Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Javed Nama, Aik Ruhani Safar Ki Hikayat

Javed Nama, Aik Ruhani Safar Ki Hikayat

جاوید نامہ، ایک روحانی سفر کی حکایت

اقبال کا "جاوید نامہ" فقط ایک مثنوی نہیں، یہ ایک فکری معراج ہے، ایک ایسا روحانی سفر جو عقل، عشق، وجدان اور آگہی کے دریچوں کو وا کرتا ہے۔ یہ کتاب علامہ اقبال کی فارسی شاعری کا عروج ہے، ایک ایسا شاہکار جسے بجا طور پر مشرق کی "ڈوائن کامَڈی" کہا گیا ہے۔ اگر دانتے نے اپنے تخیل کی بنیاد پر "ڈوائن کامڈی" میں دوزخ، برزخ اور جنت کی سیاحت کی تو اقبال نے "جاوید نامہ" میں روحِ انسانی کو آسمانی کہکشاؤں کی سیر کرائی، اس کی تربیت کی، اسے اپنے مقام سے آگاہ کیا اور وہ ابدی پیغام دیا جسے زمان و مکان کی قید نہیں۔ "جاوید نامہ" ہر عہد کے انسان کے لیے مشعلِ راہ ہے، جو اسے بتاتا ہے کہ وہ فقط مٹی کا پتلا نہیں بلکہ نورِ خداوندی کا امین ہے۔ یہ ایک ایسا مکالمہ ہے جو روح کی گہرائیوں سے اٹھتا ہے اور افلاک کی بلندیوں تک جا پہنچتا ہے۔

اقبال کی یہ مثنوی اسلوب، زبان، فکر اور فلسفے کا ایسا مرقع ہے جو دل کو چھو لیتا ہے۔ شاعر ایک خواب میں عالمِ ارواح سے ہوتا ہوا زہرہ، مریخ، مشتری، زحل، قمر، عطارد اور دیگر سیاروں کی سیر کرتا ہے۔ اس سفر میں اس کا رہنما مولانا رومی ہوتا ہے، وہی رومی جو عشقِ حقیقی کا امام ہے، جس کے کلام سے صدیوں سے دل روشن ہو رہے ہیں۔ یہ رومی اقبال کے خواب میں ایک زندہ حقیقت بن کر آتا ہے اور مسافرِ جاوداں کو ایک ایک عالم کی سیر کراتا ہے۔ ان عالموں میں وہ روحیں بستیاں کیے ہوئے ہیں جو کبھی اس دنیا میں زندہ تھیں، جن کے تجربات، جن کی حکمتیں، جن کی کوتاہیاں اور جن کی کامیابیاں آج کے انسان کے لیے آئینہ ہیں۔

"جاوید نامہ" ایک ایسا مکالمہ ہے جو صرف ماضی اور حال کے درمیان نہیں بلکہ انسان اور خدا کے درمیان بھی جاری ہے۔ ہر سیارہ، ہر مقام، ہر ملاقات اپنے اندر ایک حکمت رکھتی ہے، ایک راز چھپائے ہوئے ہے۔ اقبال سقراط سے ملتا ہے، منصور حلاج سے بات کرتا ہے، نیچے کے عالموں میں تاتاری روحوں سے مکالمہ کرتا ہے اور اوپر کے آسمانوں میں پیغمبرانہ بصیرت رکھنے والے اکابر سے ملاقات کرتا ہے۔ لیکن اس پورے سفر کا مقصد فقط معلومات حاصل کرنا نہیں، بلکہ خودی کو بیدار کرنا ہے۔ خودی اقبال کے فکر کا مرکز ہے۔ وہ خودی جو خدا سے ہمکلام ہونے کی طاقت رکھتی ہے، جو زمانے کو مسخر کر سکتی ہے، جو اپنی ذات میں مکمل ہو کر ساری کائنات کو مسخر کر لیتی ہے۔

"جاوید نامہ" کا نام بظاہر اقبال کے بیٹے جاوید اقبال کے نام پر رکھا گیا ہے، لیکن دراصل یہ ہر اس انسان کے نام ہے جو جاودانی ہے، جو فانی جسم میں لافانی روح کا حامل ہے۔ اقبال کا خطاب صرف جاوید اقبال سے نہیں بلکہ نسلِ نو سے ہے، اُس نئی نسل سے جو زمانے کی دوڑ میں اپنی روحانی شناخت کھو بیٹھی ہے، جو سائنس کی روشنی میں دل کی تاریکی بھول گئی ہے، جو مشینی زندگی میں وجدان کی آہٹ سے بیگانہ ہو چکی ہے۔ "جاوید نامہ" انہیں جگانے کی کوشش ہے، انہیں بتانے کی سعی ہے کہ مادّی دنیا کے پیچھے ایک اور دنیا ہے، ایک ایسی دنیا جہاں سوالات کا جواب ہے، جہاں زندگی کا مفہوم ہے، جہاں روح کو غذا ملتی ہے۔

اقبال کا طرزِ بیان اس مثنوی میں سادہ بھی ہے اور گہرا بھی۔ وہ فارسی میں لکھتے ہیں، لیکن ان کے الفاظ دل میں اترتے ہیں، چونکہ وہ دل سے نکلتے ہیں۔ ان کی شاعری فقط بیان نہیں، ایک دعوت ہے، دعوتِ فکر، دعوتِ عشق، دعوتِ انقلاب۔ وہ ہر قاری سے کہتے ہیں کہ وہ اس خواب کو اپنی آنکھ میں جگہ دے، کہ وہ بھی ایک ایسا ہی سفر کرے، کہ وہ خود سے ملے، اپنے باطن کی سمت سفر کرے، اپنے وجود کے اندر جھانکے۔ اقبال کی یہ دعوت محض تخیل کی پرواز نہیں بلکہ ایک روحانی تربیت ہے۔ اس تربیت میں سب سے پہلے وہ استاد سے ملنے کی ترغیب دیتے ہیں اور استاد وہی رومی ہے جو "مثنوی" کا خالق ہے۔ رومی کی موجودگی "جاوید نامہ" کو ایک طرح کا سلسلہ بنا دیتی ہے، جس کی جڑیں عشقِ حقیقی میں پیوست ہیں۔

اقبال کا سفر اس دنیا سے شروع ہوتا ہے لیکن جلد ہی وہ وقت اور مکان کی قیود سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس کی پرواز مریخ کی وادیوں سے ہوتی ہوئی ستاروں کے گہواروں تک جا پہنچتی ہے اور وہاں وہ اپنے عہد کے بڑے بڑے سوالات کو لے کر جاتا ہے، انسان کیوں بے چین ہے؟ طاقت کا اصل منبع کیا ہے؟ علم و سائنس نے روح کو کیوں ویران کر دیا ہے؟ دنیا کے مذاہب اور تمدن کیوں زوال کا شکار ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان اپنی کھوئی ہوئی خودی کو کیسے پاسکتا ہے؟ ہر سیارہ ان سوالات کا ایک پہلو پیش کرتا ہے۔ کہیں وہ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں سنتا ہے، کہیں وہ محبت کی نئی تعریفات سے آشنا ہوتا ہے، کہیں وہ مردِ کامل کے تصور سے رُوشناس ہوتا ہے اور کہیں وہ اسلام کی روحانی اساس کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

"جاوید نامہ" کا سفر اندر سے باہر کی طرف نہیں بلکہ باہر سے اندر کی طرف ہے۔ یہ ایک نفسیاتی اور روحانی سفر ہے۔ اس میں کردار ظاہری نہیں بلکہ باطنی ہیں۔ ان کی شناخت ان کے لباس، چال یا شکل سے نہیں بلکہ ان کے خیالات، کردار، مکالمے اور روحانی تجربات سے ہوتی ہے۔ وہ امام حسینؑ کا ذکر کرتے ہیں، منصور کا پیغام لاتے ہیں، بایزید بسطامی کی خوشبو بکھیرتے ہیں اور نیچے کے جہانوں میں ایسے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں جنہوں نے اپنے نفس کو فروخت کر دیا تھا۔ یہ سب ملاقاتیں قاری کو ایک آئینہ دیتی ہیں، ایک ایسا آئینہ جس میں وہ خود کو دیکھ سکتا ہے، پرکھ سکتا ہے اور اپنے مقام کا تعین کر سکتا ہے۔

اقبال "جاوید نامہ" کے ذریعے ایک عظیم پیغام دینا چاہتے ہیں اور وہ پیغام ہے کہ زندگی فقط سانس لینے کا نام نہیں بلکہ اپنی روح کو پہچاننے، اسے سنوارنے اور اسے اپنے خالق کی طرف لوٹانے کا عمل ہے۔ وہ انسان کو فرشتوں سے بلند دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ بلندی علم سے نہیں، عشق سے حاصل ہوتی ہے، وہ عشق جو انسان کو اپنے مقصدِ حیات سے آشنا کرے، جو اسے حرکت دے، جو اس کے اندر وہ چنگاری پیدا کرے جس سے ایک نیا زمانہ تخلیق ہو۔ "جاوید نامہ" اس چنگاری کو روشن کرتا ہے، اس میں تپش ہے، روشنی ہے، تاثیر ہے۔

اقبال کے ہاں یہ سفر ایک شخصی تجربہ نہیں بلکہ اجتماعی دعوت ہے۔ وہ فرد کو جگا کر قوم کو بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی نظر میں جو انسان خود سے غافل ہے، وہ قوم بھی مردہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ فرد اپنی خودی کو پہچانے تاکہ قوم ایک بلند مقام تک جاسکے۔ "جاوید نامہ" میں وہ قوموں کی زبوں حالی پر روتے ہیں، ملتِ اسلامیہ کے زوال پر نوحہ کناں ہیں، لیکن وہ ناامید نہیں۔ ان کی شاعری مایوسی کی نہیں، اُمید کی شاعری ہے۔ وہ جہانِ نو کی بشارت دیتے ہیں، وہ مردِ مومن کی آمد کا اعلان کرتے ہیں، وہ ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھتے ہیں جس میں نہ امیری ہو نہ غریبی، نہ غلامی ہو نہ ظلم، جہاں خدا کا نظام ہو اور انسان اس کا نائب ہو۔

یہی وہ دنیا ہے جس کی جھلک "جاوید نامہ" میں ملتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں انسان خدا سے ڈرنے کے بجائے اس سے عشق کرے، جہاں عقل کی قید سے نکل کر وجدان کی پرواز کی جائے، جہاں سیاست، معیشت اور علم سب کا محور انسان کی روح ہو، اس کی نیت ہو، اس کا اخلاق ہو۔ اقبال نے یہ خواب صرف لکھا نہیں، وہ چاہتے تھے کہ ہم اسے جئیں، اسے حقیقت بنائیں۔ ان کے نزدیک شاعری کا مقصد فقط تفریح نہیں بلکہ تعمیر ہے اور "جاوید نامہ" اسی تعمیر کی ایک بنیاد ہے۔

یہ مثنوی اس وقت لکھی گئی جب دنیا جنگِ عظیم کے زخم سہہ رہی تھی، جب مسلمان اپنی خلافت سے محروم ہو چکے تھے، جب مشرق مغرب کے سحر میں گرفتار ہو چکا تھا، جب ہندوستان میں غلامی کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ایسے میں اقبال نے ستاروں کی طرف دیکھا اور انسان کو یاد دلایا کہ وہ مٹی کا ذرہ نہیں بلکہ نور کا خزینہ ہے۔ انہوں نے بتا دیا کہ آزادی فقط سیاسی نہیں بلکہ روحانی بھی ہونی چاہیے اور روحانی آزادی خودی کے بغیر ممکن نہیں۔

"جاوید نامہ" ایک ایسا نصاب ہے جو ہر سنجیدہ قاری کو خودی، عشق، فکر اور وجدان کی زبان سکھاتا ہے۔ اس کے اشعار دل کو جھنجھوڑتے ہیں، ذہن کو جگاتے ہیں اور روح کو جلا بخشتے ہیں۔ یہ کتاب آج بھی زندہ ہے، کیونکہ اس کا پیغام ابدی ہے۔ ہر وہ شخص جو زندگی کے اسرار کو سمجھنا چاہے، جو اپنے وجود کی معنویت تلاش کرے، جو دنیا میں رہ کر آخرت کے رازوں سے پردہ اٹھانا چاہے، وہ "جاوید نامہ" کا مسافر بن سکتا ہے۔

اقبال کا یہ سفر ختم نہیں ہوتا، کیونکہ ہر قاری جب اس کتاب کو کھولتا ہے تو ایک نیا سفر شروع کرتا ہے، ایک ایسا سفر جو صرف فضا میں نہیں بلکہ دل کے نہاں خانوں میں جاری ہوتا ہے اور یہی "جاوید نامہ" کا کمال ہے: ایک مثنوی جو خواب میں لکھی گئی، لیکن ہر جاگتے دل کو بیدار کر سکتی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan