Major Adnan Aslam Shaheed, Watan Ka Amar Sipahi
میجر عدنان اسلم شہید، وطن کا امر سپاہی

وقت کی گرد میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو محض تاریخ کے اوراق میں درج نہیں رہتے بلکہ دلوں پر کندہ ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ نام ہیں جنہیں نہ وقت کی گرد مٹا سکتی ہے، نہ واقعات کی بھیڑ دھندلا سکتی ہے۔ میجر عدنان اسلم انہی جاویداں ناموں میں سے ایک ہیں۔ دو ستمبر کو خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک فوجی مرکز پر حملے کے دوران وہ جامِ شہادت نوش کر گئے اور یوں پاکستان کی مٹی کو اپنے خون سے سینچتے ہوئے امر ہو گئے۔ ان کے جنازے میں وزیرِ اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی اس بات کی گواہ تھی کہ قوم اپنے شہید بیٹے کو نہ صرف پہچانتی ہے بلکہ اس پر فخر بھی کرتی ہے۔
میجر عدنان کی کہانی ایک عام بچے سے ایک غیرمعمولی فوجی افسر بننے کی ہے۔ وہ 20 جولائی 1994 کو راولپنڈی کی مٹی میں آنکھ کھولتے ہیں۔ یہ شہر خود پاکستان فوج کی ایک بڑی پہچان ہے اور شاید اسی لیے اس مٹی کے ایک بیٹے نے وطن کی حفاظت کے لیے اپنے خون کی قربانی پیش کی۔ بچپن سے ہی ان کے اندر جستجو، حوصلہ اور جرات کے بیج موجود تھے۔ یہی بیج آگے چل کر ان کی شخصیت کو اس نہج پر لے آئے کہ وہ رائل ملٹری اکیڈمی سینڈرسٹ جیسے عالمی شہرت یافتہ ادارے سے فارغ التحصیل ہوئے۔ یہ اعزاز ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس ادارے سے نکلنے والے افسران دنیا بھر کی افواج کے لیے ایک مثال سمجھے جاتے ہیں۔
ایڈونچر اور بہادری ان کے خمیر میں شامل تھی۔ ان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ وہ مشکل سے مشکل مشن کو نہ صرف قبول کرتے بلکہ دلیرانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس پر روانہ ہوتے۔ سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) میں ان کا انتخاب محض قسمت نہیں بلکہ ان کی غیرمعمولی صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔ ایس ایس جی وہ مقام ہے جہاں صرف بہترین دماغ اور مضبوط ترین جسم والے ہی جگہ پاتے ہیں۔ وہاں پہنچنے والا ہر افسر غیر معمولی تربیت، غیر متزلزل ارادے اور فولادی حوصلے کا پیکر ہوتا ہے۔ عدنان نے یہ سب خصوصیات اپنے کردار اور کارکردگی سے ثابت کیں۔
زندگی کے لمحے کس طرح رکتے ہیں، یہ شہید کی کہانی میں جابجا محسوس ہوتا ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک دن جو جوان اپنے دستوں کے ساتھ قہقہے لگا رہا ہے، اگلے دن اسی کا جنازہ سب کے کندھوں پر ہوگا۔ مگر یہی تو شہادت ہے کہ یہ لمحے انسان کو فانی سے لافانی کی طرف لے جاتے ہیں۔ عدنان اسلم نے اپنی جان دی مگر بدلے میں وہ امر ہو گئے۔ ان کے والدین کے لیے یہ کتنا بڑا صدمہ ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ایک ماں کے لیے سب سے قیمتی خزانہ اس کا بیٹا ہوتا ہے، لیکن جب وہ بیٹا وطن کے لیے قربان ہوتا ہے تو وہی ماں اپنے آنسوؤں کے ساتھ فخر بھی کرتی ہے۔ یقیناً عدنان کی والدہ بھی آج اسی فخر اور دکھ کے امتزاج کے ساتھ دنیا کو دیکھ رہی ہوں گی۔
ان کے ساتھی فوجی بھی آج ان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو آنکھوں میں نمی اور دل میں حرارت لیے۔ وہ بتاتے ہیں کہ عدنان ہمیشہ دوسروں کو آگے بڑھانے، حوصلہ دینے اور مشکل میں ہمت بندھانے والے تھے۔ کسی مشن میں جہاں دوسروں کو خطرہ زیادہ محسوس ہوتا، وہاں وہ خود سب سے پہلے بڑھتے۔ یہ جذبہ انہیں دوسروں سے منفرد بناتا تھا۔ ان کے دوست انہیں ایڈونچر پسند، کہتے، مگر دراصل وہ محض ایڈونچر نہیں بلکہ خدمت اور قربانی کے جذبے کے ساتھ جیتے تھے۔
ان کی نمازِ جنازہ کے مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔ سبز ہلالی پرچم میں لپٹی ان کی میت، فوجی دستوں کا سلام، ساتھیوں کی آنکھوں سے بہتے آنسو اور وزیراعظم و آرمی چیف کی موجودگی۔ یہ سب اس بات کی علامت تھا کہ یہ قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ یہ وہ منظر تھا جو دشمن کو بھی پیغام دے رہا تھا کہ ایک عدنان شہید ہوتا ہے تو ہزار عدنان تیار کھڑے ہیں۔ یہ سرزمین کبھی بھی بہادروں سے خالی نہیں ہوگی۔
شہادت صرف موت نہیں بلکہ زندگی کا نیا آغاز ہے۔ قرآن مجید گواہی دیتا ہے کہ شہید زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے، وہ اللہ کے ہاں سرخرو ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدنان اسلم کا نام آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ جب بھی تاریخ پاکستان کے بہادروں کو یاد کرے گی تو اس نوجوان کا ذکر ضرور ہوگا جس نے دشمن کے سامنے جھکنے کے بجائے ڈٹ کر لڑنا پسند کیا اور اپنے خون سے وطن کی سرحدوں کی آبیاری کی۔
شہید کی زندگی ہم سب کے لیے سبق ہے۔ ہم جو عام زندگی میں اپنی سہولتوں، خواہشوں اور ذاتی آرام میں کھوئے رہتے ہیں، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہماری نیندوں کے پیچھے، ہمارے سکون کے پیچھے، ہمارے محفوظ گھروں کے پیچھے کوئی عدنان اسلم اپنی جان ہتھیلی پر رکھے کھڑا ہے۔ وہ اپنے بچوں سے دور، اپنی ماں کے لمس سے دور، اپنے والد کی دعاؤں سے دور، صرف اس لیے کہ ہم سب محفوظ رہ سکیں۔ یہ قربانی لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔
قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات اور ایسے لوگ ہمیشہ کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔ میجر عدنان اسلم کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وطن کا تحفظ سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہ قربانی ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ ہم بھی اپنی زندگیوں میں کچھ ایسا کر جائیں جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔ ہر کوئی میدان جنگ میں نہیں جا سکتا، لیکن ہر شخص اپنے حصے کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر وطن، معاشرے اور انسانیت کے لیے سوچیں تو یہی اصل کامیابی ہے۔
میجر عدنان کی شہادت ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، وہ ایک قوم کو ہرا نہیں سکتا جس کے بیٹے ہنستے مسکراتے اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی جذبہ پاکستان کی اصل طاقت ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو ہمیں بار بار مشکلات سے نکال لاتی ہے۔
آج جب ہم عدنان اسلم شہید کا ذکر کرتے ہیں تو یہ محض ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ پوری قوم کی کہانی ہے۔ یہ اس قوم کا قصہ ہے جو ہر بار زخم کھانے کے باوجود پھر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ اس سرزمین کا قصہ ہے جو ہر قطرۂ خون سے اور زیادہ سرسبز ہو جاتی ہے۔ یہ اس فوج کا قصہ ہے جو دنیا کی بہترین فوج ہے کیونکہ اس کے جوان محض پیشہ ور سپاہی نہیں بلکہ ایمان، قربانی اور محبت وطن کے پیکر ہیں۔
میجر عدنان اسلم شہید ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کا نام ہمارے نصاب میں شاید آج نہ ہو، لیکن ہماری دعاؤں میں، ہماری دعائیہ مجالس میں، ہمارے بچوں کی لوریوں میں اور ہماری قومی یادداشت میں ہمیشہ رہے گا۔ جب بھی کوئی بچہ یہ سوال کرے گا کہ یہ وطن کیوں محفوظ ہے، تو کوئی ماں آنسو بھری آنکھوں سے عدنان اسلم جیسے شہید کا ذکر کرے گی۔ جب بھی کوئی جوان مشکل وقت میں ہمت ہارنے لگے گا، تو اسے عدنان کی جرات یاد دلائی جائے گی۔ یہ وہ زندگی ہے جو موت سے ماورا ہے۔
آخر میں یہ بات سب پر آشکار ہے کہ میجر عدنان اسلم نے وطن کے لیے جان دی لیکن اس کے بدلے میں وہ لافانی ہو گئے۔ وہ وقت جس دن دو ستمبر کو رکا، دراصل ان کی حیات کا آغاز تھا۔ ان کی مسکراہٹ، ان کی بہادری اور ان کی قربانی ہمیشہ تاریخ پاکستان کے ساتھ سانس لیتی رہے گی۔ قوم کے بیٹے اسی طرح زندہ رہتے ہیں، جو اپنے خون سے وطن کے پرچم کو سرخرو کرتے ہیں۔ عدنان اسلم شہید نے یہ کر دکھایا اور وہ ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں امر ہو گئے۔

