Jo Chahe Aap Ka Husn e Karishma Saz Kare
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

کہتے ہیں بڑے لوگ کم سنتے ہیں اور خان جی تو شاید سننے کے بجائے صرف بولنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے کان شریف پر اگر کوئی جوں رنگوا بھی دے تو وہ اسے مکھی سمجھ کر جھاڑ دیتے ہیں۔ مگر پھر بھی ہم عاجزی سے عرض کیے دیتے ہیں کہ خان صاحب! قیادت کا یہ جو نیا نمونہ آپ نے تراشا ہے، اس پر تھوڑا سا توقف کیجیے۔ قوم کے مستقبل سے کھیلنے میں مزہ تو آ سکتا ہے، مگر نتائج ہمیشہ کھیل نہیں بننے دیتے۔
خیبر پختونخوا کے نئے وزیرِاعلیٰ نے آتے ہی جو کچھ کہا، وہ سن کر یوں لگا جیسے کسی طالبِعلم کو اچانک اسکول کا پرنسپل بنا دیا گیا ہو اور وہ پہلے دن اسمبلی میں طلبہ کو نصیحت کے بجائے چیلنج دے رہا ہو۔ لوگ برسوں تقریریں تیار کرتے ہیں، لفظوں کو تراشتے ہیں، جملوں کو ناپتے اور تولتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے، گویا سوچنا، تولنا، پرکھنا بھی کوئی غیرضروری مشقت ہو۔ وزیرِاعلیٰ صاحب نے فخر سے اعلان کیا کہ وہ confrontational politics کے چیمپیئن ہیں اور یہ جملہ ہی ان کے سیاسی سفر کی پوری کہانی بیان کر گیا۔
ہم نے بڑے بڑے لیڈر دیکھے، جنہوں نے برسوں سیاست کے خارزار میں قدم رکھے، وقت کی دھوپ چھاؤں دیکھی، تلخیاں برداشت کیں اور پھر کہیں جا کر قیادت کے منصب پر فائز ہوئے۔ لیکن یہاں تو خان جی نے جیسے ایک چمکتا دمکتا کھلاڑی میدان میں اتار دیا ہو، جو ابھی پہلی گیند کھیلنے سے پہلے ہی کپتانی کے فخر میں جھوم رہا ہے۔ اس اسمبلی میں کئی سفید بالوں والے، تجربہ کار سیاستدان بیٹھے ہیں۔ وہ جنہوں نے دہائیاں عوامی خدمت اور سیاست کی نذر کر دیں۔ مگر حکم ہوا کہ اب ان سب کے سر اس نوجوان کے سامنے جھکیں، جو عمر میں کئیوں کے بیٹوں بلکہ پوتوں کے برابر ہے۔
خان صاحب! ہم جانتے ہیں کہ آپ روایت شکن ہیں۔ لیکن کچھ روایات ایسی ہوتی ہیں جنہیں توڑنے سے معاشرتی توازن بگڑ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بزرگوں کا احترام محض ایک رسم نہیں، یہ ایک تہذیبی وراثت ہے۔ قیادت ہمیشہ تجربے، دانش اور بردباری کی محتاج ہوتی ہے۔ جن معاشروں نے ترقی کی ہے، وہاں قیادت ہمیشہ اُن ہاتھوں میں رہی جنہوں نے وقت کے امتحان جھیلے۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان یا جرمنی، ان سب ممالک میں قیادت تجربہ کار لوگوں کے سپرد کی جاتی ہے۔ نوجوان اُن کے ماتحت رہ کر سیکھتے ہیں، تربیت پاتے ہیں، پھر وقت آنے پر ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔ مگر یہاں تو استاد شاگرد سے کہہ رہا ہے کہ آؤ، تم آج سے میرے استاد ہو۔
یاد ہے خان صاحب، کبھی آپ خود سوال کیا کرتے تھے کہ یہ سیاسی خاندانوں کے نونہال کیا تجربہ رکھتے ہیں جو اقتدار کے خواہاں ہیں؟ اور یہ کہ سیاست کوئی کھیل نہیں، تجربے کا نام ہے۔ وہ سوال آج آپ کے اپنے فیصلے کے سامنے کھڑے ہیں۔ آپ نے ایک ایسے نووارد کو وزیرِاعلیٰ بنا دیا جو پہلی بار اسمبلی کا رکن منتخب ہوا ہے۔ جس کی واحد پہچان، اس کے اپنے الفاظ میں، confrontation ہے۔ سیاست تو تدبیر، صبر، مشاورت اور دوراندیشی کا میدان ہے، لڑائی جھگڑے کا نہیں۔ یہ میدان اُن کا ہے جو بولنے سے پہلے سننا جانتے ہیں، جو اپنی انا کے بجائے ریاست کو مقدم رکھتے ہیں۔
خان صاحب، آپ نے جس نوجوان کو قیادت دی ہے، وہ اگر واقعی باصلاحیت ہے تو کیا حرج تھی کہ پہلے اسے کسی وزارت میں آزمایا جاتا؟ اسے کچھ وقت دیا جاتا تاکہ وہ سیکھے، غلطیاں کرے اور ان سے کچھ سبق حاصل کرے۔ لیکن نہیں، آپ نے اسے براہِ راست میدان میں اتار دیا۔ اب اس ٹیم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کھیلنا تو دور کی بات، ایسا لگتا ہے جیسے پچ ہی الٹی کر دی گئی ہو۔
یہ ملک پہلے ہی بہت تجربات کا شکار ہے۔ ہر آنے والا حکمران اپنی لیبارٹری میں نیا تجربہ کرتا ہے اور جب نتیجہ اُلٹا نکلتا ہے تو سارا نظام بھگتتا ہے۔ خان صاحب! صوبہ خیبر پختونخوا کوئی کھلونا نہیں، یہ ایک حساس، پیچیدہ اور غیر مستحکم خطہ ہے۔ یہاں کے لوگ جنگ، غربت، بے روزگاری اور دہشتگردی کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سانس لے رہے ہیں۔ ایسے میں آپ نے قیادت اُس شخص کے حوالے کر دی ہے جس کی واحد پہچان تکرار اور مقابلہ ہے۔ کیا یہی وہ تبدیلی تھی جس کا خواب دکھایا گیا تھا؟
ہم یہ نہیں کہتے کہ نوجوان قیادت کا حق نہیں رکھتے۔ نہیں، یقیناً نوجوان ہی مستقبل ہیں۔ لیکن قیادت کے حق اور قیادت کے وقت میں فرق ہوتا ہے۔ درخت بھی پہلے جڑ پکڑتا ہے، پھر تنا مضبوط ہوتا ہے، تب جا کر سایہ دیتا ہے۔ اگر آپ اسے جڑ سے کاٹ کر اوپر لگا دیں تو وہ چند دن تو سبز نظر آئے گا، مگر پھر مرجھا جائے گا۔ اسی طرح قیادت بھی تربیت کے بغیر بوجھ بن جاتی ہے۔
خان صاحب! آپ کے چاہنے والے آپ کو مخلص سمجھتے ہیں، مگر خلوص کے ساتھ بصیرت بھی ضروری ہے۔ سیاست نیتوں سے نہیں، فیصلوں سے چلتی ہے۔ آپ کی نیت چاہے پاکیزہ ہو، مگر فیصلے اگر کم فہم ہوں تو نتائج قوم کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ آپ نے کہا تھا: "میں انگریزوں کے نظام سے متاثر ہوں، وہاں میرٹ ہے، شفافیت ہے، اصول ہیں"۔ تو پھر بتائیے، کیا انگریز بھی کسی ناتجربہ کار کو صوبے کا سربراہ بناتے؟ آپ نے زندگی کا بڑا حصہ انگریزوں کے ساتھ گزارا، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اُن سے حکومت کرنے کے اصول نہیں، شاید صرف طرزِ حکمرانی کا غرور سیکھا ہے۔
یہ ملک تجربات کی بھٹی میں جل جل کر تھک چکا ہے۔ کبھی غیر تربیت یافتہ مشیر، کبھی ناتجربہ کار وزراء، کبھی جذباتی فیصلے۔ اب وقت آیا ہے کہ کوئی سنجیدگی سے سوچے کہ قیادت محض کرسی پر بیٹھنے کا نام نہیں، بلکہ ذمہ داریوں کے بوجھ کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہے۔ خان صاحب، یہ صوبہ کسی کے کیریئر کی پہلی کلاس نہیں، یہ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے۔
ہم آپ کے مخالف نہیں، بلکہ خیرخواہ ہیں۔ ہماری گزارش بس اتنی ہے کہ اپنی سیاسی فصل میں پختگی آنے دیجیے۔ ان ننھے منے چوزوں کے ذریعے حکومت کا تجربہ شاید خوشنما لگے، مگر یہ نظام کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ ایک روز جب یہ نوجوان اپنے فیصلوں سے غلطی کریں گے تو تنقید آپ پر آئے گی۔ کیونکہ کپتان آخرکار وہی ہوتا ہے جس نے ٹیم چنی ہوتی ہے۔
خان صاحب! تاریخ ہمیشہ وہی نام زندہ رکھتی ہے جنہوں نے فیصلے عقل، تجربے اور انصاف سے کیے۔ اگر آپ واقعی اس قوم کے خیرخواہ ہیں تو اپنے اردگرد اُن لوگوں کو رکھیے جن کے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں، مگر جن کے دل اب بھی وطن کی محبت سے جوان ہیں۔ سیاست میں بھی بزرگوں کی دعائیں اور تجربے وہی کردار ادا کرتے ہیں جو کسی بزرگ کے ہاتھ کا سایہ ایک بچے کے لیے کرتا ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ آپ کا حسنِ قیادت کرشمہ ساز ہے، لیکن کرشمے بھی ہمیشہ نہیں چلتے۔ کبھی نہ کبھی حقیقت سامنے آ جاتی ہے اور تب الفاظ نہیں، فیصلے بولتے ہیں۔ لہٰذا خان صاحب، آپ سے ایک عاجزانہ گزارش ہے، ذرا رک جائیے۔ سوچ لیجیے۔ قیادت کے نام پر معاشرتی اقدار کو یوں خاک میں نہ ملائیے۔ یہ قوم اب مزید تجربات برداشت نہیں کر سکتی۔ بزرگوں کا حق وہی ہے جو تاریخ نے انہیں دیا ہے اور نوجوانوں کا فرض یہ ہے کہ وہ پہلے سیکھیں، پھر قیادت کریں۔

