Joe Root, Cricket Ka Peter Pan
جو روٹ، کرکٹ کا پیٹر پین

جب کبھی انگلینڈ کی بیٹنگ کی تاریخ پر نظر ڈالی جاتی ہے، تو سر جیک ہوبز، لین ہٹن، جیفری بائیکاٹ، ڈیوڈ گاور، گراہم گوچ، مائیکل وان، اینڈریو اسٹراس، کیون پیٹرسن اور ایلسٹر کک جیسے نام ذہن میں آتے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا ایک انداز، اپنا مقام، اپنی کہانی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور نام ہے جو ان سب کی صف میں پہلے آہستگی سے اور اب پوری شان و شوکت سے نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ جو روٹ۔ وہ جو بیٹنگ کے میدان کا پیٹر پین ہے، جو عمر کے تقاضوں سے بے نیاز لگتا ہے، جو ہر اننگ میں وہی تازگی، وہی بچپنا، وہی معصوم مسکراہٹ اور وہی فنی مہارت لے کر آتا ہے جیسے ابھی کرکٹ سے محبت کی ابتدا کی ہو۔
جو روٹ کا سفر کوئی دھماکہ خیز آغاز نہیں تھا۔ وہ نہ تو پیٹرسن کی طرح چھا جانے والا بیٹسمین تھا، نہ کک کی طرح چٹان جیسا، بلکہ وہ دھیرے دھیرے، تسلسل کے ساتھ چڑھتی سیڑھیوں جیسا بیٹسمین تھا، جس نے ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھا اور ہر زینہ پُر اعتماد ہو کر طے کیا۔ اس کی بیٹنگ میں ایک ایسا سکون اور شائستگی ہے جو آج کے تیز رفتار اور جارحانہ کرکٹ کے دور میں کم ہی نظر آتی ہے۔ وہ شاٹس نہیں مارتا، وہ شاعری کرتا ہے۔ اس کے بیٹ سے نکلنے والی ہر کور ڈرائیو، ہر سٹریٹ ڈرائیو، ہر بیک فٹ پنچ اور ہر دلکش سنگل، فن کی جھلک دیتی ہے۔
جب اس کا موازنہ ایلسٹر کک اور کیون پیٹرسن جیسے عظیم انگلش بلے بازوں سے کیا جاتا ہے تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ روٹ اب محض ایک اچھا بلے باز نہیں رہا، وہ ایک عہد بن چکا ہے۔ کک، جنہوں نے 161 ٹیسٹ میچز میں 12,472 رنز بنائے، ایک مکمل اوپنر تھے۔ ذہنی مضبوطی، سادگی اور خاموش مزاحمت کا استعارہ۔ دوسری طرف پیٹرسن تھے، جنہوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیت، فلیئر اور بے باک شاٹس سے دنیا کو حیران کر دیا۔ لیکن روٹ نے ان دونوں کا جوہر کسی حد تک اپنے اندر سمو لیا ہے: کک کا تسلسل اور پیٹرسن کی کلاس اور پھر بھی وہ صرف "روٹ" ہے۔ نہ کک کی کاپی، نہ پیٹرسن کا سایہ۔
روٹ کی خاص بات اس کا رویہ ہے۔ نہ وہ میدان میں ہنگامہ کرتا ہے، نہ باڈی لینگوئج سے مقابل کو للکارتا ہے، نہ ہی وکٹ گرنے پر ڈرامائی جشن مناتا ہے۔ وہ محض بیٹنگ کرتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے یہی اس کا عشق ہو، یہی اس کی عبادت۔ اس کی طبیعت میں پیٹر پین جیسا بچپنا ہے، جو کبھی بڑا نہیں ہوتا، جو ہر نئے دن کو پہلی بار کی طرح جیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سالوں سے انگلینڈ کا بیٹنگ انجن رہا ہے اور آج بھی پوری توانائی اور بھرپور جذبے سے کھیلتا ہے، جیسے ابھی سفر شروع ہوا ہو۔
انگلینڈ کے لیے اس نے بے شمار مواقع پر اکیلے مورچہ سنبھالا ہے۔ چاہے ایشیز ہو، انڈیا کا ٹور ہو یا سری لنکا کے اسپنرز کی آزمائش۔ جو روٹ نے اپنے بلے سے وہی یقین دلایا ہے جو ایک مضبوط اور باشعور لیڈر دیتا ہے۔ کچھ برس پہلے جب انگلینڈ کی بیٹنگ لڑکھڑائی، جب نئے کھلاڑیوں کے لیے راستے بند ہونے لگے، جب فتح دور لگنے لگی۔ تب بھی روٹ اپنی جگہ پر کھڑا رہا، ڈٹا رہا، رنز بناتا رہا، امید دلاتا رہا۔
اس کا تکنیکی توازن، اس کا فٹ ورک، اس کی آنکھ اور ہاتھ کی ہم آہنگی اور سب سے بڑھ کر، ذہنی قوت، یہ سب اسے اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں وہ نہ صرف انگلینڈ کا سب سے کامیاب بلے باز بنتا جا رہا ہے، بلکہ عالمی کرکٹ میں بھی صفِ اول میں شمار ہو رہا ہے اور اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ سچن ٹنڈولکر کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے؟
ٹنڈولکر کرکٹ کی تاریخ کا وہ نام ہے جس نے بلے بازی کو دیوتا کے درجہ تک پہنچا دیا۔ 200 ٹیسٹ میچز، 15,921 رنز، 100 بین الاقوامی سنچریاں اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن۔ کسی کے لیے بھی اس کو پیچھے چھوڑنا خواب سے کم نہیں۔ لیکن اگر کوئی آج کے دور میں ٹنڈولکر کی بلندیوں کو چھونے کا اہل دکھائی دیتا ہے، تو وہ جو روٹ ہے۔ اس نے 30 سے زیادہ ٹیسٹ سنچریاں بنا لی ہیں، اس کا اوسط 50 کے آس پاس ہے اور وہ فٹ اور فارم میں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ابھی بھی مکمل توانائی سے کھیل رہا ہے اور کرکٹ سے اس کی محبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
ٹنڈولکرکے ریکارڈز کو چیلنج کرنا محض اعداد و شمار کا مقابلہ نہیں، یہ جذبے، استقلال اور وقت کی آزمائش ہے۔ جو روٹ کے پاس یہ سب کچھ ہے اور ساتھ ہی ایک انکساری بھی، جو آج کے زمانے میں نایاب ہے۔ وہ کبھی خود کو عظیم نہیں کہتا، نہ ریکارڈز کے پیچھے بھاگتا ہے، لیکن اس کا ہر قدم، ہر رن، ہر سنچری خود یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ کرکٹ کا ایک روشن ستارہ ہے۔ جو اب آسمان کے مرکز میں ہے۔
جہاں پیٹرسن نے اپنے مزاج اور آف فیلڈ مسائل کی وجہ سے اپنے کیریئر کو مختصر کر لیا اور جہاں کک نے وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر اپنے آپ کو سادہ انداز میں رخصت کیا۔ وہیں روٹ ابھی بھی سفر پر ہے اور یہ سفر صرف ایک بلے باز کا نہیں، بلکہ ایک کہانی کا ہے، جو ہر روز نیا موڑ لیتی ہے، ہر اننگ میں نیا باب کھولتی ہے۔
روٹ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کرکٹ صرف چھکوں اور چوکے مارنے کا نام نہیں، نہ ہی تیز بولنگ یا جیت کے جوش میں لپکنے کا۔ کرکٹ ایک فن ہے، ایک فکری گیم ہے، ایک ایسا میدان جہاں کردار، صبر، استقامت اور اخلاق بھی اتنے ہی اہم ہوتے ہیں جتنی تکنیکی مہارت اور روٹ ان سب خوبیوں کا مجموعہ ہے۔
انگلینڈ میں اب ایک نئی نسل آ چکی ہے: زیک کرالی، بین ڈکٹ، ہیری بروک اور دیگر نوجوان جو خوبصورت بیٹنگ کرتے ہیں۔ لیکن روٹ آج بھی ان سب سے الگ، سب سے منفرد ہے۔ اس کی اننگز میں وہ گہرائی اور ٹھہراؤ ہے جو وقت کے ساتھ آتا ہے۔ وہ ایک تجربہ کار استاد کی طرح بیٹنگ کرتا ہے جو ہر شاٹ کے ذریعے کوئی پیغام دیتا ہے۔
کرکٹ میں وراثت صرف اعداد و شمار سے نہیں بنتی، بلکہ اس سے بنتی ہے کہ ایک کھلاڑی نے اپنے ملک، اپنے کھیل اور اپنے تماشائیوں کے دلوں میں کیا مقام بنایا۔ اس پیمانے پر دیکھیں تو جو روٹ نے وہ کر دکھایا ہے جو کم ہی کرکٹرز کرتے ہیں۔ اس نے دل جیتے ہیں۔ نہ صرف انگلینڈ کے، بلکہ دنیا بھر کے۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ اسے "کرکٹ کا پیٹر پین" کہتے ہیں۔ جو بڑا تو ہوگیا ہے، لیکن اس کی معصومیت، اس کی لگن اور اس کی خوش مزاجی ویسی کی ویسی ہے۔ ایک ایسا بلے باز جو ہر بار ایسا لگتا ہے جیسے پہلی بار کھیل رہا ہو، جیسے کرکٹ کے میدان میں اترنا آج بھی خواب جیسا ہو۔
ٹنڈولکرکے ریکارڈز تک پہنچنا آسان نہیں، لیکن اگر کوئی آج کے زمانے میں خاموشی سے، محنت سے اور مسلسل پیش رفت کے ذریعے وہاں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو وہ جو روٹ ہے۔ چاہے وہ کبھی ان ریکارڈز کو توڑ پائے یا نہ، لیکن جو عزت، جو محبت اور جو مقام وہ حاصل کر چکا ہے، وہ بذاتِ خود کسی ریکارڈ سے کم نہیں۔
جو روٹ ایک بلے باز سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ ایک فلسفہ ہے۔ کرکٹ کے حسن کا، سادگی کا اور خاموش عظمت کا اور جب تاریخ لکھی جائے گی، تو ہو سکتا ہے کہ اعداد و شمار سچن ٹنڈولکر کو آگے دکھائیں، لیکن دل کی کتاب میں، جذبات کے ریکارڈ میں اور شائستگی کے تذکروں میں، جو روٹ کا نام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگا۔

