Khawaja Asif Sahib, Aapki Tawajo Darkar Hai
خواجہ آصف صاحب، آپ کی توجہ درکار ہے

خواجہ صاحب آپ ہمارے ان چند سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جو بات دلیل سے کرتے ہیں، حقائق کی بنیاد پر کرتے ہیں اور اکثر معاملات پر بلا خوف آواز بلند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تقاریر اور بیانات عام پاکستانی کو متاثر کرتے ہیں۔ آپ کے لہجے میں ایک اعتماد جھلکتا ہے اور آپ کی بات میں ایک وزن ہوتا ہے۔ حال ہی میں آپ کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں آپ سمندر پار پاکستانیوں کے حوالے سے گفتگو فرما رہے تھے۔
آپ نے خاص طور پر خلیج کے ان سمندرپار پاکستانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جو پچاس ڈگری کی شدید گرمی میں کام کرکے اپنے خون پسینے کی کمائی وطن بھیجتے ہیں۔ آپ نے درست کہا کہ یہ پاکستانی اپنے آپ کو دھوپ اور مشقت کے حوالے کرکے بھی جو کماتے ہیں وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے کام آتا ہے۔ ان کی قربانی واقعی انمول ہے۔ مگر خواجہ صاحب، ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر آج تک کسی نے آواز نہیں اٹھائی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر آپ جیسے بے باک اور حقیقت پسند رہنما نے بھی کبھی نظر نہیں ڈالی۔
وہ حقیقت یہ ہے کہ انہی خلیجی سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ ایک بڑی ناانصافی کی گئی ہے۔ وہ پاکستانی جو اپنی فیملیز کے بغیر پردیس میں رہتے ہیں، جن کے بچے پاکستان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جن کی جڑیں پاکستان کی مٹی سے جڑی ہیں، جن کے گھر، زمینیں اور سرمایہ پاکستان میں ہیں، انہی کے بچوں کو میڈیکل کالجوں میں سمندرپار مخصوص کوٹے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ جو کبھی ان کا حق تھا اور یہ حق اس طبقے کے نام کر دیا گیا ہے جو اپنے خاندانوں کے ساتھ خلیج، یورپ اور امریکہ میں آباد ہیں۔ وہ وہاں کے سکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں، فیملی لائف کے مزے لیتے ہیں، اپنی آمدن کا زیادہ تر حصہ وہیں خرچ کرتے ہیں اور پاکستان کو بمشکل چند فیصد ترسیلات زر بھیجتے ہیں۔ ان کے پاس بہترین سہولتیں موجود ہیں۔ ان کے بچوں کو ان سرپرستی حاصل ہے اور وہ ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر سب کچھ معیاری اور آسانی سے دستیاب ہے۔ مگر اس کے باوجود پاکستان میں پبلک سیکٹر میڈیکل کالجوں کے کوٹے پر قابض ہو چکے ہیں۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جو پاکستانی سب سے زیادہ اپنا سب کچھ پاکستان کے نام کرتے ہیں، ان کی محنت کا پھل ان کے بچوں کو نہیں ملتا؟ جنہوں نے اپنے خواب قربان کرکے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے چھوڑ رکھا ہے، جنہیں دن رات ان کے مستقبل کی فکر رہتی ہے، ان کو اس سہولت سے محروم کر دیا گیا ہے جس کے وہ سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ خواجہ صاحب! آپ نے اپنی تقریر میں بڑی خوبصورتی سے ان پاکستانیوں کا ذکر کیا جو خلیج کی جھلستی دھوپ میں پسینے سے تر لباس پہنے مزدوری کرتے ہیں اور پھر بھی خوشی خوشی اپنی ترسیلات زر وطن بھیجتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ان کے بچوں کی باری آتی ہے تو ریاست ان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتی ہے جیسے وہ دوسرے درجے کے شہری ہوں؟
یہ بات اور بھی بھی افسوس ناک ہو جاتی ہے کہ یہ کوٹہ محض پنجاب کے ان بچوں سے چھینا گیا ہے جن کے والدین خلیج یا دنیا کے دوسرے ملکوں میں مزدوری یا نوکری کرکے ملک کو اربوں ڈالر کی ترسیلات بھجواتے ہیں۔ باقی صوبوں میں آج بھی یہ حق برقرار ہے۔ آخر پنجاب کے ساتھ یہ امتیاز کیوں؟ کیا پنجاب کے سمندر پار پاکستانیوں کا پیسہ باقی صوبوں کے پاکستانیوں کے پیسے سے کم قیمتی ہے؟ کیا ان کے خون پسینے کی محنت باقیوں سے کم ہے؟ یہ کیسا معیار ہے کہ جہاں انصاف اور مساوات کے بجائے علاقائی بنیادوں پر فیصلہ کرکے ایک بڑے طبقے کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے؟
خواجہ صاحب! اگر آپ واقعی ان سمندر پار پاکستانیوں کو ملک کا سرمایہ سمجھتے ہیں تو پھر یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ان کی سب سے بڑی خواہش اپنی اولاد کو بہتر مستقبل دینا ہے۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ خود مشقت کریں، اپنے گھر والوں سے دور رہیں لیکن اپنے بچوں کو وہ سہولتیں اور مواقع فراہم کریں جو وہ خود حاصل نہ کر سکے۔ اگر ریاست ان کی محنت کے صلے میں بھی ان کو مایوسی دے گی تو پھر وہ اعتماد کیسے بحال ہوگا جو وہ پاکستان پر کرتے ہیں؟ وہ کیوں اپنے وطن کو سب کچھ بھیجیں جب ان کے ساتھ ایسا غیر منصفانہ سلوک ہو؟
یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ جو پاکستانی خاندانوں کے ساتھ باہر رہتے ہیں وہ زیادہ مہارت رکھتے ہیں، ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہ پاکستان آ کر ملک کی ترقی میں زیادہ حصہ ڈال سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی خاندانوں کے زیادہ تر بچے واپس ہی نہیں آتے۔ وہیں کی شہریت اختیار کر لیتے ہیں، وہیں ملازمت کرتے ہیں اور وہیں زندگی بسر کرتے ہیں۔ پاکستان ان کے لیے محض ایک جذباتی تعلق یا کبھی کبھار چھٹیاں گزارنے کی جگہ رہ جاتا ہے۔ اس کے برعکس خلیج اور دوسرے ممالک کے بغیر فیملی سمندر پار پاکستانیوں کے بچے پاکستان ہی میں رہتے ہیں، پاکستان ہی میں پڑھتے ہیں اور مستقبل میں پاکستان ہی کی خدمت کرتے ہیں۔ پھر آخر کیوں ان پر دروازے بند کر دیے گئے؟
یہ صرف تعلیم کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک رویے کا معاملہ ہے۔ جب ریاست اس طبقے کے ساتھ امتیازی سلوک کرے گی تو ان کے دلوں میں یہ احساس جڑ پکڑے گا کہ ان کی قربانیوں کو نہ تو سمجھا گیا ہے اور نہ ہی سراہا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے۔ چاہے زلزلہ ہو یا سیلاب، معاشی بحران ہو یا سیاسی عدم استحکام، یہی لوگ ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ زرِ مبادلہ وطن عزیر بھیجا اور ملکی معیشت کو سہارا دیا۔ لیکن افسوس کہ ان کی اپنی اولادیں جب دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں تو ان کے لیے قانون بدل دیا جاتا ہے۔
خواجہ صاحب! آپ کی حکومت ہے، آپ کی آواز ہے اور آپ کا اثر و رسوخ ہے۔ یہ وقت ہے کہ آپ محض تقریروں پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں۔ اس ناانصافی کو ختم کریں اور اس حق کو واپس دلائیں جو ان سمندر پار پاکستانیوں کے بچوں سے چھینا گیا ہے۔ یہ صرف ان کا حق نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر ہم نے ان کے ساتھ انصاف نہ کیا تو آنے والی نسلیں نہ تو ملک پر اعتماد کریں گی اور نہ ہی اپنے وسائل یہاں لگائیں گی۔
یاد رکھیں کہ یہ لوگ پاکستان کے اصل سرمایہ کار ہیں۔ یہ نہ تو ملک سے باہر جائیدادیں خریدتے ہیں، نہ ہی اپنا سرمایہ یورپ اور امریکہ منتقل کرتے ہیں۔ یہ جو کماتے ہیں پاکستان پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ لیکن بدلے میں ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے تو یہ کسی سانحے سے کم نہیں۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کا مقدمہ لڑیں، ان کی آواز کو ایوانوں تک پہنچائیں اور ثابت کریں کہ آپ کی تقریریں محض الفاظ نہیں بلکہ عملی حقیقت کا درجہ رکھتی ہیں۔
ابھی وقت ہے کہ اس ناانصافی کو درست کیا جائے۔ ابھی وقت ہے کہ خلیج اور دوسرے ممالک کے ان بغیر فیملی رہنے والے پاکستانیوں کو ان کا کھویا ہوا حق واپس ملے۔ ابھی وقت ہے کہ پنجاب کے ان بچوں کو بھی وہی سہولتیں ملیں جو دوسرے صوبوں کے بچوں کو حاصل ہیں۔ ورنہ یہ احساسِ محرومی ایک دن ایسا طوفان بن جائے گا جسے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔
خواجہ صاحب! آپ کی تقریر اچھی تھی۔ لیکن اب عمل درکار ہے اور وقت کم ہے۔

