Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Naya Aalmi Nizam Aur Taqat Ka Tawazun

Naya Aalmi Nizam Aur Taqat Ka Tawazun

نیا عالمی نظام اور طاقت کا توازن

دنیا ایک بار پھر ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں طاقت کا توازن ازسرِنو تشکیل پا رہا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے حالیہ دنوں میں دوسری جنگِ عظیم کو نہ صرف ایک تاریخی سانحہ بلکہ ایک ایسا سنگِ میل قرار دیا ہے جس نے چینی قوم کی عظیم نشاۃِ ثانیہ کی راہ ہموار کی۔ ان کے بقول اس جنگ میں جاپانی جارحیت اور قومی ذلت کے مقابلے میں چین نے اپنی بقا اور وقار کی بازی جیتی اور یہی تجربہ آج اسے ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت میں ڈھال رہا ہے۔ شی جن پنگ کی اس تعبیر میں دراصل وہ داستان پوشیدہ ہے جو چین اپنے عوام کو یہ باور کرانے کے لیے سناتا ہے کہ ماضی کی سختیوں نے حال کی طاقت کو جنم دیا ہے اور یہی طاقت مستقبل کی بنیاد بنے گی۔

چین کے صدر اپنی تقریر میں نہ صرف اپنے ملک بلکہ سوویت یونین کے اس کردار کو بھی اجاگر کیا، جس نے فسطائیت کو شکست دینے اور جنگ کے بعد کے عالمی نظام کو استحکام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جو مغربی دنیا کے اس موقف کے مقابل میں کھڑا ہوتا ہے جس میں ہمیشہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جنگ کے فاتح اور عالمی نظام کے معمار کے طور پر پیش کیا گیا۔ شی جن پنگ دراصل دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ نئی تاریخ لکھنے کا وقت آ گیا ہے اور اس تاریخ میں چین کا کردار محض ایک شریک کا نہیں بلکہ ایک قائد کا ہوگا۔

چند دن پہلے ہی ایک علاقائی سلامتی اجلاس میں انہوں نے اپنے اس نئے عالمی نظام کا خاکہ پیش کیا۔ اس میں سب سے اہم بات "بالادستی اور طاقت کی سیاست" کے خلاف اتحاد کی اپیل تھی، جسے ہر سننے والا بخوبی جانتا تھا کہ یہ براہِ راست امریکہ کے خلاف تنقید ہے۔ خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ وہ تجارتی پابندیاں اور محصولات جنہوں نے نہ صرف امریکہ کے مخالفین بلکہ اس کے قریبی اتحادیوں کو بھی نشانہ بنایا، اسی تناظر میں شی جن پنگ نے اپنی بات رکھی۔ یہ ایک طرح کی سفارتی چال بھی تھی اور ایک کھلا پیغام بھی کہ چین اب صرف اپنے خطے تک محدود نہیں رہا بلکہ اسے عالمی سطح پر اپنی شرائط طے کرنے کا حق حاصل ہے۔

اس موقع پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ انہوں نے چین کے ساتھ مزید گہرے توانائی کے معاہدے کرکے یہ واضح کر دیا کہ ماسکو اور بیجنگ کا اشتراک اب محض سیاسی نہیں بلکہ معاشی بنیادوں پر بھی مستحکم ہو رہا ہے۔ توانائی کے یہ معاہدے دراصل مغرب کو یہ باور کرانے کا ذریعہ ہیں کہ اگر وہ روس کو تنہا کرنے کی کوشش کرے گا تو چین اس کے لیے سب سے بڑا سہارا بنے گا۔ یہ منظر نامہ ایک نئے عالمی اتحاد کی جھلک دکھاتا ہے، جس میں مشرقی طاقتیں مغربی نظام کے مقابل میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اس اجتماع میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کی موجودگی بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ان کا پہلا بڑا کثیرالجہتی اجلاس ہے جس میں وہ شریک ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ پچھلے چھاسٹھ برسوں میں پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں جنہوں نے کسی چینی فوجی پریڈ میں شرکت کی ہے۔ ان کی موجودگی کو محض ایک علامتی اشارہ سمجھنا درست نہ ہوگا۔ یہ دراصل اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ شمالی کوریا اپنے ایٹمی پروگرام پر عائد عالمی پابندیوں کے باوجود اب کھل کر چین اور اس کے اتحادیوں سے غیر اعلانیہ حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس موقع پر ان کی بیٹی جو اے کی پہلی بین الاقوامی جھلک بھی دنیا کے سامنے آئی ہے، جنہیں جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسیاں مستقبل میں کم جونگ اُن کی جانشین سمجھتی ہیں۔ یوں ایک طرف سیاسی علامتیں ہیں اور دوسری طرف طاقت کے تسلسل کا اعلان۔

اس موقع پر چین نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ملک بھر میں مقامی حکومتوں نے لاکھوں رضاکاروں اور کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کیا تاکہ اس بڑے پروگرام کے دوران امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ تیاری محض ایک حفاظتی اقدام نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد یہ پیغام دینا بھی تھا کہ چین اپنی سڑکوں سے لے کر اپنی فوج تک، ہر سطح پر متحد ہے اور کسی بے چینی یا شورش کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی جائے گی۔ ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہے اور ہر منظر ایک سوچے سمجھے اسکرپٹ کے مطابق پیش کیا جا رہا ہے۔

ایک ماہر کے بقول صدر شی اس موقع کو اس لیے بھی استعمال کریں گے کہ وہ دنیا کو یہ دکھا سکیں کہ فوج پوری طرح ان کے ساتھ ہے۔ یہ تاثر دینا بہت ضروری ہے، کیونکہ عالمی طاقت بننے کی دوڑ میں سب سے بڑا سہارا اپنی فوجی طاقت ہی ہوا کرتی ہے۔ جب کوئی ملک یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی فوج نہ صرف پیشہ ور ہے بلکہ اپنے قیادت کے پیچھے یکجا کھڑی ہے، تو اس سے دنیا کو ایک غیر اعلانیہ پیغام جاتا ہے کہ اس ملک کو چیلنج کرنا آسان نہیں ہوگا۔

اگر اس پورے منظرنامے کو ایک وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کا طاقت کا توازن اب پرانے اصولوں پر نہیں چل رہا۔ امریکہ کی بالادستی اور اس کا عالمی نظام جسے دوسری جنگِ عظیم کے بعد قائم کیا گیا تھا، اب لرزتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس نظام نے کئی دہائیوں تک مغرب کو برتری بخشی، لیکن آج چین اور روس جیسے ممالک نہ صرف اس پر سوال اٹھا رہے ہیں بلکہ اپنے متبادل بیانیے اور اتحاد بھی تخلیق کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ شمالی کوریا جیسے ممالک کا جڑ جانا، چاہے بظاہر معمولی دکھائی دے، لیکن اصل میں یہ ایک بڑی تصویر کا حصہ ہے۔

شی جن پنگ کا یہ خواب کہ دنیا ایک نیا عالمی نظام دیکھے گی، محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک باقاعدہ حکمتِ عملی ہے۔ وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ "بالادستی" کا دور ختم ہو رہا ہے اور اب طاقت کی سیاست نہیں بلکہ شراکت اور برابری کا دور آ رہا ہے۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا یہ نیا عالمی نظام واقعی سب کے لیے مساوات کا پیغام لائے گا یا پھر یہ صرف پرانے نظام کی جگہ ایک نئے "مشرق مرکز" کی بالادستی کو جنم دے گا؟ اس سوال کا جواب وقت کے ساتھ ہی سامنے آئے گا، لیکن یہ حقیقت انکار کے قابل نہیں کہ دنیا ایک بڑے تغیر کے دہانے پر کھڑی ہے۔

چین اپنی تاریخ کو ایک عظمت کی علامت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے، روس اپنے وسائل کے ذریعے اس نئی راہ کو ہموار کر رہا ہے اور شمالی کوریا اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے اس اتحاد کو ایک اور رنگ دے رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی اب بھی اپنی گرفت قائم رکھنے کی جدوجہد میں ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج کی دنیا دراصل دو کہانیوں کا امتزاج ہے: ایک وہ کہانی جو ماضی کی جنگوں سے نکل کر نئے خواب دیکھ رہی ہے اور دوسری وہ کہانی جو اپنی پرانی بالادستی کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان دونوں کہانیوں کے بیچ کھڑی دنیا ایک نئے عالمی نظام کے جنم کی شاہد بننے جا رہی ہے۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood