Javed Chaudhry Aur Kal Tak, Kisi Channel Ke Nahi, Channel Unke Mohtaj Hain
جاوید چودھری اور "کل تک"، کسی چینل کے نہیں، چینل ان کے محتاج ہیں

جاوید چودھری کا پروگرام "کل تک" محض ایک ٹیلی وژن شو نہیں، بلکہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جس نے صحافت کو محض خبر سنانے سے اٹھا کر سوچنے، سمجھنے اور جواب مانگنے کا ہنر سکھایا۔ "کل تک" ایک سوالیہ نشان تھا، جو ہر ہفتے عوام کے ضمیر کے دروازے پر دستک دیتا تھا۔ اس پروگرام کی روح وہی جاوید چودھری کی نثر تھی جو ان کے کالموں میں بہتی تھی، شائستہ، مدلل، متوازن مگر چبھتی ہوئی۔ ان کا انداز گفتگو ایسا کہ نہ چیخ و پکار، نہ جذباتی ہنگامہ، نہ رائے کا استبداد، بلکہ علم، استدلال اور اخلاق کا امتزاج۔ "کل تک" دراصل ایک فکری درس گاہ تھی، جہاں ہر نیا پروگرام ناظر کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا تھا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں جانا کہاں ہے۔
جاوید چودھری کی گفتگو میں ہمیشہ ایک ترتیب، ایک تعمیر اور ایک تہذیب پائی جاتی تھی۔ وہ سوال کرتے تھے، لیکن سوال کے پیچھے نیت الزام نہیں ہوتی تھی بلکہ فہم اور وضاحت ہوتی تھی۔ "کل تک" کے میزبان نے کبھی خود کو عقلِ کل نہیں سمجھا، بلکہ وہ ہمیشہ سننے اور سمجھنے والا انسان بنے رہے۔ ان کے شو میں سیاست دان، عالم، بیوروکریٹ، مفکر، مذہبی رہنما اور کبھی عام لوگ بھی آتے تھے۔ مگر جو چیز مشترک تھی، وہ جاوید چودھری کا طرزِ سوال تھا۔ نرم مگر ناگوار، مؤدب مگر بے لچک اور سب سے بڑھ کر حقیقت تک پہنچنے کا تجسس۔ وہ کسی کو شرمندہ نہیں کرتے تھے، مگر سچ چھپنے نہیں دیتے تھے۔ یہی ان کی اصل طاقت تھی۔
"کل تک" کی ساخت میں وہ وقار اور سنجیدگی ہمیشہ نمایاں رہی جو آج کے بیشتر پروگراموں سے غائب ہے۔ یہ شور کے دور میں سکون کی صدا تھا۔ جب باقی اینکرز ریٹنگ کی دوڑ میں چیختے، تو جاوید چودھری خاموشی سے دلائل کے ساتھ اپنا مقدمہ رکھتے۔ ان کا ہر سوال سماعت میں خراش نہیں بلکہ بیداری پیدا کرتا۔ ان کی زبان میں تہذیب تھی اور یہی تہذیب "کل تک" کو باقی تمام سیاسی مباحثوں سے ممتاز بناتی تھی۔ ناظر جانتے تھے کہ یہاں انہیں چیخنے والے سیاستدان نہیں، سوچنے والے انسان ملیں گے۔ یہاں الفاظ کا وزن ہے، جملوں کی حرمت ہے اور بات میں دلیل ہے۔
جاوید چودھری کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ وہ ٹی وی کی چمک دمک میں بھی اپنی تحریری ساکھ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ان کے کالم اور پروگرام ایک ہی روح کے دو مظاہر تھے۔ ان کی گفتگو وہی نثر بن جاتی تھی جو کاغذ پر بہتی تھی۔ متوازن، غیرجانبدار، مگر کڑی سچائی سے لبریز۔ "کل تک" کے ناظرین کو اندازہ ہوتا کہ یہ پروگرام کسی ایجنڈے یا ذاتی مفاد کے تابع نہیں بلکہ اجتماعی شعور کی بیداری کے لیے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ عام پاکستانی، دانشور طبقہ اور سیاسی کارکن سب اس پروگرام کو سنجیدگی سے لیتے تھے۔
جاوید چودھری کے اس پروگرام میں وقت کے بڑے موضوعات زیرِ بحث آتے۔ سیاست، معیشت، عدلیہ، خارجہ پالیسی، مذہب، سماج، تعلیم اور انسانی رویے۔ مگر ہر موضوع پر وہ زاویہ اپناتے جو کسی اور کے ذہن میں نہیں آتا تھا۔ وہ ہمیشہ سوال کو انجام تک لے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سوال صرف مہمانوں کے لیے نہیں ہوتے تھے بلکہ ناظر کے دل و دماغ کے لیے ہوتے تھے۔ "کل تک" میں گفتگو ختم نہیں ہوتی تھی، بلکہ آغاز لیتی تھی۔ ہر قسط کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں نئی بحثیں جنم لیتی تھیں۔ یہی کسی بھی سنجیدہ پروگرام کی کامیابی ہے کہ وہ سوچنے پر مجبور کرے اور "کل تک" نے یہ کام برسوں تک بڑی کامیابی سے کیا۔
ایک اور نمایاں پہلو ان کا اخلاقی توازن تھا۔ وہ اختلاف کو دشمنی میں نہیں بدلنے دیتے تھے۔ ان کے شو میں مہمان ایک دوسرے سے متفق نہ بھی ہوں تو احترام کی فضا قائم رہتی تھی۔ یہ ان کے مزاج اور تربیت کا نتیجہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ صحافت کی اصل روح سوال اٹھانا ہے، شور مچانا نہیں۔ اسی لیے "کل تک" دیکھنے والے ناظرین کو ایک وقار کا احساس ہوتا تھا۔ انہیں محسوس ہوتا تھا کہ ٹی وی کی اسکرین پر علم اور شائستگی ایک ساتھ موجود ہیں۔
جاوید چودھری نے اس پروگرام کو صرف خبر کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ تربیت کا وسیلہ بنا دیا۔ وہ نوجوانوں کو بتاتے تھے کہ بحث جیتنے کے لیے نہیں، سچ جاننے کے لیے کی جاتی ہے۔ ان کے پروگرام کے نام میں "کل" دراصل ایک امید کا استعارہ تھا۔ آج کے تضادوں سے نکل کر کل کی بہتری کی تلاش۔ وہ ہر ہفتے ناظر سے یہی کہتے دکھائی دیتے تھے کہ اگر ہم نے آج سوچا نہیں، تو کل ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یہی پیغام اس پروگرام کی فکری بنیاد تھا۔
"کل تک" کے ایک پہلو کو اکثر ناظرین کم سمجھ پاتے ہیں۔ وہ یہ کہ جاوید چودھری نے اسے اپنی ذات کے پرچار کے لیے نہیں، بلکہ علم اور شعور کے پرچار کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے کبھی اپنے شو میں چیخ کر توجہ نہیں حاصل کی۔ ان کے لیے سنجیدگی ہی سب سے بڑی کشش تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اینکر پرسنز کی بھیڑ میں الگ پہچانے گئے۔ ان کے پروگرام کی ساکھ علم، وقار اور دیانت سے جڑی رہی۔ وہ اپنے ہر لفظ کے ذمہ دار رہے اور یہی ان کی سب سے بڑی پیشہ ورانہ خوبی تھی۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ "کل تک" نے پاکستانی صحافت کو ایک نیا معیار دیا۔ اس نے ثابت کیا کہ ٹی وی پر کامیاب ہونا صرف شور مچانے سے ممکن نہیں، بلکہ اعتماد، علم اور وقار کے ساتھ بھی آپ عوام کے دل جیت سکتے ہیں۔ اس شو نے ان نوجوانوں کو صحافت کی طرف متوجہ کیا جو سوچتے تھے کہ سچائی بولنے کا کوئی پلیٹ فارم نہیں بچا۔ جاوید چودھری نے دکھایا کہ اگر نیت خالص ہو تو میڈیا کو بھی عبادت میں بدلا جا سکتا ہے۔
اور شاید یہی سچائی تھی جس نے آخرکار ان کے پروگرام کو تنازعات کی زد میں بھی لایا۔ سچائی ہمیشہ طاقتوروں کے لیے خطرہ بنتی ہے۔ جب کوئی اینکر سوالوں کو محض رسمی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں خطرناک بناتا ہے، تو نظام اسے زیادہ دیر برداشت نہیں کرتا۔ مگر تاریخ یہ فیصلہ ہمیشہ انصاف سے کرتی ہے۔ اس نے ماضی میں بھی شور مچانے والوں کو بھلا دیا اور وقار کے ساتھ بولنے والوں کو زندہ رکھا۔ جاوید چودھری ان زندہ آوازوں میں سے ایک ہیں جو وقتی دباؤ سے نہیں مٹتیں۔
"کل تک" کا اصل حسن یہ تھا کہ یہ پروگرام زمانے کے شور میں وقار کی ایک لکیر کھینچتا تھا۔ یہ صحافت کا وہ چہرہ دکھاتا تھا جو نہ خریدا جا سکتا ہے نہ جھکایا جا سکتا ہے۔ جاوید چودھری نے اس کے ذریعے ایک پیغام دیا کہ سچائی کے لیے آپ کو اونچی آواز کی ضرورت نہیں، بس نیت کی سچائی کافی ہے۔ آج اگر وہ پروگرام بند بھی ہوگیا ہے تو اس کی روح ہر بیدار ذہن میں زندہ ہے۔ کیونکہ سوال کبھی مرتے نہیں، صرف سننے والے بدل جاتے ہیں۔ "کل تک" ختم نہیں ہوا، بلکہ ایک نئے "کل" میں داخل ہوگیا ہے۔ جہاں جاوید چودھری پھر کسی اور شکل میں، کسی اور پلیٹ فارم پر، اپنے ناظرین کے سامنے سچ کا ایک نیا باب کھولیں گے۔
"کل تک" اس عہد کا عکس ہے جہاں سچ بولنا سب سے بڑی جرأت ہے۔ جاوید چودھری نے وہ جرأت کی، اس وقار کے ساتھ جو کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ان کی مسکراہٹ کے پیچھے ایک فکری عزم چھپا ہوتا ہے، ان کی خاموشی کے پیچھے ایک صدیوں پر محیط شعور اور ان کی گفتگو کے پیچھے وہ نیت جو صحافت کو عبادت میں بدل دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "کل تک" اب محض ایک پروگرام نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ نشان جو بتاتا ہے کہ سچ کہنے والے کبھی تنہا نہیں ہوتے، وہ تاریخ کے ہم سفر ہوتے ہیں۔ "کل تک" ختم نہیں ہوا۔ یہ صرف ایک وقفہ ہے، اگلی صدی کے لیے سانس لینے کا۔

