Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Khuda Ko Dil Mein Wapis Laane Ki Jad o Jehad

Khuda Ko Dil Mein Wapis Laane Ki Jad o Jehad

خدا کو دل میں واپس لانے کی جدوجہد

میکسم گورکی کا ناول ماں محض ایک ادبی شاہکار نہیں بلکہ ایک اجتماعی شعور کی بیداری ہے۔ اس کے کردار صرف اپنی ذات کے قیدی نہیں بلکہ زمانے کی جکڑ بندیوں میں جکڑے ہوئے انسان ہیں جو چھٹکارے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ پاول ولاسوف کا اپنی ماں سے یہ کہنا کہ "ہم اُس خدا کی بات نہیں کر رہے جو تیرے دل میں ہے، ہم تو اُس خدا کی بات کر رہے ہیں جو پادریوں اور ملاؤں نے مسلط کر رکھا ہے" محض ایک جملہ نہیں، یہ انسانی تاریخ کے ہر اس لمحے کی نمائندگی کرتا ہے جب دین، محبت اور رحمت کی اصل روح کو طاقت اور جبر کے ڈنڈے سے بگاڑ دیا گیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جو دل کو چھو لیتا ہے۔ کیونکہ دنیا کے ہر معاشرے میں یہ کشمکش جاری رہی ہے کہ خدا کو دل میں بٹھایا جائے یا تختِ اقتدار پر، خدا کو محبت کے طور پر دیکھا جائے یا خوف کے کوڑے کے طور پر۔

پاول ولاسوف کا یہ جواب آج کے قاری کو چونکا دیتا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب ہم اپنے گرد و پیش دیکھتے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ صدیوں پرانی کہانی آج بھی نئے روپ میں ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ انسان فطرتاً خدا کا متلاشی ہے۔ وہ اپنے دل کے سکون کے لیے، اپنی بےبسی میں سہارا ڈھونڈنے کے لیے، اپنے دکھ درد کو کہنے کے لیے ایک طاقتور، رحیم اور شفیق ہستی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں اکثر مذہبی طبقوں نے اس خدا کو یوں پیش کیا جیسے وہ سزا دینے پر تُلا ہوا ہے، جیسے اُس کی سب سے بڑی دلچسپی انسان کو گناہ گن گن کر پکڑنے اور اُس پر قہر نازل کرنے میں ہے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص دل کی گہرائی سے خدا کو محسوس کرے تو اُسے خدا کی سب سے بڑی صفت رحمت، محبت اور بخشش نظر آتی ہے۔

یہی فرق ہے اُس خدا میں جو کسی عام انسان کے دل میں ہوتا ہے اور اُس خدا میں جو طاقت کے ایوانوں میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ جب خدا دل میں ہوتا ہے تو وہ محبت دیتا ہے، سہارا دیتا ہے، امید دیتا ہے، لیکن جب خدا کو منبر پر بٹھا کر خوف کی زبان دی جاتی ہے تو وہ ایک ہتھیار بن جاتا ہے، ایک کوڑا جسے چند لوگ اپنی برتری اور اپنے تسلط کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاول ولاسوف کے الفاظ اسی تضاد کو بے نقاب کرتے ہیں۔ وہ اپنی ماں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ ہم خدا سے انکار نہیں کر رہے، ہم تو اُس خدا کی تلاش میں ہیں جو اصل ہے، جو ہر انسان کے اندر رحمت اور امید جگاتا ہے۔

یہ بات آج بھی اتنی ہی تازہ لگتی ہے جتنی گورکی کے زمانے میں تھی۔ آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں لوگ مذہب کے نام پر جکڑے جاتے ہیں، اُنہیں آزادیٔ فکر سے محروم کیا جاتا ہے، اُن کے سوال دبائے جاتے ہیں اور جب وہ سوال کرتے ہیں تو اُنہیں فوراً ملحد، بے دین یا باغی کہہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سوال کرنا، تدبر کرنا، سوچنا اور حقیقت کی تلاش کرنا انسان کی فطرت ہے اور یہی اُسے خدا کے قریب لاتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پاول ولاسوف نے اپنی ماں کے دل میں بسے خدا کو تسلیم کیا۔ اُس نے کہا کہ وہ خدا رحیم و کریم ہے، شفیق ہے اور اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ گویا وہ ماں کے ایمان کی اصل کو رد نہیں کرتا بلکہ اُس پر زور دیتا ہے۔ اُس نے یہ فرق واضح کیا کہ ہم جس خدا کو رد کر رہے ہیں وہ وہ خدا نہیں جس پر ماں ایمان رکھتی ہے بلکہ وہ خدا ہے جسے طاقتور طبقوں نے خوف کی شکل میں پیش کیا ہے۔ یہی فرق اگر ہمارے معاشروں میں سمجھ لیا جائے تو شاید بہت سی تلخیاں کم ہو جائیں۔

خدا کو چھڑانے کی بات ایک علامتی جملہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کو کسی نے قید کر لیا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُس کے تصور کو، اُس کی شبیہ کو، اُس کے بارے میں سوچنے کے زاویے کو مخصوص طبقوں نے ہائی جیک کر لیا ہے اور انسان جب تک اُس شبیہ کو اپنی اصل حالت میں واپس نہ لے آئے، وہ خدا کے ساتھ سچی وابستگی محسوس نہیں کر سکتا۔ جب خدا کو سزا دینے والے جابر کی صورت میں دکھایا جاتا ہے تو بندہ خدا سے ڈرتا ہے، چھپتا ہے، اُس کے قریب آنے سے ہچکچاتا ہے۔ لیکن جب خدا کو رحیم و کریم کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے تو انسان اُس کی طرف لپکتا ہے، اُس کی محبت میں ڈوبتا ہے اور دل سے اُس کی حمد گاتا ہے۔

آج کا انسان بھی اسی کشمکش میں ہے۔ ایک طرف وہ خدا کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، اپنی دعاؤں میں، اپنی تنہائیوں میں، اپنی کمزوریوں میں اور دوسری طرف وہ مذہبی اداروں کے خدا کو دیکھتا ہے جو اسے ہر لمحے مجرم بنا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان کس خدا کو مانے؟ پاول ولاسوف نے اسی سوال کا جواب دیا کہ ہم اصل خدا کو مانتے ہیں، اُس کو جو دل میں ہے، جو محبت ہے، جو امید ہے۔

یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ گورکی کا ناول ایک سیاسی اور انقلابی سیاق رکھتا ہے۔ اُس میں مذہب اور طاقت کا گٹھ جوڑ عوام کو غلام رکھنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ لیکن اگر ہم اس خیال کو وسیع تر انسانی تناظر میں دیکھیں تو یہ ہر زمانے اور ہر جگہ سچ ثابت ہوتا ہے۔ دین کا اصل مقصد انسان کو سکون اور رہنمائی دینا ہے، لیکن جب وہ اقتدار کے ساتھ جڑ جاتا ہے تو اُس کی اصل روح دھندلا جاتی ہے۔ پھر دین بندوں کو آزاد کرنے کے بجائے قید کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

آج کے معاشرے میں یہ سوال مزید گہرا ہو جاتا ہے کیونکہ دنیا ایک طرف سائنسی ترقی کی انتہا پر ہے، انسان خلا میں پہنچ گیا ہے، آرٹیفیشل انٹیلی جنس بنا لی ہے، لیکن دوسری طرف مذہب کے نام پر جھگڑے، نفرتیں اور تقسیم بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس پس منظر میں پاول ولاسوف کا یہ جملہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ ایک دن ہم خدا کو پادریوں اور ملاؤں کے قبضے سے چھڑا لیں گے۔ یہ دراصل اُس دن کی نوید ہے جب انسان مذہب کو جبر سے آزاد کرے گا اور اُسے محبت اور سکون کی صورت میں اپنے دل میں بسا لے گا۔

اگر ہم اپنے اندر جھانکیں تو ہمیں یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ ہر شخص اپنے دل کے اندر خدا کو محبت کی صورت میں محسوس کرنا چاہتا ہے۔ کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ اُس کا خدا اُس پر مسلسل قہر نازل کرے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اُس کا خدا اُس کی کمزوریوں کو سمجھے، اُس کی غلطیوں کو معاف کرے اور اُس کی کوششوں کو قبول کرے۔ یہی وہ خدا ہے جسے پاول ولاسوف نے اپنی ماں کے دل میں مانا اور اُسی کو اصل قرار دیا۔

آج کی صحافت اور کالم نگاری کے تناظر میں اگر ہم اس اقتباس کو دیکھیں تو یہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے قاری کو کیا دے رہے ہیں؟ کیا ہم اُسے خوف دے رہے ہیں یا اُمید دے رہے ہیں؟ کیا ہم اُسے قید میں دھکیل رہے ہیں یا اُس کے سامنے محبت کی راہیں کھول رہے ہیں؟ اصل صحافت اور اصل ادب کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ قاری کے دل کو سکون دے، اُسے بیدار کرے، اُس کے سامنے خوف کے بجائے امید کا چراغ جلائے۔ معاشرے کا مثبت رنگ پیش کرے نہ کہ منفی، آج کا میڈیا خاص طور پر پاکستان کا میڈیا اپنے ہی ملک اور لوگوں کا تاریک پہلو ہی تلاشتا اور بیان کرتا رہتا ہے جبکہ اچھی اور مثبت چیزیں کہیں زیادہ ہیں لیکن انہیں بیان نہیں کیا جاتا۔

آخر میں بات وہی ہے کہ خدا کو دل سے پہچاننا ہے، کتابوں، منبروں اور طاقت کے ایوانوں کے شور میں اُس کی اصل آواز کھو نہ جائے۔ پاول ولاسوف کا یہ جملہ صرف ایک ناول کی سطر نہیں بلکہ ایک ابدی پیغام ہے کہ خدا کو واپس دل میں لے آؤ، اُس کو جبر کے قبضے سے آزاد کراؤ، پھر دیکھو کہ انسان کی زندگی کیسے بدلتی ہے۔ کیونکہ جب خدا دل میں ہوتا ہے تو دل خود بھی نرم ہو جاتا ہے، دوسروں کے لیے محبت سے لبریز ہو جاتا ہے اور یہی محبت انسانی سماج کی اصل بنیاد ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan