Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Kya Pakistan Phir Aalmi Markaz Ban Sakta Hai?

Kya Pakistan Phir Aalmi Markaz Ban Sakta Hai?

کیا پاکستان پھر سے علمی مرکز بن سکتا ہے؟

یہ سوال سنتے ہی دل میں ایک لہر سی اٹھتی ہے، جیسے کسی سوئے ہوئے شہر میں اچانک اذان کی آواز گونج جائے۔ کیا پاکستان پھر سے علمی مرکز بن سکتا ہے؟ اس سوال میں خواب بھی ہے، خلش بھی ہے اور امکان بھی۔ اس کے پیچھے ایک ایسی تڑپ ہے جو صرف اُن قوموں کو نصیب ہوتی ہے جو جانتی ہیں کہ وہ کتنی عظمت کھو چکی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کھوئی ہوئی عظمت پھر سے حاصل کی جا سکتی ہے؟ کیا علم، فکر، دانش اور تحقیق میں وہی بلندیاں دوبارہ ممکن ہیں جو کبھی ٹیکسلا، بغداد، قاہرہ یا غرناطہ کی فضاؤں میں گونجتی تھیں؟ پاکستان کے تناظر میں اگر ہم یہ سوال اٹھائیں، تو یہ محض خیالی بات نہیں، بلکہ ایک ایسی فکری جدوجہد کا آغاز ہے جو ہماری آئندہ نسلوں کا مقدر بدل سکتی ہے۔

پاکستان کی بنیاد صرف جغرافیہ پر نہیں رکھی گئی تھی، اس کے پیچھے ایک نظریہ تھا اور نظریات ہمیشہ علم کی روشنی سے پروان چڑھتے ہیں۔ بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد ہم نے عمارتیں تو بنائیں، ادارے بھی کھڑے کیے، لیکن روح میں علم کی وہ آگ نہ جلائی جو قوموں کو زندہ رکھتی ہے۔ ہم نے علم کو روزگار کا ذریعہ تو سمجھا، مگر انسان سازی، سماج سازی اور تمدن کے احیاء کا وسیلہ نہ بنایا۔ ہم نے ڈگریوں کی فیکٹریاں تو لگا لیں، مگر فکری بالغ نظری، تنقیدی شعور اور تحقیق کے جذبے سے خالی معاشرہ تشکیل دیا۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ بھی ممکن نہیں۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پاس سب کچھ موجود ہے۔ یہاں ذہین دماغ، تجسس سے بھرے دل اور نئی دنیا دریافت کرنے کی تڑپ رکھنے والے نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں۔ اس قوم کے بچے گلیوں میں گیند نہیں، خواب اچھالتے ہیں۔ وہ چپ چاپ کتابیں نہیں رٹتے، سوال کرتے ہیں، سوچتے ہیں، خیالوں کی دنیا میں اُڑتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ انہیں پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ اُن کی اُڑان کو نصاب، ماحول اور نظام کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ وہ جو کچھ بن سکتے تھے، وہ انہیں بننے ہی نہیں دیا گیا۔

اگر پاکستان کو علمی مرکز بنانا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنے نظام تعلیم کو بدلنا ہوگا اور یہ تبدیلی محض نصاب میں ابواب کے رد و بدل سے ممکن نہیں، بلکہ ایک فکری انقلاب سے مشروط ہے۔ ہمیں بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ علم صرف رٹنے کا نام نہیں، بلکہ دریافت کرنے کا عمل ہے۔ ہمیں انہیں یہ بتانا ہوگا کہ سوال کرنا بغاوت نہیں، شعور کا پہلا زینہ ہے۔ ہمیں کتاب کو سزا کی علامت سے نکال کر، شوق کی علامت بنانا ہوگا۔ جب تک ہم بچوں کے اندر تجسس، حیرت اور تنقید کے بیج نہیں بوئیں گے، ہم ایک "علمی قوم" نہیں بن سکتے، صرف "تعلیمی ڈگری رکھنے والا ہجوم" بنے رہیں گے۔

پھر اس خواب کی تعبیر کا ایک اور ستون ہے، اساتذہ۔ ایک ملک کے معمار اگر اساتذہ نہیں تو پھر زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ آج ہمارے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں کتنے ایسے استاد ہیں جو صرف نصاب نہیں پڑھاتے، بلکہ شاگرد کے اندر چھپے ہوئے سوالوں کو جگاتے ہیں؟ کتنے ایسے استاد ہیں جو نوکری نہیں، ایک نظریہ بن کر کلاس میں جاتے ہیں؟ جب تک ہم تدریس کو ایک مقدس ذمہ داری نہیں سمجھیں گے، تب تک ہماری درسگاہیں کبھی وہ مراکز نہیں بن سکتیں جہاں سے قوموں کے مستقبل نکلتے ہیں۔

علمی مرکز بننے کے لیے ہمیں صرف سائنس، ٹیکنالوجی اور اکنامکس ہی نہیں، بلکہ انسانی علوم کو بھی اہمیت دینی ہوگی۔ ہمیں ادب، فلسفہ، تاریخ اور تہذیب کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا۔ جب تک ہماری درسگاہیں انسان کو صرف ایک "مشین" بنانے پر زور دیں گی، ہم کبھی "فکر" پیدا نہیں کر سکیں گے اور فکرکے بغیر قومیں صرف ہجوم ہوتی ہیں۔ وہ سوچنے کا ہنر کھو دیتی ہیں اور جب سوچنے کا ہنر مٹ جائے، تو صرف نقل باقی رہتی ہے، اصل ختم ہو جاتی ہے۔

پاکستان کا اصل جوہر صرف اس کے ایٹمی ہتھیار، فوجی طاقت، یا جغرافیائی محل وقوع میں نہیں، بلکہ اُس فکری ورثے میں ہے جو ہم نے بدقسمتی سے پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جو قومیں صرف طاقت سے چلتی ہیں، وہ لمحاتی غلبہ تو حاصل کر لیتی ہیں، مگر پائیدار عظمت انہیں صرف علم سے ملتی ہے۔ اگر آج مغرب دنیا پر غالب ہے، تو اس کی اصل بنیاد اس کا تعلیمی نظام، اس کی تحقیق اور اس کا فکری تنوع ہے، وہی جو ہم کبھی اپنے ہاں رکھتے تھے، مگر پھر کھو بیٹھے۔

پاکستان کو علمی مرکز بنانے کا خواب اُس دن سے ممکن ہے جس دن ہم اپنے اسکول کے بچوں کو یہ باور کرا دیں کہ وہ محض امتحان کے نمبر لینے کے لیے نہیں، بلکہ دنیا کو بدلنے کے لیے علم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ دن جس دن ہم اپنے اساتذہ کو یہ اعتماد دیں کہ وہ صرف تنخواہ کے غلام نہیں، بلکہ قوم کے معمار ہیں۔ وہ دن جس دن ہم اپنے تعلیمی اداروں کو سیاست، کرپشن اور مفاد پرستی سے پاک کرکے انہیں تحقیق، تجربہ اور فکری وسعت کا گہوارہ بنا دیں اور سب سے بڑھ کر، وہ دن جب ہم خود، والدین، صحافی، ادیب، علماء اور رہنما، علم کو سب سے بڑی عبادت اور سب سے اہم اثاثہ سمجھنا شروع کر دیں۔

اگر ہم نے ایسا کر لیا، تو یقین جانئے، پاکستان دوبارہ علمی مرکز بن سکتا ہے۔ وہ لائبریریاں جو آج ویران ہیں، پھر سے آباد ہوں گی۔ وہ دماغ جو آج روزمرّگی میں جکڑے ہوئے ہیں، پھر سے چمکنے لگیں گے۔ وہ نوجوان جو آج راستہ تلاش کر رہے ہیں، کل دنیا کو راستہ دکھائیں گے۔ ٹیکسلا کی گونج پھر سے سنائی دے گی۔ موئنجوداڑو کی خاک پھر سے تمدن کا بیج بنے گی اور ہم، آپ اور میں، پھر سے فخر سے کہہ سکیں گے:

"ہم ایک علمی قوم کے وارث ہیں اور ہم نے وہ ورثہ دوبارہ زندہ کر دیا ہے"۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali