Modi Aur Bihar
مودی اور بہار

صبح کے وقت دہلی کی فضا میں ہلکی سی خنکی تھی۔ نیوز چینلوں کے دفاتر میں غیر معمولی گہماگہمی تھی۔ سب کی نظریں ایک ہی ریاست پر جمی تھیں۔ بہار۔ وہی بہار جو بھارت کے سب سے غریب مگر سب سے زیادہ سیاسی شعور رکھنے والے صوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر ایک ہی نام بار بار چمک رہا تھا: نریندر مودی۔ ابھی نتائج کا اعلان نہیں ہوا تھا، مگر ایگزٹ پولز چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ مودی ایک بار پھر جیت گیا ہے۔ میں نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور خود سے سوال کیا: "کیا یہ وہی شخص نہیں جسے ہم برسوں سے ناکام، جنگ پسند اور اسلام دشمن کہہ کر رد کرتے آئے ہیں؟" جی ہاں، وہی مودی، جس کے دور میں مسلمانوں پر مظالم ہوئے، جس کے زمانے میں ہمسایوں سے تعلقات بگڑے، جنگ ہوئی اور عبرت ناک شکست ہوئی، جس کی معیشت کو بحرانوں نے گھیر لیا اور جس کی خارجہ پالیسی کو خود بھارتی ماہرین نے بھی بارہا ناکام قرار دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ واقعی ناکام ہے تو پھر بار بار جیتتا کیوں ہے؟ کیا صرف پروپیگنڈا اس کا سہارا ہے؟ یا اس شخص میں واقعی کوئی ایسی صلاحیت ہے جس نے اسے ایک دہائی سے زیادہ وقت تک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیراعظم بنا رکھا ہے؟
مودی کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ بیانیہ بنانا جانتا ہے۔ وہ عوام کے ذہنوں سے کھیلنا جانتا ہے۔ وہ اپنی ناکامیوں کو بھی فخر کے ساتھ کامیابی کے غلاف میں لپیٹ دیتا ہے۔ مہنگائی بڑھ جائے تو وہ اسے "قربانی برائے مادرِ وطن" کا رنگ دے دیتا ہے، بے روزگاری بڑھے تو "نوجوانوں کے نئے چیلنجز" کا نعرہ لگا دیتا ہے، عالمی سطح پر دباؤ آئے تو "خود انحصاری" کا فلسفہ پیش کر دیتا ہے۔ عوام کو حقیقت نہیں، احساس چاہیے ہوتا ہے اور مودی احساس بیچنا جانتا ہے۔ وہ لوگوں کو یہ احساس دیتا ہے کہ وہ ان میں سے ایک ہے۔ چائے والے کا بیٹا، عام ہندوستانی، جو کسی بڑی فیملی یا انگریزی یونیورسٹی کا پیداوار نہیں۔ یہی احساس کروڑوں غریب اور متوسط طبقے کے دلوں میں اتر گیا۔ وہ سمجھنے لگے کہ ان کا لیڈر ان جیسا ہے، ان کی زبان بولتا ہے، ان کے دکھ جانتا ہے۔ یہ ایک طاقتور بیانیہ ہے جسے ہم پاکستان میں کبھی سمجھ ہی نہیں سکے۔
اب ذرا موازنہ کیجیے۔ بہار، جس کی آبادی 13 کروڑ ہے، بھارت کی پارلیمنٹ کے لوئر ہاؤس میں صرف 40 نشستیں رکھتا ہے۔ یعنی تقریباً 32 لاکھ افراد فی نشست۔ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ ہے مگر قومی اسمبلی میں 336 ہیں۔ اگر بہار کے حساب سے دیکھا جائے تو پاکستان میں یہ سیٹیں زیادہ سے زیادہ 60 ہونی چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک غریب ملک اتنے نمائندوں کا بوجھ کیسے اٹھا سکتا ہے؟ کیا یہ نمائندے واقعی عوام کی خدمت کر رہے ہیں؟ یا یہ صرف مراعات، پروٹوکول، پلاٹوں اور عہدوں کے طلب گار ہیں؟ ہماری اسمبلیاں ایک منڈی بن چکی ہیں جہاں نظریے نہیں، مفادات بولتے ہیں۔ وہاں بحث نہیں، شور ہوتا ہے۔ دلیل نہیں، الزام چلتا ہے۔ بجٹ سیشن ہوں یا قومی سلامتی کے معاملات، اکثر ارکان کو ان کے مضامین کا بھی علم نہیں ہوتا۔ وہ صرف اپنے حلقے کے ٹھیکوں اور ترقیاتی فنڈز کے گرد گھومتے ہیں اور سوائے پنجاب کے ترقی کا کہیں نام و نشان نہیں۔ لیکن پنجاب میں بھی ترقی کچھ لمیٹڈ ہے۔ اگرچہ اب کی بار لاہور اور مضافات لمیٹڈ نہیں ہے۔ لیکن آج بھی اٹک، تلہ گنگ، میانوالی، بھکر، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان جیسے اضلاع ترقی سے محروم ہیں۔ آج کراچی کو منجو داڑو سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا سیاسی ہجوم ہے جو قوم کی تعمیر نہیں، اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔
مودی چاہے جس حربے سے بھی کام لیتا ہو، مگر ایک بات طے ہے کہ وہ اپنا نظام چلانا جانتا ہے۔ وہ منصوبہ بناتا ہے، اسے عوامی مہم میں بدلتا ہے اور پوری ریاستی مشینری کو اس کے پیچھے لگا دیتا ہے۔ چاہے وہ "سوچھ(صاف)بھارت" ہو، "ڈیجیٹل انڈیا" ہو یا "میک ان انڈیا"، وہ ہر نعرے کو مہم میں بدل دیتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں منصوبے صرف افتتاح تک زندہ رہتے ہیں۔ تختی لگتی ہے، فیتہ کٹتا ہے، تصویریں بنتی ہیں، میڈیا آتا ہے اور اگلے دن وہ منصوبہ فائلوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ ہماری سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ہم منصوبہ نہیں، موقع دیکھتے ہیں۔ مودی نے بارہ سال سے اپنا بیانیہ بدلا نہیں۔ وہ اپنی راہ پر قائم ہے، چاہے وہ راہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ تسلسل ایک کامیاب قیادت کی علامت ہے اور یہی تسلسل عوام کے دل میں یقین پیدا کرتا ہے۔ مودی نے اپنے عوام کو یہ یقین دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کھڑا ہے، کمزور نہیں پڑتا، جھکتا نہیں۔ یہی تاثر اسے بار بار اقتدار دلاتا ہے۔
پاکستان میں ہماری سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ ہم نے اپنی قوم کو کوئی واضح سمت نہیں دی۔ ہر حکومت کے ساتھ نیا راستہ نکالتے ہیں، پچھلے سب کام مٹا دیتے ہیں، نئی ترجیحات سامنے آ جاتی ہیں، پرانی فائلیں بند کر دی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ قوم ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے جاتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تسلسل، وژن اور قومی ہم آہنگی ضروری ہوتی ہے، مگر ہم نے ان تینوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ہمارے لیڈر اقتدار کے لیے لڑتے ہیں، ادارے اختیار کے لیے اور عوام مہنگائی کے خلاف چیختے رہتے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں سوچتا کہ کب ہم اس دائرے سے کب نکلیں گے؟
بہار کا الیکشن محض بھارت کی ایک صوبائی سیاست نہیں، یہ ہمارے لیے ایک آئینہ ہے۔ اس آئینے میں ہمیں اپنی کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ قیادت کی کمی، نظم کا فقدان اور نیت کا بحران۔ مودی سے اختلاف اپنی جگہ، لیکن اس نے اپنے لوگوں کو وہ یقین دیا ہے جو کسی قوم کی بنیاد بنتا ہے۔ ہم خواب نہیں دکھاتے، ہم صرف خوف دکھاتے ہیں۔ ہماری سیاست کا مرکز ہمیشہ دشمن رہا ہے، منزل کبھی نہیں۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم دشمن کی کامیابی سے سبق سیکھیں۔ اگر بہار جیسی غریب ریاست بھی اپنی قیادت پر بھروسہ کر سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں؟ ہمیں اپنی اسمبلی ممبران کی تعداد نہیں، ان کی کارکردگی بڑھانی ہوگی۔ ہمیں شور نہیں، شعور پیدا کرنا ہوگا۔ کیونکہ مودی جیت گیا ہے یا نہیں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کب جیتیں گے؟

