Mosami Phalon Ki Siasi Haisiyat
موسمی پھلوں کی سیاسی حیثیت

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے پھل بھی انسانوں کی طرح کسی نہ کسی سیاسی دھارے میں بہے جا رہے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر موسمی پھل، جن کی آمد بھی دھوم دھام سے ہوتی ہے اور رخصتی بھی کسی مستعفی وزیر کے انداز میں۔ تھوڑے سے ہنگامے، افسوس اور دل گرفتگی کے ساتھ۔ جیسے ہی آم کا موسم آتا ہے، پاکستانی قوم دو حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک وہ جو آم کو کھا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو آم کو آم نہیں سمجھتے بلکہ قومی مفاد کا سوال قرار دیتے ہیں۔ آم نہ ہوا، جیسے کشمیر کا مسئلہ ہوگیا۔
ایسے ہی تربوز، خربوزے، آلو بخارے، لیچی، انگور، انار، سیب، امرود، مالٹے۔ سبھی اپنی اپنی موسمی حیثیت کے ساتھ ہماری سیاست میں شامل ہو چکے ہیں۔ سیاست صرف انسانوں کی نہیں ہوتی، ذائقے کی بھی ہوتی ہے۔ کسی پھل کی قیمت بڑھ جائے تو عوامی مزاج بگڑ جاتا ہے۔ کسی پھل کی کمی ہو جائے تو حکومتی دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے اور اگر کسی پھل کی بہتات ہو جائے تو کسان احتجاج پر اُتر آتے ہیں کہ ہمیں ہماری محنت کا معاوضہ نہیں مل رہا۔
سیاست کا سب سے بڑا اصول ہے وقت پر آنا اور وقت پر جانا۔ یہی اصول موسمی پھلوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ آم وقت پر آ جائے تو بازار میں بہار، لیکن اگر بارش جلدی آ جائے یا دھوپ کا دورانیہ کم ہو جائے تو آم کی کوالٹی پر سوال اٹھ جاتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر تجزیے شروع ہو جاتے ہیں کہ "پچھلے سال کے آم زیادہ میٹھے تھے"، "اس دفعہ کے سندھڑی میں وہ بات نہیں"، "چونسا تو اب پہلے جیسا رہا ہی نہیں"، بالکل ویسے ہی جیسے ہم سیاستدانوں کی سابقہ تقریریں نکال کر موجودہ حالات سے موازنہ کرتے ہیں۔ آم کے ساتھ ساتھ ہم آم والے کو بھی بحث کا موضوع بناتے ہیں۔ "دس دن پہلے یہی درجن پانچ سو کا تھا، آج سات سو کا کیوں ہے؟" اور پھر آم فروش سیاستدانوں کی طرح دلیلیں دیتے ہیں، "جناب مہنگائی ہے، بارشوں نے فصل خراب کی، ٹرانسپورٹ کے کرایے بڑھ گئے، بجلی کے بل نے کمر توڑ دی" اور ہم خاموش ہو جاتے ہیں، بالکل ایسے جیسے ٹی وی پر وزیر خزانہ کے تبصرے کے بعد خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔
موسمی پھلوں کی حیثیت دراصل ہماری جذباتی جمہوریت کی علامت ہے۔ ہم انہیں محبت سے خوش آمدید کہتے ہیں، انہی سے شکایت کرتے ہیں، انہیں گالیاں بھی دیتے ہیں اور آخر میں رخصت کرتے ہوئے افسوس بھی کرتے ہیں۔ کچے آم کے اچار سے لے کر پکے آم کی چاٹ تک، تربوز کی قاش سے لے کر فالسے کی چٹنی تک، انار کے جوس سے لے کر آڑو کے مربے تک، ہمارے جذبات ان میں ڈھلے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے روزمرہ کے مسائل سے نکل کر پھلوں میں پناہ لیتے ہیں۔ خربوزہ جب کسی اخبار کے صفحے پر مہنگائی کے خلاف علامتی تصویر بنتا ہے تو عوام سمجھ جاتی ہے کہ اب احتجاج پھلوں تک آ چکا ہے۔
پھل نہ صرف ہماری خوراک کا حصہ ہیں بلکہ ہماری سیاسی زبان کا بھی۔ آپ نے سنا ہوگا "کیلا ری پبلک"، "خربوزوں کی حکومت"، "آموں کی سیاست"، "پپیتا پالیسی"۔ یہ اصطلاحات سنجیدہ بھی ہیں اور مزاحیہ بھی۔ لیکن ان سب کے پیچھے ایک سچائی چھپی ہے کہ ہم پھلوں کو صرف کھاتے نہیں، انہیں محسوس کرتے ہیں، ان پر بولتے ہیں، ان کے بہانے حکومت کو کوستے ہیں اور کبھی کبھار اپنی جذباتی بھڑاس بھی نکالتے ہیں۔ جیسے ہی خربوزہ خریدا اور اندر سے سفید نکل آیا، دل کرتا ہے کسی ایم این اے کو بھی کاٹ کر دیکھیں کہ وہ اندر سے بھی اتنا ہی بے کار ہے یا نہیں۔ جیسے ہی انار خریدے اور اندر سے دانے کالے نکلیں تو شک ہوتا ہے کہ شاید یہ بھی کسی سازش کا حصہ ہیں، کوئی خفیہ ہاتھ جو ہماری صحت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
پھلوں کی سیاست کا ایک اور پہلو وہ ہوتا ہے جب ہم انہیں تحفے کے طور پر دیتے ہیں۔ آم کسی کو بھیجنا صرف آم بھیجنا نہیں ہوتا، یہ سیاسی پیغام ہوتا ہے۔ "ہم آپ سے محبت کرتے ہیں"، "ہم آپ کو منانا چاہتے ہیں"، یا پھر "ہم آپ کو خریدنا چاہتے ہیں"۔ کسی کو سیب کا کریٹ دینا دوستی کی تجدید ہے، لیکن خربوزہ دینا خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ خربوزے کا ذائقہ اور خریدار کی نیت دونوں شک میں ڈال دیتے ہیں۔ انار دینا اکثر رومانی پیغام بن جاتا ہے، لیکن اگر انار میں کیڑا نکل آئے تو عشق کی بنیاد ہل سکتی ہے۔
پھلوں کی قیمت، دستیابی، معیار اور ذائقہ، سب ایک سیاسی مسئلہ بن جاتے ہیں۔ مارکیٹ میں اگر سیب چینی نکل آئے تو ہم غصہ ہو جاتے ہیں، "اپنے ملک میں اتنے سیب اگتے ہیں پھر چینی سیب کیوں؟" جیسے سوالات قومی خودمختاری کے سوال بن جاتے ہیں اور اگر وہی چینی سیب ذائقے میں بہتر نکل آئے تو ہم تھوڑا شرمندہ ہو کر چپ چاپ کھاتے ہیں، بالکل ایسے جیسے غیر ملکی امداد لینے کے بعد ملکی خودمختاری کی تقریر سن کر تالیاں بجا دیتے ہیں۔
پھلوں کی سیاسی حیثیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب رمضان آتا ہے۔ سچ پوچھیے تو رمضان پھلوں کی بلیک مارکیٹنگ کا مہینہ ہے۔ ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع، ملاوٹ اور لوٹ مار، سب سے زیادہ پھلوں پر ہوتی ہے۔ تربوز ایک دن پہلے پچاس روپے فی کلو، اگلے دن ڈیڑھ سو روپے، بغیر کسی معقول وجہ کے۔ آم جیسے عوامی پھل کو ایسا وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے کہ جیسے یہ کوئی شاہی شخصیت ہو۔ ایک خاص طبقہ اسے کھاتا ہے اور باقی صرف حسرت سے دیکھتا ہے۔ جیسے ہی آم کی قیمت کم ہوتی ہے، ہم بے چین ہو جاتے ہیں، کہیں یہ آخری دن نہ ہو۔
پھلوں کی سیاست صرف مارکیٹ اور منڈی کی نہیں، بلکہ انسانی جسم اور روح کی بھی ہے۔ کچھ پھل دل کو سکون دیتے ہیں، کچھ پھل پیٹ کو تسلی دیتے ہیں، کچھ جسم کو طاقت دیتے ہیں اور کچھ پھل صرف آنکھوں کو خوشی دیتے ہیں۔ سیب ہو یا انار، آم ہو یا انگور، لیچی ہو یا آڑو، ان سب کے پیچھے ایک تاریخ ہے، ایک ثقافت ہے، ایک فطری حکمت ہے اور جب ہم انہیں سیزن سے باہر کھاتے ہیں تو وہی ہوتا ہے جو کسی نا اہل شخص کو بڑی کرسی پر بٹھانے سے ہوتا ہے۔ ذائقہ بھی خراب ہوتا ہے اور انجام بھی۔
ہمیں موسمی پھلوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جو ہم اچھے رہنماؤں کے ساتھ چاہتے ہیں۔ ان کے آنے پر خوشی، قیام کے دوران بھرپور استفادہ اور جانے پر عزت سے رخصت اور جب دوبارہ آئیں تو پہلے سے زیادہ محبت، احترام اور قیمت دی جائے۔ افسوس، ہم یہ سلوک نہ پھلوں کے ساتھ کرتے ہیں نہ رہنماؤں کے ساتھ۔ ہم زیادہ کھاتے ہیں، زیادہ ضائع کرتے ہیں اور زیادہ گلہ کرتے ہیں۔
پھل صرف غذا نہیں، موسم کا، فطرت کا اور انسان کے باطن کا آئینہ ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ ہر چیز کا وقت ہوتا ہے، ہر چیز کی مقدار ہونی چاہیے اور ہر ذائقے کی ایک قدر ہونی چاہیے۔ آم اگر روز کھایا جائے تو آم کا لطف ختم ہو جاتا ہے اور اگر کبھی نہ کھایا جائے تو زندگی ادھوری لگتی ہے۔ یہی زندگی کا فلسفہ ہے اور یہی سیاست کا بھی۔ توازن، احساس اور شکرگزاری۔

