Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Modi, Pakistan Ke Liye Aik Nemat

Modi, Pakistan Ke Liye Aik Nemat

مودی، پاکستان کے لیے ایک نعمت

بھارت، وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں، ایک ایسے راستے پر گامزن ہو چکا ہے جو قوم پرستی کو اخراج، مرکزیت کو جبر اور قیادت کو آمرانہ طرزِ عمل سے تعبیر کرتا ہے۔ اگرچہ بظاہر بھارت کا اُبھار علاقائی غلبے کی علامت دکھائی دیتا ہے، مگر قریب سے دیکھیں تو یہ ایک ایسا ملک بنتا جا رہا ہے جو اندرونی تضادات کا شکار ہو کر خود ہی مفلوج ہوتا جا رہا ہے۔

مودی کی نظریاتی سختی، اختیارات کی مرکزیت اور اپنی شبیہ کے خبط نے انتظامی ناکامیوں کو چھپا رکھا ہے۔ اختلافِ رائے کو قید، نگرانی اور سماجی بائیکاٹ کے ذریعے دبایا جا رہا ہے۔ بغاوت، ہتکِ عزت اور انسدادِ دہشت گردی جیسے قوانین کو صحافیوں اور ناقدین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ جیسے ادارے اختلاف رکھنے والی آوازوں کو دبانے کا ہتھیار بن چکے ہیں۔

عدلیہ اور تفتیشی ادارے شدید سیاسی دباؤ کا شکار ہیں، جس سے جمہوری اقدار کو زوال اور اختیارات کی علیحدگی کو کمزوری کا سامنا ہے۔ پارلیمانی بحث محض رسمی کارروائی بن چکی ہے جبکہ تزویراتی بصیرت پیچھے رہ گئی ہے۔

مودی کا ہندوتوا پر مبنی ایجنڈا بھارت کے وفاقی اور سیکولر ڈھانچے کو ہلا کر رکھ چکا ہے۔

آرٹیکل 370 کا خاتمہ، شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور مسلسل اختلاف رائے کو دبانے کی پالیسیوں نے کشمیر، پنجاب، آسام اور منی پور جیسے علاقوں کو بدظن کر دیا ہے۔ میزورم میں دو سال سے جاری بے چینی پر مرکزی حکومت کی خاموشی اس بیگانگی کا واضح مظہر ہے۔

یہ تضاد، جمہوری چہرے اور اندرونی حقیقت کے درمیان، پاکستان کے لیے ایک نادر موقع ہے۔ ایک ایسی خارجہ پالیسی اپنائی جائے جو جذباتیت کے بجائے تدبر، اصلاحات اور تزویراتی تیاری پر مبنی ہو۔

بھارت کی سیکولر شناخت، جو اس کے تنوع کا محور رہی ہے، اب شدید دباؤ میں ہے۔

ہندوتوا کے فروغ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریاتی حلیفوں، آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد، کو مزید بااختیار بنا دیا ہے۔ ان کا "گھر واپسی" پروگرام مذہبی واپسی کے پردے میں قومی شناخت کو ہندو رنگ میں رنگنے کی کوشش ہے۔

یہ سوچ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں کے "ہندو سماج" نظریے سے جڑی ہے اور اگرچہ ہر موقع پر حکومتی پالیسی کی شکل میں سامنے نہیں آتی، مگر مودی حکومت کے اکثریتی نظریے سے گہری ہم آہنگی رکھتی ہے۔ یوں بھارت کی نسلی اور مذہبی تنوع، جو کبھی اس کی طاقت تھی، آج سیاسی دراڑ بن چکی ہے۔

بھارت کی "معاشی ترقی" کی کہانی حقیقت سے کٹ چکی ہے۔ جی ڈی پی میں اضافہ تو دکھایا جا رہا ہے، مگر اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ متوسط طبقہ بدحال ہے، آمدن جمی ہوئی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، قوتِ خرید گھٹ چکی ہے اور اندرونی طلب میں کمی آئی ہے۔

آج بھی بھارت کی 57 فیصد آبادی سبسڈی والے آٹے اور چاول پر انحصار کرتی ہے، جو بدستور غربت کے وجود کا ثبوت ہے۔

خارجہ سرمایہ کاری (FDI) میں 2025 کے مالی سال میں 96 فیصد کمی آئی، جو سرمایہ کاروں کے اعتماد کے زوال کی علامت ہے۔

فورڈ، جنرل موٹرز، ہارلے ڈیوڈسن، ہولسم، میٹرو، کیرفور، اوبر ایٹس، ڈنکن ڈونٹس، سام سنگ ڈسپلے اور آر بی ایس جیسے عالمی ادارے بھارت سے جا چکے ہیں یا اپنا حجم گھٹا چکے ہیں۔ ان کے مطابق کم منافع، پالیسی کی غیر یقینی صورت حال اور سخت ضوابط بنیادی وجوہات ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2014 سے نومبر 2021 کے دوران 12,458 غیر ملکی ذیلی کمپنیوں میں سے 2,783 نے بھارت میں اپنی سرگرمیاں بند کر دی ہیں۔ ان میں سٹی بینک، فرسٹ رینڈ بینک، بارکلیز، ایچ ایس بی سی، بی این پی پیریباس، یو بی ایس، مورگن اسٹینلے، نووارٹس، ٹیسٹا زینیکا، فائزر، شا پلے اور جی ایس کے شامل ہیں۔

صارفین پر مبنی شعبے جیسے رہائش اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی منڈی (FMCG) سست روی کا شکار ہیں اور قرضوں کی واپسی میں تاخیر معاشی دباؤ کو ظاہر کرتی ہے۔

یہ سب مل کر مئی-جون 2025 میں نِفٹی 50 کی تاریخی گراوٹ کا سبب بنے، جو تین دہائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ یہ گراوٹ بیرونی عوامل نہیں بلکہ اندرونی اعتماد کے بحران سے پیدا ہوئی۔

چین کے برعکس، جہاں ترقی نے کروڑوں افراد کو غربت سے نکالا، بھارت کا ماڈل طبقہ بالا کے گرد گھومتا ہے۔

معیشت کاغذوں پر ترقی کر رہی ہے مگر عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ معاشی اعداد و شمار اور عوامی معیارِ زندگی کے درمیان خلیج وسیع تر ہو رہی ہے۔

خارجہ تعلقات میں، بھارت کی سفارتی تنہائی مودی کی جارحانہ، قوم پرستانہ پالیسیوں کی پیداوار ہے۔

2023 میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ جے شنکر کا آمرانہ لب و لہجہ اس تبدیلی کی علامت تھا۔ اب بھارت کو ایک مشکل، جارحانہ شراکت دار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ مغربی اتحادیوں نے بھی تنقید کی ہے۔

علاقائی سطح پر بھارت نے بھوٹان کو اپنی زبردستی خارجہ پالیسی سے ناراض کیا، نیپال کو نقشہ سازی اور سرحدی تنازعات میں الجھایا اور سری لنکا کو چین کی طرف دھکیل دیا۔

فوجی سطح پر "آپریشن سندور" نے یہ عیاں کیا کہ مودی حکومت جدید جنگی حکمتِ عملی کی باریکیوں کو نہیں سمجھتی۔ جہاں کامیابی کا انحصار ڈیجیٹل نیٹ ورک، حقیقی وقت کی معلومات اور مربوط جنگی نظام پر ہوتا ہے۔

رافیل طیاروں کی موجودگی کے باوجود، معاون سازوسامان کی فراہمی میں تاخیر نے جنگی تیاری کو متاثر کیا۔

ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے خود اعتراف کیا کہ تاخیر بھارت کی جنگی صلاحیت کو مستقل کمزور کر رہی ہے۔

شمال مغرب میں، چین کو آرٹیکل 370 کی منسوخی اور، ایسٹ تبت کے بھارتی بیانات نے اشتعال دلایا، جس کے نتیجے میں گلوان وادی میں خونی جھڑپیں ہوئیں۔

ساتھ ہی، بھارت پر سکھ اور کشمیری کارکنوں کے کینیڈا اور امریکہ میں ماورائے سرحد قتل میں ملوث ہونے کے الزامات بھی لگے، جنہوں نے مغربی ممالک میں شدید ردعمل اور تحقیقات کو جنم دیا۔

بنگلہ دیش میں حسینہ حکومت کا زوال جزوی طور پر ان مظاہروں کا نتیجہ تھا جنہیں بھارت کی بالا دستی پر مبنی پالیسیوں کے خلاف عوامی غصے نے جنم دیا، خاص طور پر جب بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بنگلہ دیشی مہاجرین کو "دیمک" سے تشبیہ دی۔

نوجوانوں اور حزب اختلاف میں ابھرتا ہوا بھارت مخالف جذبات بھارت کے لیے طویل المدتی سفارتی مسئلہ بن چکا ہے، حالانکہ بھارت نے ڈھاکہ کو ہمیشہ ایک تابع ہمسایہ سمجھا تھا۔

یہ لمحہ پاکستان کے لیے فیصلہ کن موڑ ہے۔ مودی کی غلطیوں پر خوشی منانے کے بجائے دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کا وقت ہے، کیونکہ تاریخ اُن قوموں کو سرفراز کرتی ہے جو تدبر سے کام لیتی ہیں، نہ کہ جذبات سے۔

مودی کا بھارت جارحانہ، عالمی طور پر تنہا، معاشی طور پر بے سمت اور داخلی طور پر تقسیم شدہ ہو چکا ہے۔ مگر یہی حالات صبر، حکمت اور تزویراتی تدبیر کا تقاضا کرتے ہیں، نہ کہ جوشیلا ردعمل۔

یہ وقت فخر یا نعرہ بازی کا نہیں۔ بلکہ اسے ایک سنہری موقع سمجھا جائے تاکہ پاکستان اپنے اندر موجود سماجی، معاشی اور نسلی کمزوریوں کو پہچانے اور اُن کا تدارک کرے۔

سفارتی میدان میں خود کو مضبوط کرے، بغیر کسی نمود و نمائش کے۔

حکومتی نظام کی اصلاح، اتحاد، ادارہ جاتی مضبوطی اور ملکی تعمیر پر توجہ دے کر پاکستان کو ایک مستحکم اور باوقار ریاست بنایا جا سکتا ہے۔

مودی کی پالیسیوں نے بھارتی اقلیتوں کو الگ تھلگ کر دیا ہے اور قومی وحدت کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ بہتر ہے مودی خود اپنے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہیں۔

پاکستان کے لیے اصل خطرہ ایک سمجھدار اور ترقی پسند کانگریس حکومت ہو سکتی ہے، جس نے ماضی میں بھارت کی معیشت کو جلا بخشی تھی۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz