Lala Amarnath Aur Rana Tawakkal Majeed
لالا امر ناتھ اور رانا توکل مجید

کبھی کبھی تاریخ کی دھندلی گلیوں میں سے ایسی کہانیاں جھانک لیتی ہیں جو محض ماضی کا حصہ نہیں ہوتیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے چراغ راہ بن جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی ہے لالا امرناتھ کی، انڈیا کے پہلے کرکٹ سپر اسٹار کی، جو لاہور کی گلیوں سے اٹھے، عام گھروں میں کھیلتے کھیلتے شہزادوں کے ساتھ چلنے لگے اور بالآخر ایک ایسا مقام پایا کہ ان کا نام تاریخ کے سنہرے اوراق پر کندہ ہوگیا۔ لیکن یہ سفر محض ایک کرکٹر کی محنت کی بدولت نہیں تھا، اس میں وہ بڑے دلوں والے لوگ شامل تھے جنہوں نے مذہب، ذات اور برادری سے اوپر اٹھ کر ٹیلنٹ کو پہچانا، اسے سہارا دیا، گھر دیا، تربیت دی اور انسانیت کا ایسا سبق پڑھایا جو آج ڈھونڈنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔
یہ لاہور کا وہ زمانہ تھا جب برصغیر ابھی تقسیم کے زخموں سے دوچار نہیں ہوا تھا، جب منٹو پارک میں کرکٹ کے چرچے تھے اور شہر کی فصیل کے اندر تیرہ دروازوں میں زندگی دھڑکتی تھی۔ انہی گلیوں میں رانا توکل مجید کا گھر تھا، جو خود وکٹ کیپر بیٹسمین اور لاہور کے مشہور کریسنٹ کلب کی جان سمجھے جاتے تھے۔ ان کے گھر کی بیٹھک کرکٹ کا مرکز تھی اور وہ ہر اس لڑکے کے لیے کھلی تھی جس کے اندر کھیل کا شوق اور قابلیت موجود تھی۔ اسی گھر کے دروازے پر ایک دن قسمت نے لالا امرناتھ کو لا کھڑا کیا۔ وہ لڑکا جس کے والد شمشان گھاٹ پر مردے جلاتے تھے اور جو خود ایک باٹلنگ کمپنی میں مزدوری کرتا تھا، اس کے بیٹ پر جب پہلی بار گیند لگی تو دیکھنے والوں نے کہا جیسے گھڑی کا پینڈولم چل رہا ہو، ویسا ہی ٹھہرا ہوا، خوبصورت اور بے داغ کور شاٹ تھا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب رانا توکل مجید نے پہچان لیا کہ یہ لڑکا عام نہیں۔ انہوں نے اسے اپنے گھر میں جگہ دی، اپنے بچوں کے ساتھ بٹھایا، اس کے لیے انگریزی کے استاد کا انتظام کیا اور کرکٹ کی تربیت دی۔ یہ وہ وقت تھا جب کسی نے اس کے باپ کے پیشے یا اس کے مذہب کو دیکھ کر تعصب نہ برتا بلکہ صرف ٹیلنٹ کو پہچانا۔ کیا لوگ تھے وہ، کیا بڑے دل تھے کہ گلی میں ٹیلنٹ دیکھا تو اسے اپنے گھر کا فرد بنا لیا۔ یہی کشادہ دلی تھی جو معاشروں کو بڑا بناتی ہے، یہی وہ ظرف تھا جو آج کم ہوتا جا رہا ہے۔
لالا امرناتھ نے کریسنٹ کلب کی نمائندگی کی، وہی کلب جو متوسط طبقے کی شناخت تھا اور جس کا حریف ممدوٹ کلب تھا جس میں امرا کے بیٹے اور جہانگیر خان جیسے کھلاڑی شامل تھے۔ اس زمانے کی کرکٹ محض کھیل نہ تھی، یہ عزت اور وقار کا معاملہ بھی تھی۔ امرناتھ نے اپنی جاندار بیٹنگ اور جارحانہ بولنگ سے لاہور کی کرکٹ پر ایسا غلبہ پایا کہ مخالف کلب ان سے خائف رہتے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ایک فائنل سے پہلے سازش ہوئی کہ امرناتھ کو زخمی کر دیا جائے تاکہ وہ کھیل نہ سکیں، تو ان کے ساتھی کھلاڑیوں نے انہیں اپنے جسموں سے ڈھانپ لیا اور یوں وہ محفوظ رہے۔ اگلے دن انہوں نے میدان میں اتر کر پچاس رنز کی شاندار اننگ کھیلی اور اپنی ٹیم کو جتوایا۔ یہ صرف کرکٹ نہیں تھی، یہ بھائی چارے اور ایثار کا منظر تھا، یہ وہ جذبہ تھا جو مذہب اور قومیت سے بالاتر ہو کر انسان کو انسان سمجھنے کی روایت تھا۔
لالا امرناتھ کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وہ بچپن میں جب کرکٹ کھیلنے نکلے تو اپنے محلے کے لڑکوں کو ساتھ لیا، لکڑی کا سستا سا بیٹ بنایا اور اپنا بیٹ ہونے وجہ سے بیٹنگ ہمیشہ انہیں ہی ملتی۔ جلد ہی وہ بڑے کلبوں میں پہنچ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انڈیا کی ٹیسٹ ٹیم تک جا پہنچے۔ 1933 میں اپنے پہلے ہی میچ میں انگلینڈ کے خلاف سنچری بنا کر وہ ہیرو بنے۔ ان کے جارحانہ انداز نے تماشائیوں کو دیوانہ کر دیا، خواتین نے زیورات نچھاور کیے اور مہاراجاؤں نے انعامات دیے۔ لیکن وہ دل کے سیدھے اور زبان کے کھرے آدمی تھے، نظم و ضبط کے سخت ڈھانچوں میں بندھنے والے نہیں تھے۔ اسی لیے 1936 کے دورۂ انگلینڈ میں کپتان ویزی کے ساتھ اختلاف پر انہیں ٹیم سے نکال دیا گیا اور بارہ سال تک ٹیسٹ کرکٹ سے باہر رکھا گیا۔ مگر قسمت نے انہیں پھر موقع دیا، وہ کپتان بھی بنے اور کوچ بھی اور ان کے دونوں بیٹے سرندر اور مہندر امرناتھ بھی قومی ٹیم تک پہنچے۔
لیکن شاید امرناتھ کی اصل عظمت ان کی کرکٹ سے زیادہ ان کے رویے میں تھی۔ وہ اپنے ماضی کو نہیں بھولے۔ جب 1978 میں خیرسگالی سیریز کے دوران پاکستان آئے تو سیدھے رانا خاندان کے گھر گئے، جہاں کبھی ان کے خوابوں کو پر لگے تھے۔ دہلیز پر جھک کر ماتھا ٹیکا اور اپنے بیٹوں کو بھی کہا کہ یہیں جھکو، کیونکہ اگر یہ گھر نہ ہوتا تو تم آج بھی گلیوں میں کھیل رہے ہوتے۔ یہ منظر اس بات کا اعلان تھا کہ عظیم انسان اپنی جڑوں کو کبھی نہیں بھولتے، وہی انہیں بڑا بناتی ہیں۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں بعض ہندوؤں نے مسلمانوں کی وسعتِ ظرف اور کشادہ دلی کو تعصب کا نام دیا۔ دراصل یہ رویہ ان کے دل کی تنگی اور محدود سوچ کا عکاس ہے۔ ایسے ہی طرزِ فکرنے ہندو سماج کے ایک بڑے حصے کو چھوٹے پن اور تنگ نظری کی شہرت دی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سب ہندو ایسے نہیں تھے۔ ہر دور میں کچھ ایسے بڑے دل رکھنے والے ہندو بھی موجود رہے جنہوں نے انصاف، محبت اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔
مسلمانوں کی روایت ہمیشہ کشادہ دلی کی رہی ہے۔ وہ تعصب کے تنگ دائرے میں قید نہیں ہوتے۔ اسی کشادہ دلی کی ایک مثال لالا امرناتھ ہیں۔ جنہیں مقامی لاہوری مسلمانوں نے اپنے گھر اپنے بچوں کے ساتھ رکھ کر پالا پوسا اور تربیت کی۔
بھارت میں انہیں ایک ہندو ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی محنت و صلاحیت اور کچھ بااثر مقامی ہندوؤں کی مدد سے مقام بنایا، لیکن پاکستان میں انہیں لاہوری کرکٹ کی اس روشن روایت کا حصہ سمجھا جاتا ہے جو رانا خاندان جیسے کشادہ دل مسلمانوں نے پروان چڑھائی۔ وہ روایت جس میں مذہب یا نسل نہیں، بلکہ ٹیلنٹ اور انسانیت کو پہچاننے کا حوصلہ موجود تھا۔
یوں یہ فرق نمایاں ہو جاتا ہے کہ جہاں ایک طرف تنگ نظری اور کم ظرفی تھی، وہیں دوسری طرف بڑے دل رکھنے والے لوگ بھی موجود تھے جو دوسروں کے لیے دروازے کھلے رکھتے تھے۔ مسلمان معاشرہ بالعموم اسی وسعتِ قلبی کا آئینہ دار رہا ہے۔
آج جب ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو دل سوال کرتا ہے کہ کہاں گئے وہ بڑے لوگ؟ کہاں گئی وہ کشادہ دلی؟ کہاں گئے وہ لوگ جو مذہب، ذات، پیشے یا حیثیت کو دیکھنے کی بجائے انسان کو انسان سمجھتے تھے اور ٹیلنٹ کو اس کے مقام تک پہنچاتے تھے؟ شاید وہ اب بھی ہیں مگر کم ہو گئے ہیں، ضرور کم ہو گئے ہیں۔ دل چھوٹے ہو گئے ہیں، تعصب بڑھ گیا ہے اور وہ کشادہ دلی جو کسی عام لڑکے کو اٹھا کر شہزادوں کی صف میں کھڑا کر دیتی تھی، وہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔
لالا امرناتھ کی کہانی صرف ایک کرکٹر کی داستان نہیں، یہ اس زمانے کے بڑے لوگوں کے بڑے دلوں کا آئینہ ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ جب ظرف بڑا ہو تو عام سا لڑکا بھی دنیا کی تاریخ میں اپنی پہچان بنا لیتا ہے۔ وہ لڑکا واقعی لاہور کی گلیوں سے اٹھا اور شہزادوں کے ساتھ چلنے لگا، لیکن اپنے اندر کی سادگی اور انسانیت کو کبھی نہ چھوڑا۔ یہی وہ سبق ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے سب سے قیمتی ہے۔

