Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Kitni Khubsurat Hum Khata Karte Hain

Kitni Khubsurat Hum Khata Karte Hain

کتنی خوبصورت ہم خطا کرتے ہیں

زندگی کے صحرا میں انسان اکثر اپنی معصومیت، اپنی نادانی اور اپنی نرمی کے ساتھ ایسے فیصلے کرتا ہے جو بظاہر اس کے اپنے خلاف جاتے ہیں۔ مگر کمال یہ ہے کہ یہی فیصلے بعد میں اس کی اصل پہچان بنتے ہیں۔ ہم انسان عجیب مخلوق ہیں، اپنے دل کے بہلاوے کے لیے، اپنی روح کے سکون کے لیے اور اپنی اندرونی محبت کو جواز دینے کے لیے ایسے قدم اٹھا لیتے ہیں جنہیں دنیا "خطا" کہتی ہے۔ لیکن ہمیں ان خطاؤں پر شرمندگی نہیں ہوتی بلکہ ان پر ایک عجیب سا فخر محسوس ہوتا ہے کیونکہ یہ خطائیں ہماری انسانیت کی علامت ہوتی ہیں۔ "کتنی خوبصورت ہم خطا کرتے ہیں، پتھروں سے بھی وفا کرتے ہیں" یہ مصرعہ انسان کی اسی لطافت، اسی مجبوری اور اسی جلالت کو ظاہر کرتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ پتھر دل کبھی موم نہیں ہوتے، پتھر کبھی جواب نہیں دیتے، پتھر کبھی محبت کے لمس کو محسوس نہیں کرتے۔ پھر بھی ہم ان پتھروں سے مانگتے ہیں، ان سے باتیں کرتے ہیں، ان سے شکوے کرتے ہیں، ان پر اشک بہاتے ہیں اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ وہی کیفیت ہے جو ایک ماں کے آنسوؤں میں، ایک عاشق کی دعاؤں میں، ایک دوست کے انتظار میں اور ایک بے بس انسان کی خاموشی میں چھپی ہوتی ہے۔ پتھر چاہے خدا کے گھر کی دیوار ہوں یا قبر کی سل، چاہے کسی محبوب کی بے حسی ہو یا معاشرے کی سنگ دلی، ہم پھر بھی ان کے ساتھ وفا کرتے ہیں۔ یہ وفا ہماری خطا بھی ہے اور ہماری عظمت بھی۔

انسان کے دل میں محبت کی پیاس اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنی ہی حقیقت کو بھلا دیتا ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ محبت ایک کمزوری بھی ہے اور طاقت بھی۔ جب ہم محبت کرتے ہیں تو سامنے والے کی حقیقت نہیں دیکھتے بلکہ اپنی نظر کی روشنی دیکھتے ہیں۔ یہ روشنی ہمیں اندھیرے میں بھی چلنے کا حوصلہ دیتی ہے، مگر جب روشنی بجھتی ہے تو ہم اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ اس اندھیرے میں بھی ہم اپنی خطاؤں پر افسوس نہیں کرتے، کیونکہ وہ خطائیں ہی تو ہیں جنہوں نے ہمیں جینے کی وجہ دی۔

پتھروں سے وفا کرنے کی سب سے بڑی مثال ہمارا معاشرہ ہے۔ یہاں لوگ اداروں کو، روایات کو اور کبھی کبھی ان افراد کو اپنا سہارا بناتے ہیں جو دراصل بے حس پتھروں کی مانند ہوتے ہیں۔ عوام ہر الیکشن میں ووٹ دیتے ہیں، وعدوں پر یقین کرتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں اور پھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ مگر پھر اگلے الیکشن میں دوبارہ اُسی پتھر سے وفا کر بیٹھتے ہیں۔ یہ خطا، یہ بھول، دراصل ان کی امید کی دلیل ہے۔ وہ امید جو مرتی نہیں، وہ یقین جو ٹوٹنے کے باوجود زندہ رہتا ہے۔ یہی انسانی فطرت ہے اور یہی اس کا کمال ہے۔

اگر ہم ذاتی زندگی میں جھانکیں تو دیکھیں گے کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جو محبت میں اپنی زندگیوں کو برباد کر بیٹھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سامنے والا ان کے احساسات کی قدر نہیں کرتا، وہ جانتے ہیں کہ ان کے خواب کبھی پورے نہیں ہوں گے، پھر بھی وہ محبت چھوڑ نہیں پاتے۔ وہ اس رشتے کو نبھاتے ہیں، اس بے وفائی کو برداشت کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو قربان کر دیتے ہیں۔ یہ قربانی دنیا کی نظر میں بے وقوفی ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک پاکیزہ وفا ہے، ایک ایسی خوبصورت خطا ہے جو انسان کو فرشتہ صفت بنا دیتی ہے۔

کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنی اولاد کے ہاتھوں دھوکا کھاتے ہیں مگر پھر بھی ان سے وفا کرتے ہیں۔ ماں باپ سب کچھ لٹا دیتے ہیں، خواب بناتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں۔ کبھی اولاد ناشکری کرتی ہے، کبھی انہیں نظرانداز کر دیتی ہے، کبھی ان کے خواب توڑ دیتی ہے۔ لیکن ماں باپ پھر بھی ان پتھروں سے وفا کرتے رہتے ہیں۔ وہ دعائیں دینا نہیں چھوڑتے، وہ پیار کرنا نہیں چھوڑتے، وہ قربان ہونا نہیں چھوڑتے۔ یہ وہ محبت ہے جو شاید سب سے حسین خطا ہے، کیونکہ یہ انسان کو عظمت کی انتہا پر لے جاتی ہے۔

اسی طرح دوستوں اور رشتہ داروں کی دنیا میں بھی ہم بارہا پتھروں سے وفا کرتے ہیں۔ کوئی ہمیں دھوکا دیتا ہے، کوئی وقت پر ساتھ نہیں دیتا، کوئی موقع پر ہمیں چھوڑ جاتا ہے۔ مگر ہم پھر بھی ان کے ساتھ نرمی اختیار کرتے ہیں، ہم انہیں دوسرا موقع دیتے ہیں، ہم اپنی امید کو مرنے نہیں دیتے۔ دنیا ہمیں کہتی ہے کہ یہ خطا ہے، مگر ہم اسے اپنی انسانیت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم وفا چھوڑ دیں تو ہم پتھر بن جائیں گے اور انسان کا اصل کمال یہی ہے کہ وہ پتھر بننے سے انکار کرتا ہے۔

مذہبی اور روحانی پہلو سے دیکھا جائے تو پتھروں سے وفا کی سب سے بڑی مثال خانہ کعبہ ہے۔ لاکھوں انسان اس سیاہ پتھر کو چومنے کے لیے ترستے ہیں۔ وہ پتھر جواب نہیں دیتا، وہ بات نہیں کرتا، مگر اس کے ساتھ وفا کرنے والوں کو سکون ملتا ہے۔ یہ وفا ہماری روحانی پیاس کو بجھاتی ہے، یہ ہماری خطا نہیں بلکہ ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح قبر کے پتھروں کے پاس جا کر ہم اپنے مرحومین کے لیے دعائیں کرتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے وہ ہمیں سن رہے ہیں۔ یہ بھی ایک خطا ہے مگر کتنی خوبصورت ہے یہ خطا کہ ہمیں سکون دیتی ہے، ہمیں امید دیتی ہے۔

اصل میں انسان کی زندگی محبت اور وفا کے گرد گھومتی ہے۔ اگر یہ دونوں نہ ہوں تو زندگی محض ایک مشین کی طرح ہے۔ ہم اپنی خطاؤں کے ذریعے اپنی روح کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہ خطائیں ہمیں معصوم رکھتی ہیں، ہمیں انسان بناتی ہیں۔ دنیا چاہے کچھ بھی کہے، حقیقت یہ ہے کہ محبت کیے بغیر، وفا کیے بغیر اور خواب دیکھے بغیر زندگی کا ذائقہ نہیں ملتا۔

جب ہم پتھروں سے وفا کرتے ہیں تو دراصل ہم اپنی ذات سے وفا کرتے ہیں۔ ہم اپنی اصل کو جھٹلانے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ چاہے سامنے کوئی جواب دے یا نہ دے، ہم اپنا فرض ادا کریں گے۔ ہم محبت بانٹیں گے، ہم دعا کریں گے، ہم قربانی دیں گے۔ یہی رویہ ہمیں دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔ دنیا کے حساب سے یہ خطا ہے، مگر ہماری روح کے حساب سے یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ہم کتنی خوبصورت خطا کرتے ہیں۔ واقعی، یہ خطا ہی تو ہے جس نے ہمیں محبت کرنا سکھایا، دعا مانگنا سکھایا، قربانی دینا سکھایا اور وفا کا مطلب سمجھایا۔ اگر یہ خطا نہ ہوتی تو شاید ہم سب واقعی پتھر بن گئے ہوتے۔ انسان کی اصل خوبی یہی ہے کہ وہ خطا کرنے کے باوجود محبت کو ترک نہیں کرتا۔

آخر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہم اپنی زندگی کی ان خطاؤں پر فخر کریں۔ چاہے وہ کسی بے حس انسان سے وفا کرنے کی صورت میں ہوں، کسی معاشرتی نظام پر بھروسہ کرنے کی صورت میں، یا کسی روحانی عقیدے کو تھامنے کی صورت میں۔ یہ خطائیں ہمیں مکمل کرتی ہیں، ہمیں خوبصورت بناتی ہیں اور ہماری اصل پہچان قائم رکھتی ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی ان "خوبصورت خطاؤں" کو نہ صرف تسلیم کرنا چاہیے بلکہ ان پر ناز کرنا چاہیے، کیونکہ یہی وہ سرمایہ ہے جو ہمیں انسانوں کی صف میں سب سے بلند کرتا ہے۔

کتنی خوبصورت ہم خطا کرتے ہیں
پتھروں سے بھی وفا کرتے ہیں

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail