Javed Chaudhry Aur Zero Point, Kisi Akhbar Ke Nahi, Akhbar Unke Mohtaj Hain
جاوید چودھری اور "زیرو پوائنٹ"، کسی اخبار کے نہیں، اخبار ان کے محتاج ہیں

جب پاکستانی صحافت کی تاریخ لکھی جائے گی تو جاوید چودھری کا نام اس کے اُن اوراق پر جگمگائے گا جہاں حرف کو ضمیر کی آگ سے سینچا گیا، جہاں لفظ محض بیان کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرتی اصلاح کا ہتھیار بن گیا۔ وہ ان صحافیوں میں سے ہیں جنہوں نے قلم کو صرف خبروں یا تبصروں کے لیے نہیں، بلکہ انسان کی باطنی دنیا میں جھانکنے کے لیے استعمال کیا۔ ان کا کالم ایک ایسی کھڑکی ہے جس سے قاری خود کو دیکھتا ہے، اپنی کمزوریوں کو پہچانتا ہے اور اپنی گمشدہ قوتوں کو ڈھونڈتا ہے۔ وہ قاری کو مایوسی سے نہیں امید سے جوڑتے ہیں اور یہی ان کی تحریروں کا سب سے نمایاں وصف ہے۔
جاوید چودھری کے اسلوب میں کہانی کی وہ چاشنی ہے جو بظاہر سادہ لگتی ہے مگر اپنے اندر گہری معنویت رکھتی ہے۔ وہ کسی واقعاتی یا روزمرہ قصے سے آغاز کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اسے انسانی زندگی، اخلاقیات اور معاشرتی شعور کے وسیع دائرے تک پھیلا دیتے ہیں۔ قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی خبر نہیں بلکہ زندگی کے کسی سبق کو پڑھ رہا ہے۔ یہی ان کا کمال ہے کہ وہ عام سے واقعے میں غیر معمولی پیغام ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ان کی تحریر میں اشفاق احمد کی دانائی، بانو قدسیہ کی نرمی اور قدرت اللہ شہاب کی سچائی کی خوشبو ملتی ہے۔ وہ کہانی سنانے والے صحافی نہیں، بلکہ سچائی سنانے والے قصہ گو ہیں۔
ان کے کالم "زیرو پوائنٹ" نے اردو صحافت میں ایک نئی صنف متعارف کرائی۔ پہلے کالم سیاست یا معیشت کے اعداد و شمار پر مبنی ہوا کرتے تھے، مگر جاوید چودھری نے اس قالب کو توڑ دیا۔ انہوں نے کالم کو سوچ کا سفر بنا دیا۔ "زیرو پوائنٹ" دراصل ایک علامت ہے، جہاں سے انسان دوبارہ جنم لیتا ہے۔ وہ قاری سے کہتے ہیں کہ اگر تم گر جاؤ تو رکو نہیں، صفر پر آؤ اور دوبارہ آغاز کرو۔ یہ فلسفہ اُن کے کئی کالموں میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ انسان کو اس کے زخم دکھا کر انہیں مرہم دینا جانتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں عجز ہے مگر کمزوری نہیں، محبت ہے مگر مصلحت نہیں، تنقید ہے مگر تلخی نہیں۔ وہ دل میں اترنے کا ہنر جانتے ہیں اور یہی ہنر انہیں لاکھوں قارئین کا محبوب بناتا ہے۔
"قبر کی دیوار" ان کے روحانی رجحان کا آئینہ دار ہے۔ اس کالم میں وہ موت کے سامنے انسان کی بے بسی بیان کرتے ہیں۔ ان کی تحریر قاری کے دل میں جھانکتی ہے اور اس کے اندر ایک عجیب سی خاموشی اتارتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت موت نہیں بلکہ فنا کا شعور ہے۔ انسان جب یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ عارضی ہے تو اس کے رویّے، اس کی ترجیحات، اس کی خواہشیں بدل جاتی ہیں۔ وہ دنیا کے پیچھے بھاگنے کے بجائے دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جاوید چودھری کے نزدیک اصل کامیابی یہ نہیں کہ انسان کتنا حاصل کرتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ کتنا بانٹتا ہے۔
اسی فلسفے کی جھلک ان کے کالم "خدا کہاں رہتا ہے؟" میں ملتی ہے۔ وہ ایک فقیر کے قول سے پوری زندگی کا سبق اخذ کرتے ہیں کہ "خدا وہاں رہتا ہے جہاں انسان دوسروں کے لیے فائدہ بن جائے"۔ یہ سطر ان کے پورے فکری سفر کا نچوڑ ہے۔ ان کی تحریر انسان کو مذہب کے رسمی خول سے نکال کر روح کی اصل کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ عبادت کو نیت سے جوڑتے ہیں، عمل سے نہیں۔ ان کے نزدیک ایمان وہ نہیں جو زبانی اقرار سے قائم ہو بلکہ وہ ہے جو خدمت سے ظاہر ہو۔ ان کے کالم قاری کے ذہن میں سوال چھوڑتے ہیں، جواب نہیں اور یہی اصل دانشوری ہے کہ قاری سوچنے پر مجبور ہو جائے۔
جاوید چودھری کا ایک اور پہلو ان کی عملی دانش ہے۔ ان کے کالم "کامیابی کے اصول" میں وہ زندگی کو ریاضی کے فارمولوں میں نہیں بلکہ تجربے کی روشنی میں سمجھاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کامیابی قسمت نہیں نظم و ضبط کا نتیجہ ہے۔ ان کے نزدیک وقت کی پابندی، وعدے کی پاسداری اور خود پر ایمان، کامیابی کے تین بنیادی اصول ہیں۔ وہ نوجوانوں سے براہِ راست بات کرتے ہیں، ان کے ذہن میں امید کی چنگاری جلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہزاروں قارئین محض شائقین نہیں بلکہ شاگردوں کی طرح ان کے کالم پڑھتے ہیں۔ وہ ان کے لیے رہنما، مشیر اور استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔
ان کی ایک مشہور تحریر "ہم سب مجرم ہیں" سماجی احتساب کا آئینہ ہے۔ وہ بڑے نرم مگر ٹھوس لہجے میں کہتے ہیں کہ جن برائیوں پر ہم اپنے حکمرانوں کو کوستے ہیں، وہ سب ہمارے اندر موجود ہیں۔ ہم رشوت دیتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، قانون توڑتے ہیں اور پھر انہی رویّوں کو دوسروں میں دیکھ کر چیختے ہیں۔ جاوید چودھری دراصل قاری کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ معاشرہ کوئی بیرونی شے نہیں، یہ ہم سب کا اجتماعی عکس ہے۔ اگر ہم بدل جائیں تو نظام بدل جائے گا۔ ان کا یہ پیغام سادہ مگر انقلابی ہے۔ وہ بغاوت نہیں سکھاتے، اصلاح سکھاتے ہیں۔
جاوید چودھری کی تحریر کی سب سے بڑی طاقت اس کی سچائی ہے۔ وہ قاری سے اوپر نہیں بولتے، اس کے برابر بولتے ہیں۔ وہ واعظ نہیں بنتے بلکہ ہمسفر بن کر بات کرتے ہیں۔ ان کی زبان سادہ مگر جاندار ہے، وہ فلسفے کو مثال میں اور اخلاقیات کو واقعے میں بدل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کالم عام قاری کو بھی متاثر کرتے ہیں اور دانشور کو بھی سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ کہانی سنانے کے دوران قاری کے شعور میں داخل ہو جاتے ہیں اور اسے بدل کر رکھ دیتے ہیں۔
بطور انسان ان میں عاجزی، شکر اور قناعت کا رنگ نمایاں ہے۔ وہ اپنی زندگی کو کامیابی کی بجائے خدمت کا سفر سمجھتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں انا نہیں، شکر کا لہجہ ہے۔ وہ ہر اس شخص کے لیے احترام رکھتے ہیں جو اپنے حصے کی نیکی ادا کر رہا ہو۔ ان کا باطنی سکون ان کے الفاظ میں جھلکتا ہے۔ یہی ان کی مقبولیت کا راز ہے کہ وہ خود بھی وہی جیتے ہیں جو لکھتے ہیں۔
البتہ بعض ناقدین انہیں "پاپولر جرنلسٹ" قرار دیتے ہیں، یعنی ان کی تحریریں علمی گہرائی کے بجائے عوامی ذوق کے مطابق زیادہ ہوتی ہیں۔ لیکن یہ دراصل ان کا کمال ہے کہ وہ فلسفے کو اتنا سادہ کر دیتے ہیں کہ عام آدمی بھی اسے سمجھ لے۔ اردو صحافت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ یا تو وہ بہت سطحی ہوتی ہے یا حد سے زیادہ علمی، جاوید چودھری نے ان دونوں کے درمیان ایک سنہری راستہ نکالا۔ وہ نہ تو روایتی تجزیہ نگار ہیں اور نہ صرف کہانی کار، بلکہ وہ ایک "فکری پُل" ہیں جو علم کو تجربے سے اور فلسفے کو زندگی سے جوڑتا ہے۔
ان کا قلم اگر سیاست پر چلتا ہے تو وہ بھی اخلاقیات کے زاویے سے۔ وہ کبھی کسی فرد یا جماعت کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ نظام اور رویے پر بات کرتے ہیں۔ ان کی تحریر میں تلخی نہیں بلکہ سچائی کی حرارت ہوتی ہے۔ وہ قاری کے دل کو زخمی نہیں کرتے بلکہ اس کے اندر احساس جگاتے ہیں۔ یہی صحافت کی اصل روح ہے کہ لفظ زخم نہ دے، ضمیر کو جگائے۔
جاوید چودھری کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو کالم کو "فکری نثر" کی صورت دی۔ ان کی تحریریں نصاب کا حصہ نہ سہی مگر شعور کا حصہ ضرور بن چکی ہیں۔ انہوں نے لفظ کو اخلاقی تربیت کا ذریعہ بنایا۔ ان کے کالم پڑھنے والا صرف معلومات حاصل نہیں کرتا، بلکہ اپنی زندگی پر غور کرنے لگتا ہے۔ یہی کسی بڑے لکھاری کی پہچان ہے۔
اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جاوید چودھری ہمارے عہد کے اُن لکھنے والوں میں سے ہیں جنہوں نے حرف کو حرمت دی، سچ کو وقار دیا اور قاری کو خودی کا احساس دلایا۔ وہ کامیابی کو دولت میں نہیں، کردار میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اصل طاقت وہ ہے جو انسان کو دوسروں کے لیے فائدہ مند بنائے۔ ان کے کالم کسی مذہب، نظریے یا سیاسی وابستگی کے تابع نہیں بلکہ انسانیت کے تابع ہیں۔ وہ انسان کے اندر کی روشنی کو جگانے والے صحافی ہیں، جو یاد دلاتے ہیں کہ زندگی کی اصل عظمت اختیار میں نہیں بلکہ کردار میں ہے۔
ان کا سفر شاید کسی ایک اخبار، ایک چینل سے شروع ہوا ہو مگر وہ اب کسی ادارے کے نہیں، ایک عہد کے نمائندہ ہیں۔ ان کا قلم پاکستانی سماج کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے اور وہ اس نبض کے ہر دھڑکن سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ قومیں خوابوں سے نہیں کردار سے بنتی ہیں اور جاوید چودھری نے اپنی تحریروں سے کردار کی وہ راہ دکھائی ہے جو اندھیروں میں بھی روشنی دیتی ہے۔ ان کے قلم کی روشنی بجھتی نہیں، بلکہ ہر نئے دن کے ساتھ نئی شدت سے جل اٹھتی ہے۔ یہی ان کی اصل شناخت ہے۔ ایک ایسا قلم جو نرم بھی ہے، مگر اس کی نرمی میں فکر کی شدت چھپی ہے۔

