Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Neural Pattern Kya Hai?

Neural Pattern Kya Hai?

نیورل پیٹرن کیا ہے؟

کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کچھ خیالات یا احساسات بار بار کیوں آتے ہیں؟ یا بعض حالات میں ہم ہر بار تقریباً ایک جیسا ہی ردعمل کیوں دیتے ہیں، گویا دماغ خودبخود ایک پرانا راستہ چُن لیتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہمارا دماغ ایک ایسا جال ہے جو مسلسل سیکھتا ہے، جو کچھ ہم سوچتے، محسوس کرتے یا دہراتے ہیں، وہ دماغ میں محفوظ ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ایک "نیورون پیٹرن" کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

نیورون پیٹرن دراصل دماغ میں موجود نیورونز (دماغی خلیات) کا وہ خاص جھرمٹ ہے جو کسی مخصوص خیال، عادت، رویے یا احساس سے جُڑ جاتا ہے۔ جب ہم کوئی بات بار بار سوچتے ہیں، کوئی عادت بار بار دہراتے ہیں، یا کوئی احساس بار بار محسوس کرتے ہیں، تو وہی مخصوص نیورونز ہر بار ایک ساتھ سرگرم ہوتے ہیں اور یوں ایک مستقل راستہ بن جاتا ہے۔ جیسے کسی زمین پر بار بار چلنے سے ایک پگڈنڈی بن جائے۔

ماہرینِ دماغ کہتے ہیں: "Neurons that fire together, wire together. " یعنی وہ نیورون جو بار بار ایک ساتھ متحرک ہوتے ہیں، وہ آپس میں جُڑ جاتے ہیں۔ یہ جُڑاؤ ایک سادہ سا واقعہ نہیں بلکہ زندگی بھر کی شخصیت اور نفسیات کی بنیاد بن جاتا ہے۔ فرض کریں بچپن میں آپ کو بارہا شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہو، مثلاً کسی استاد، والدین یا دوستوں کی طرف سے سننا پڑا ہو: "تم ناکام ہو، تم میں کچھ نہیں ہے"۔ تو یہ جملے محض آوازیں نہیں رہے، بلکہ یہ آپ کے دماغ میں ایک خاص پیٹرن بناتے گئے۔ اب ہر بار جب آپ کچھ نیا کرنے لگتے ہیں، کوئی فیصلہ کرتے ہیں، یا کسی بڑے موقع پر کھڑے ہوتے ہیں، تو وہی پرانا نیورون پیٹرن متحرک ہو جاتا ہے اور آپ کو وہی پرانی فائل کھول کر دکھاتا ہے۔ "تم ناکام ہو"۔ یہی نیورون پیٹرن ہوتا ہے جو اندر ہی اندر آپ کے ردعمل، فیصلے اور یہاں تک کہ آپ کے خوابوں کو متاثر کرتا ہے۔

یہ عمل صرف منفی پہلو تک محدود نہیں۔ اگر آپ کو بچپن میں حوصلہ ملا ہو، کامیابی کی ستائش ملی ہو، یا محبت سے تربیت ملی ہو، تو دماغ میں حوصلہ، اعتماد اور کامیابی سے جُڑے نیورون پیٹرنز پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب بھی زندگی کسی نئے امتحان میں ڈالتی ہے، وہی مثبت پیٹرنز متحرک ہو کر آپ کو سہارا دیتے ہیں۔ اسی لیے بعض لوگ مشکل حالات میں بھی پُراعتماد اور مثبت رہتے ہیں، جبکہ دوسرے وہی حالات برداشت نہیں کر پاتے۔ کیونکہ ہر شخص کا نیورل نقشہ الگ ہوتا ہے۔

دماغ کی یہ خاصیت، کہ وہ خود کو مسلسل بدل سکتا ہے، اسے نیورو پلاسٹی سٹی (Neuroplasticity) کہتے ہیں۔ یعنی ہمارا دماغ جامد نہیں، وہ نئے تجربات کے مطابق خود کو ڈھال سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی منفی پیٹرن ہماری زندگی کو کنٹرول کر رہا ہے، تو ہم اسے ختم تو نہیں کر سکتے، لیکن اسے کمزور ضرور کر سکتے ہیں اور اس کی جگہ ایک نیا، مثبت اور روشن نیورون پیٹرن بنا سکتے ہیں۔ جیسے کسی پرانی پگڈنڈی کے ساتھ ساتھ ایک نیا راستہ بنایا جائے اور پھر بار بار اسی پر چلا جائے، تو پرانی پگڈنڈی خود ہی مٹنے لگتی ہے۔

نیا نیورون پیٹرن بنانے کا عمل شعور، توجہ، تکرار اور جذبات سے جُڑا ہوتا ہے۔ سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں کسی منفی رویے یا سوچ کو پہچانیں۔ خود سے پوچھیں: "میں ہر بار ہار کیوں مان لیتا ہوں؟ یہ احساسِ کمتری کہاں سے آیا؟ میں کیوں ڈرتا ہوں؟" جیسے ہی آپ کسی رویے پر سوال اٹھاتے ہیں، ویسے ہی دماغ کے نیورون حرکت میں آتے ہیں۔

دوسرا قدم ہے اس پرانے پیٹرن کو چیلنج کرنا یعنی اس پر یقین کرنے کے بجائے اس سے سوال کرنا: "کیا یہ سچ ہے؟ کیا میں واقعی ناکام ہوں؟ کیا مجھے ہر بار ہارنا ہے؟" اس چیلنج کے بعد دماغ کو ایک نیا متبادل دیا جاتا ہے جیسے: "میں اللہ کی تخلیق ہوں، میں سیکھ رہا ہوں، میں بہتر ہو رہا ہوں، میری محنت رائیگاں نہیں جائے گی"۔ یہ جملے صرف الفاظ نہیں ہوتے، بلکہ وہ اینٹیں ہیں جن سے دماغ میں نیا راستہ بنتا ہے۔

نیا نیورون پیٹرن ایک دن میں نہیں بنتا۔ اس کے لیے بار بار دہرانا، عمل کرنا، بولنا اور لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ آپ کا دماغ روزانہ وہی راستہ مضبوط کرتا ہے جس پر سب سے زیادہ ٹریفک ہو۔ اگر آپ بار بار مایوسی، خوف یا احساسِ کمتری کے خیالات کو دہراتے ہیں، تو دماغ وہی نیورون پیٹرنز مضبوط کرتا ہے۔ لیکن اگر آپ روزانہ شکرگزاری، دعا، مثبت جملے، ذکر اور سجدہ کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں، تو آپ کا دماغ بھی نئے مثبت راستے بنانے لگتا ہے۔ روحانیت کا دماغ پر گہرا اثر ہے۔ تحقیق سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ سجدہ، مراقبہ، قرآن کی تلاوت اور اللہ کی یاد دماغی نیورونز کو مثبت انداز میں متاثر کرتے ہیں۔ ان سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے اور دماغ زیادہ متوازن، پُرسکون اور خالص انداز میں کام کرنے لگتا ہے۔

اگر کبھی پرانا منفی پیٹرن متحرک ہو جائے جیسے کوئی خوف، غصہ، احساسِ کمزوری تو وہ لمحہ آپ کے لیے سنہری موقع ہوتا ہے۔ وہیں رکیں، ایک گہرا سانس لیں، آنکھیں بند کریں اور دل سے کہیں: "میں اللہ کی طاقت سے آزاد ہوں، یہ پرانی سوچ میری نہیں"۔ پھر ایک مثبت، ایمان سے بھرپور جملہ دہرائیں: "میں محفوظ ہوں، میں بڑھ رہا ہوں، میں مضبوط ہوں"۔ یہ عمل، جسے ہم "پیٹرن ریپلیسمنٹ تھراپی" کہہ سکتے ہیں، بار بار کرنے سے نیورونز میں نیا ربط پیدا ہونے لگتا ہے۔

دماغ کی مثال ایک باغ جیسی ہے۔ پرانے پیٹرن وہ خاردار جھاڑیاں ہیں جو جگہ گھیرتی ہیں مگر کچھ دیتی نہیں اور نئے پیٹرن وہ ننھے پودے ہیں جنہیں توجہ، دعا، ذکر اور یقین سے سینچا جاتا ہے۔ اگر آپ روزانہ ان پر توجہ دیں، تو پرانی جھاڑیاں خودبخود ختم ہونے لگتی ہیں اور نیا باغ کھلنے لگتا ہے۔ وہی باغ جس میں خواب، عزم، سکون اور اللہ کی رضا کا رنگ ہوتا ہے۔

زندگی بدلنا فلسفے یا کتابوں کا کھیل نہیں۔ یہ ایک اندرونی محنت، ذہنی ریاضت اور روحانی سچائی کا سفر ہے۔ ہر بار جب آپ خود کو منفی سوچ سے بچاتے ہیں اور بہتر سوچ کو چنتے ہیں، تو آپ اپنی زندگی کا نیا راستہ خود بنا رہے ہوتے ہیں اور جیسے جیسے یہ نیا راستہ روز دہرایا جاتا ہے، دماغ اس پر یقین کرنے لگتا ہے اور ایک دن وہی نیورون پیٹرن آپ کے رویے، عمل اور تقدیر کا حصہ بن جاتا ہے۔

یہی نیوروسائنس کا اور ساتھ ہی روحانی سچائی کا نچوڑ ہے:

"Neurons that fire together, wire together. "

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari