں گے۔
آخر میں، عمر یاغی کی کامیابی صرف فلسطین یا عرب دنیا کے لیے خوشی کی بات نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے امید کا پیغام ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ علم سرحدوں، مذہبوں اور قومیتوں سے بالاتر ہے۔ اس نے دکھایا کہ دنیا کو تقسیم کرنے والے نہیں، جوڑنے والے زیادہ اہم ہیں۔
وہ بچہ جو کبھی اردن کی تنگ گلیوں میں گوشت کے ٹکڑوں کے بیچ بیٹھ کر کتاب کے ورق الٹتا تھا، آج اس نے دنیا کے سب سے بڑے علمی ایوارڈ کی چوٹی پر اپنا نام لکھ دیا۔ اُس نے اپنے باپ کے خواب کو حقیقت بنا دیا۔ اُس نے یہ پیغام دیا کہ اگر دل میں روشنی ہو، تو دنیا کا کوئی اندھیرا اسے بجھا نہیں سکتا۔
اور شاید یہی عمر یاغی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اُس نے ہمیں یاد دلایا کہ علم کے چراغ ہمیشہ جلتے رہتے ہیں، چاہے وہ کتنی ہی تنگ اور تاریک گلی میں کیوں نہ رکھے جائیں۔

