Musanifeen Ka Gaun, Guangdong
"مصنفین کا گاؤں"، گوانگ ڈونگ

جنوبی چین کے صوبے گوانگ ڈونگ کے دل میں ایک قدیم ہاکا بستی آباد ہے، جسے آج دنیا "چائنا کا پہلا مصنفین کا گاؤں" کے نام سے جانتی ہے۔ یہ صرف ایک گاؤں نہیں، بلکہ ایک ایسا ادبی مرقع ہے جہاں لفظوں کی خوشبو فضا میں گھلی ہوئی ہے اور تخلیقی روحیں اپنی روشنی سے دنیا کو منور کر رہی ہیں۔ یہ وہی گاؤں ہے جس نے معروف چینی ادیب شوئے مو (Xue Mo) کو گزشتہ ایک دہائی کے دوران لامحدود تخلیقی الہام عطا کیا۔ وہ 2010 میں اس گاؤں میں آباد ہوئے اور تب سے یہاں کے قدرتی مناظر، ثقافتی ورثے اور سکون نے ان کے تخلیقی ذہن کو وہ پر لگائے جن کی پرواز سرحدوں سے ماورا تھی۔
مصنفین کا گاؤں ابتدا میں ایک خواب تھا۔ چند معروف ادیبوں کی قائم کردہ ایک چھوٹی سی ادبی برادری۔ یہ خواب 2007 میں حقیقت کی پہلی سانس لینے لگا، جب کچھ لکھنے والوں نے اس تقریباً تین سو سال پرانی ہاکا بستی میں سکونت اختیار کی۔ انہیں یہاں کے خوبصورت قدرتی ماحول، پرسکون فضا اور آسان سفری سہولیات نے اپنی طرف کھینچا۔ وہ سب اپنے دلوں میں تخلیقی جوش لیے یہاں آئے اور الفاظ کے ایسے دیے جلائے جن کی روشنی اب چین سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔
2010 میں مقامی حکومت نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کا فیصلہ کیا۔ "مصنفین کا گاؤں" کو ایک سرکاری برانڈ کے طور پر قائم کیا گیا۔ حکومت نے ادبی تخلیق کے لیے نہ صرف ماحول بہتر بنایا بلکہ مالی معاونت بھی فراہم کی تاکہ زیادہ سے زیادہ لکھنے والے یہاں آ کر بس سکیں۔ وقت گزرتا گیا اور وہ تصوراتی بستی اب حقیقی وجود اختیار کر چکی ہے۔
گزشتہ برس، ژانگ مو تو (Zhangmutou) قصبے کے کلچرل، اسپورٹس اور ٹورزم آفس کے عہدیدار، سائی زینگ یو (Cai Zengyu) کے مطابق، اس منصوبے پر تیس ملین یوآن (تقریباً چار ملین امریکی ڈالر) کی خطیر رقم خرچ کی گئی۔ اس رقم سے بیس ہزار مربع میٹر پر پھیلی عمارتوں کے ایک قدیم کلسٹر کو جدید طرز پر بحال کیا گیا۔ اب یہ گاؤں صرف ایک رہائشی علاقہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور متحرک ادبی دنیا ہے۔ جس میں تخلیق، فنون، سیاحت اور ثقافت ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔
مصنفین کے لیے یہاں پانچ مخصوص زون بنائے گئے ہیں: ایک تخلیقی کام کے لیے، دوسرا ثقافتی و فنی سرگرمیوں کے لیے، تیسرا عوامی میل جول کے لیے، چوتھا سیاحتی تجربات کے لیے اور پانچواں تفریح و فراغت کے لیے۔ حکومت نے نہ صرف رہائش کے لیے سہولتیں فراہم کیں بلکہ ادیبوں کو تخلیقی گرانٹس بھی دی گئیں۔ مزید یہ کہ نو ملین یوآن کی سرمایہ کاری ایک پیشہ ور انتظامی کمپنی کو دی گئی جو اس گاؤں کے تمام آپریشنز کو موثر انداز میں چلا رہی ہے۔
یہ اقدامات رائیگاں نہیں گئے۔ آج مصنفین کا گاؤں چین کے سب سے زیادہ فعال اور نتیجہ خیز ادبی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ شوئے مو، جو شمال مغربی چین کے صوبہ گانسو کی رائٹرز ایسوسی ایشن کے نائب چیئرمین بھی ہیں، کہتے ہیں کہ "ڈونگ گوان نے مجھے بے پناہ تخلیقی توانائی دی ہے۔ یہاں کا ماحول ایک برکت ہے۔ قدرتی حسن، ثقافتی ورثہ اور حکومت کی بے مثال سرپرستی، سب مل کر لکھنے والوں کے لیے ایک مثالی دنیا تخلیق کرتے ہیں"۔
شوئے مو نے اپنے کئی اہم ناول اور مضامین یہی رہ کر لکھے۔ وہ کہتے ہیں کہ "یہ وہ جگہ ہے جہاں الفاظ خود بخود دل میں اترتے ہیں، جہاں فضا میں کہانیوں کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں"۔
ایک اور معروف ناول نگار، چن چونگ ژینگ (Chen Chongzheng)، بھی اس گاؤں کی پرسکون فضا کے اسیر ہو گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا مشہور افسانہ Against the Wind اسی گاؤں میں تخلیق ہوا۔ "یہ افسانہ دیہی اور شہری زندگی کے امتزاج سے پیدا ہوا۔ میں نے یہیں محسوس کیا کہ دیہات کی خاموشی اور شہر کی تیزی ایک دوسرے کو کس طرح توازن میں رکھتے ہیں۔ یہ گاؤں اسی امتزاج کی جیتی جاگتی تصویر ہے، " وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔
چن چونگ ژینگ کا کہنا ہے کہ یہ گاؤں ادیبوں کے لیے ایک روحانی پناہ گاہ ہے، مگر ساتھ ہی عام عوام کے لیے ایک کھلا دروازہ بھی ہے، جہاں وہ ادب کو قریب سے محسوس کر سکتے ہیں۔ "یہاں ادب کسی اشرافی چیز کا نام نہیں رہا، بلکہ لوگوں کے روزمرہ سانس لینے کے عمل کی طرح عام اور فطری ہوگیا ہے"۔
وہ اس تجربے کو "چینی روایتِ کائی فنگ" (Caifeng) سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی ادب کو لوگوں کے بیچ جا کر جنم دینا، ان کی زندگیوں سے مشاہدہ کرنا اور ان ہی کے جذبات کو الفاظ میں ڈھالنا۔ ان کے نزدیک یہ گاؤں اسی روایت کی جدید شکل ہے۔
اپریل 2025 تک، اس گاؤں میں ستانوے ادیب آباد ہو چکے ہیں جن میں پینسٹھ قومی سطح کے مصنفین اور نقاد شامل ہیں۔ ان میں چین رائٹرز ایسوسی ایشن کے نو سابق ارکان بھی موجود ہیں۔ اب تک یہاں رہنے والے مصنفین کی تخلیقات کی تعداد تقریباً سات سو تک جا پہنچی ہے، جن میں سے پانچ سو سے زیادہ نے مختلف سطحوں پر انعامات جیتے ہیں۔ ان میں آٹھ تخلیقات کو "لو شون ادبی ایوارڈ" جیسا معتبر اعزاز بھی حاصل ہوا۔ جو چین کا سب سے بڑا ادبی اعزاز مانا جاتا ہے۔
ادب کے یہ پھول جب کھلنے لگے تو ان کی خوشبو نے سیاحت اور معیشت کو بھی جلا بخشی۔ اب یہ گاؤں صرف ادیبوں کا نہیں بلکہ سیاحوں کا بھی محبوب مقام ہے۔ یہاں "ادب پلس" کے ماڈل کے تحت کاروبار پروان چڑھ رہا ہے، یعنی "ادب + فلم و ٹیلی ویژن"، "ادب + سیاحت" اور "ادب + ثقافتی مصنوعات" جیسے نئے امتزاج۔
مصنفین کے کاموں پر فلمیں اور سیریز بنانے کے لیے اس گاؤں نے آئی کیوئی (iQiyi)، ہوا یی برادرز (Huayi Brothers) اور ٹینسنٹ پکچرز (Tencent Pictures) جیسے بڑے میڈیا گروپس کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔ یہ تخلیقی تعاون اس گاؤں کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کا باعث بن رہا ہے۔
سیاحت کے میدان میں بھی کمال کے تجربات ترتیب دیے گئے ہیں۔ مشہور سفری پلیٹ فارمز، جیسے چائنا ٹریول سروس اور ما فنگ وو (Mafengwo)، کے ساتھ شراکت داری کے نتیجے میں "ادبی تھیم" پر مبنی ٹریول پیکیجز متعارف ہوئے ہیں، جن میں تعلیمی دورے، خاندانی سیر و تفریح اور ثقافتی ورثے کے سفر شامل ہیں۔
یہاں کے دکانداروں نے بھی ادب کو تجارت کا حصہ بنا لیا ہے۔ مقامی دکانوں اور کیفیز میں اب "انسپیریشن واٹر" (ایک لوقات کے ذائقے والا مشروب) اور "وین ژانگ زوئی" (ادبی تھیم والا مشروب) دستیاب ہیں۔ گاؤں کی لائبریریوں اور یادگاری دکانوں میں خوبصورت کیلنڈر، میوزک باکسز اور ادبی حوالوں سے مزین تحفے فروخت ہوتے ہیں۔
ادب اور سیاحت کے اس حسین امتزاج نے ژانگ مو تو قصبے کی معیشت کو نئی جان بخش دی ہے۔ جو گاؤں کبھی محض ایک پرانا مسکن تھا، اب وہ تخلیق، معیشت اور سیاحت کا سنگم بن چکا ہے۔
صنعتی ترقی کے شور میں گم ہوتی دنیا میں، یہ گاؤں ایک خاموش مگر روشن پیغام دیتا ہے، کہ لفظ اب بھی زندگی بدل سکتے ہیں، کہ کہانیاں اب بھی خوابوں کو حقیقت میں ڈھال سکتی ہیں۔ یہاں کے ادیبوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب حکومت، معاشرہ اور فنکار ایک سمت میں سوچیں تو ادب نہ صرف روح کی تسکین بن جاتا ہے بلکہ ترقی کا زینہ بھی۔
ڈونگ گوان کے پروفیسر شیے یو شن (Xie Youshun) اس بات کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں: "یہ شہر ہجرت کرنے والوں کا مسکن ہے۔ یہاں ہر شخص اپنی بولی، اپنے خواب اور اپنے زخم ساتھ لاتا ہے۔ یہ تنوع ہی تصادم، میل جول اور انضمام کو جنم دیتا ہے اور یہی وہ مواد ہے جو ادبی کہانیوں کو زندگی بخشتا ہے۔ " ان کے نزدیک یہی تنوع اس گاؤں کی اصل طاقت ہے۔
واقعی، "مصنفین کا گاؤں" صرف ایک جگہ نہیں، ایک نظریہ ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ جب ادب زمین سے جڑتا ہے تو اس کے پھل معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچتے ہیں۔ یہ گاؤں ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تخلیق، اگرچہ ایک تنہائی میں جنم لیتی ہے، مگر اس کا مقصد ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں روشنی بانٹنا ہوتا ہے۔
یہ ادبی بستی چین کی تاریخ میں شاید پہلی ایسی مثال ہے جہاں ادب اور معیشت، روحانیت اور سیاحت، روایت اور جدیدیت، سب ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی میں چل رہے ہیں۔ یہاں لفظ کاروبار نہیں بلکہ عبادت ہے اور ہر مصنف اپنی تحریر سے اس زمین کے حسن کو امر کر رہا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ گوانگ ڈونگ کا یہ "مصنفین کا گاؤں" آج کی دنیا کے لیے ایک نیا پیغام رکھتا ہے: اگر الفاظ کو زندگی دی جائے، تو وہ پوری دنیا کو زندہ کر دیتے ہیں۔

