Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Neem Zila Talagang, Wazir e Aala Punjab Ki Tarjeehat Mein Akhri Zila

Neem Zila Talagang, Wazir e Aala Punjab Ki Tarjeehat Mein Akhri Zila

نیم ضلع تلہ گنگ، وزیراعلٰی پنجاب کی ترجیحات میں آخری ضلع

تلہ گنگ، پوٹھوہار کے دامن میں بسا ہوا وہ حسین اور باوقار خطہ ہے جسے قدرت نے اپنی سرسبز و شاداب وادیوں، بلند و بالا پہاڑوں اور سادہ مزاج مگر غیرت مند انسانوں کے ساتھ نوازا ہے۔ یہ علاقہ پاکستان کے ان حصوں میں سے ہے جہاں محبت، وفاداری اور قربانی کو کسی نصابی کتاب سے نہیں سکھایا گیا، بلکہ یہ خمیر ہی سے لوگوں کے مزاج کا حصہ ہے۔ تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیجیے، ملکی سلامتی کے محاذ پر اہل تلہ گنگ نے کبھی پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دوسروں کے حقوق کی پاسداری پر فخر ہے مگر اپنے حق کے مطالبے پر زبان کھولتے ہوئے جھجک محسوس کرتے ہیں۔

اسی تلہ گنگ کو 14 اکتوبر 2022 کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ خبر سن کر اہلِ علاقہ کی خوشی دیدنی تھی۔ کئی دہائیوں کے انتظار کے بعد آخرکار ان کی محرومیوں کا کچھ تو ازالہ ہوا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ خوشی ادھوری سی محسوس ہونے لگی۔ ضلع بننے کا اعلان تو ہوگیا مگر عملی صورت حال آج بھی نیم ضلع سے زیادہ مختلف نہیں۔ وہ بنیادی ڈھانچہ جو ایک ضلع کی پہچان ہوتا ہے، وہ ادارے جو اس کے قیام کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں، آج تک مکمل طور پر وجود میں نہیں آئے۔ گویا اعلان تو ہوا، لیکن وہ سہولتیں اور وسائل جو ضلعی درجہ کے ساتھ خود بخود ملنے چاہئیں، اب تک محض وعدوں اور اعلانات تک محدود ہیں۔

اہلِ تلہ گنگ کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ اپنے حصے پر صبر اور شکر کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی آواز کبھی احتجاج کی صورت بلند نہیں ہوئی۔ یہی خاموشی ان کے حق کو دبائے رکھنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ تلہ گنگ کے کسی نوجوان، بزرگ یا خاتون سے ملیں تو وہ اپنے علاقے کی محرومیوں کا ذکر تلخی کے ساتھ نہیں بلکہ ایک مثبت امید کے ساتھ کرے گا۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان ان کا ہے اور یہ پاکستان کے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں یہ خطہ آخر اتنا پیچھے کیوں ہے؟

یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ن کو سب سے زیادہ محبت اور اعتماد تلہ گنگ کے عوام نے دیا۔ ہر انتخاب میں یہ علاقہ ان کے ساتھ کھڑا رہا۔ لیکن افسوس کہ اس وفاداری کا صلہ کبھی سہولتوں اور ترقیاتی منصوبوں کی شکل میں واپس نہ آیا۔ آج بھی اگر لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے شہروں کو دیکھا جائے تو وہاں کی سڑکیں، اسپتال، تعلیمی ادارے اور ترقیاتی ڈھانچہ کسی بڑے ملک کے جدید شہروں سے کم نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف تلہ گنگ کا حال یہ ہے کہ ایک بنیادی ضلعی ہیڈکوارٹر تک قائم نہ ہو سکا۔ یہ فرق محض وسائل کی کمی نہیں بلکہ ترجیحات کی عدم توازن کی نشانی ہے۔

موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف دن رات کام کر رہی ہیں۔ ان کی محنت اور وژن سے انکار ممکن نہیں۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں ترقیاتی منصوبے تیزی سے مکمل ہو رہے ہیں۔ اسپتالوں کی آپ گریڈیشن ہو رہی ہے، تعلیم پر توجہ دی جا رہی ہے، سفری سہولتیں بہتر بنائی جا رہی ہیں۔ الیکٹرک بسوں کا اجرا ہو یا ماحول دوست اقدامات، ہر سمت ایک فعال قیادت کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ اہل تلہ گنگ بھی ان کاموں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، دل سے دعا کرتے ہیں کہ پنجاب ترقی کرے، مگر وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر یہ ترقی کچھ قدم تلہ گنگ کی طرف بھی بڑھا دی جائے تو خوشی کئی گنا بڑھ جائے۔

چند روز پہلے یہ خبر سننے کو ملی کہ میانوالی جیسے پسماندہ ضلع میں الیکٹرک بسیں فراہم کی گئی ہیں۔ یقیناً یہ خوش آئند اقدام ہے۔ میانوالی کے لوگ بھی ہمارے بھائی ہیں، وہ بھی ترقی کے حق دار ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ تلہ گنگ کا نمبر کب آئے گا؟ کیا یہ ہمیشہ آخری ترجیح ہی رہے گا؟ کیا یہاں کے بچے، بزرگ، طلبہ اور مریض اس سہولت کے حقدار نہیں؟ اگر میانوالی میں ممکن ہے تو تلہ گنگ میں کیوں نہیں؟ یہ احساس محرومی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور اگر اسے کم نہ کیا گیا تو یہ خلیج مزید وسیع ہو سکتی ہے۔

ترقی کے وسائل اگر صرف بڑے شہروں کے گرد جمع کیے جائیں تو اس کے نقصانات خود ان شہروں کو بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ لاہور آج کن مسائل سے دوچار ہے، سب جانتے ہیں۔ آبادی کا دباؤ، ٹریفک کا بحران، ماحولیاتی آلودگی اور رہائشی مسائل ایک دن کے نہیں بلکہ برسوں کی غیر متوازن پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ اگر یہی سہولتیں تلہ گنگ جیسے شہروں میں فراہم کی جائیں تو نہ صرف لاہور اور اس کے گرد و نواح کے بوجھ میں کمی آئے گی بلکہ چھوٹے اضلاع کے لوگ بھی اپنے گھروں میں بہتر زندگی گزار سکیں گے۔ یہ تقسیمِ وسائل دراصل صوبے کی مجموعی ترقی کی ضمانت ہے۔

تلہ گنگ کے نوجوان تعلیم کے شوقین ہیں۔ اگر انہیں مقامی سطح پر معیاری تعلیمی ادارے، یونیورسٹیاں اور کالجز میسر آئیں تو وہ بڑے شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ صحت کی سہولتیں اگر بہتر ہو جائیں تو مریضوں کو لاہور یا اسلام آباد کے اسپتالوں کے دروازے نہ کھٹکھٹانے پڑیں۔ روزگار کے مواقع اگر مقامی سطح پر پیدا کیے جائیں تو ہنر مند لوگ اپنے ہی علاقے میں کارآمد ہو سکیں۔ یہ سب کچھ ممکن ہے، اگر صوبائی حکومت اپنی ترجیحات کا رخ ذرا سا موڑ دے اور تلہ گنگ کو صرف کاغذوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں ضلع کا درجہ دے۔

اہل تلہ گنگ کی یہ خواہش بھی ناجائز نہیں کہ وہ اپنے علاقے کو ترقی یافتہ دیکھیں۔ یہ مطالبہ کسی تعصب پر مبنی نہیں، نہ ہی کسی دوسرے علاقے کی ترقی پر اعتراض ہے۔ یہ محض ایک حق ہے جو ہر پاکستانی شہری کو مساوی طور پر حاصل ہے۔ اگر لاہور، فیصل آباد یا میانوالی ترقی کے حق دار ہیں تو تلہ گنگ بھی کسی طرح پیچھے نہیں۔ اس کی محبت، قربانی اور خاموش وفاداری اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ یہ خطہ اب کچھ واپس لینے کا بھی مستحق ہے۔

آج کے اس کالم کے ذریعے اہل تلہ گنگ کی یہ آواز بلند کی جا رہی ہے کہ ہم محرومیوں کا ذکر تو کر رہے ہیں مگر کسی شکوے شکایت کے انداز میں نہیں۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ حکومتِ پنجاب اپنی تیز رفتار ترقیاتی گاڑی کے سفر میں تلہ گنگ کے اسٹیشن کو نظر انداز نہ کرے۔ یہاں کے عوام بھی وہی خواب دیکھتے ہیں جو دوسرے شہروں کے لوگ دیکھتے ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے جدید اسکولوں اور کالجوں میں پڑھیں، وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے مریض اپنے ہی ضلع کے اسپتال میں صحت یاب ہوں، وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی سڑکیں، بازار اور ادارے جدید سہولتوں سے آراستہ ہوں۔

یہ آواز شاید اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے یا نہ پہنچے، لیکن یہ بات اہل تلہ گنگ کو یقیناً خوشی دے گی کہ ان کی محرومیوں کا ذکر کسی نے مثبت انداز میں کیا۔ یہ خوشی بھی کم نہیں کہ کم از کم ان کے دکھوں کو الفاظ میں سمیٹا گیا۔ اصل کامیابی تب ہوگی جب ان آوازوں کو سن کر عملی قدم بھی اٹھائے جائیں گے۔ کیونکہ اہل تلہ گنگ کا سب سے بڑا سرمایہ ان کی صبر و شکر کی روش ہے، مگر یہ سرمایہ ہمیشہ کے لیے امتحان میں نہیں رکھا جا سکتا۔

وقت آ گیا ہے کہ صوبائی حکومت، خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب، اس خوبصورت خطے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ تلہ گنگ کو نیم ضلع کی بجائے مکمل ضلع کا درجہ عملی معنوں میں دیا جائے۔ یہاں کے عوام کی خاموش محبت کو ان کے حقوق کی شکل میں لوٹایا جائے۔ یہ انصاف ہوگا، یہ ترقی ہوگی، یہ وہ خوشی ہوگی جو نہ صرف اہل تلہ گنگ کے دلوں کو مطمئن کرے گی بلکہ پورے پنجاب کو مزید مضبوط اور متحد بنائے گی۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan