Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Jahan e Hairat, Taqat, Siasat Aur Sachai Ka Aaina

Jahan e Hairat, Taqat, Siasat Aur Sachai Ka Aaina

جہانِ حیرت: طاقت، سیاست اور سچائی کا آئینہ

زندگی کبھی کبھی ایسی کتابیں ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے جو محض کاغذ پر چھپے ہوئے الفاظ نہیں ہوتیں بلکہ پورے عہد کا نوحہ اور آنے والے کل کی تنبیہہ بن جاتی ہیں۔ سردار محمد چوہدری کی خودنوشت "جہانِ حیرت" بھی ایک ایسی ہی تحریر ہے۔ یہ کتاب محض ایک پولیس افسر کے تجربات کا بیان نہیں بلکہ طاقت، سیاست اور معاشرتی اقدار کی اس کشمکش کا آئینہ ہے جس میں ہماری قوم دہائیوں سے الجھی ہوئی ہے۔ چوہدری صاحب نے اپنے بچپن، جوانی اور پولیس سروس کے ابتدائی ایام سے کہانی کا آغاز کیا اور پھر ہمیں ایوانِ اقتدار کے ان بند دروازوں تک لے گئے جہاں فیصلے ہوتے ہیں، تقدیریں لکھی جاتی ہیں اور کبھی کبھی قوموں کی زندگیوں کے دھارے بدل دیے جاتے ہیں۔ ان کا بیان رواں بھی ہے اور بے لاگ بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے قاری کو بار بار چونکاتے ہیں کہ طاقت کے کھیل کی حقیقتیں کتنی تلخ اور کتنی عریاں ہیں۔

یہ داستان ایک ایسے بچے سے شروع ہوتی ہے جو ایک عام گھرانے میں پروان چڑھتا ہے۔ تعلیم حاصل کرتا ہے، خواب دیکھتا ہے اور ایک دن یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اپنی زندگی کو محض معمولی ملازمت تک محدود نہیں رکھنا بلکہ ایک بڑے مقصد کے ساتھ جوڑنا ہے۔ پولیس میں قدم رکھتے ہی اس نے دیکھا کہ یہاں قانون کی پاسبانی سے زیادہ دباؤ، تعلقات اور طاقت کے کھیل کارفرما ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک نوجوان افسر نے طے کیا کہ اگرچہ راستہ کٹھن ہے، لیکن سچائی اور ایمانداری کو اپنی ڈھال بنائے بغیر اس جنگل میں زندہ رہنا ممکن نہیں اور یہی وہ ڈھال تھی جس نے انہیں کیریئر کے نشیب و فراز میں بار بار بچایا بھی اور آزمائش میں بھی ڈالا۔

وقت گزرتا گیا اور وہ طاقت کے ان ایوانوں کے قریب پہنچ گئے جہاں اصل کھیل کھیلا جاتا ہے۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ سیاست دان اور بیوروکریسی کس طرح ایک دوسرے کے مفادات کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ وزرائے اعلیٰ، گورنرز اور صدر کے دربار میں وہ مناظر دیکھے جو عام آدمی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتے۔ ان ملاقاتوں اور تجربات نے ان پر یہ حقیقت آشکار کی کہ اقتدار ایک ایسا کھیل ہے جس میں اصول اکثر پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں اور انصاف وہ شے ہے جو سب سے پہلے قربان ہوتی ہے۔

کتاب کا سب سے سنسنی خیز حصہ جنرل یحییٰ خان کے عہد کی کہانی ہے۔ ایوانِ صدر کی فضائیں، گول میز کانفرنسیں اور مشرقی پاکستان کے سلگتے ہوئے مسائل، یہ سب چوہدری صاحب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح فوجی قیادت نے سیاسی بصیرت کی کمی سے ایسے فیصلے کیے جن کے نتیجے میں ایک ملک دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ انہوں نے دکھایا کہ طاقت اور شراب کا نشہ جب حکمرانوں کے سروں پر چڑھ جائے تو قوموں کی قسمتیں کس طرح برباد ہوتی ہیں۔ یہ باب محض ایک یادداشت نہیں بلکہ ایک پوری نسل کی ناکامی کا نوحہ ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں منظر بدلتا ہے۔ اسے کسی وجہ سے کچھ عوامی مقبولیت مل گئی۔ لیکن جب اقتدار ملا تو اسے ہضم نہ کر سکا۔ بیوروکریسی اور اداروں کے ساتھ اس کا رویہ بدل گیا۔ اصول پسندی اور انصاف پیچھے رہ گئے، طاقت اور ضد آگے آ گئی۔ قول و فعل کا تضاد کھل کر سامنے آ گیا۔ چوہدری صاحب بتاتے ہیں کہ کس طرح بھٹو نے کچھ بڑے فیصلے کیے، کامیابیاں سمیٹیں مگر ساتھ ہی ایسے زخم بھی دیے جو ریاست کے لیے دیرپا نقصان کا سبب بنے۔ یہ حصہ قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ بڑے لیڈر بھی اگر خود احتسابی سے خالی ہو جائیں تو ان کے قدم قوم کو کھائی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔

پھر آتا ہے جنرل ضیاء الحق کا دور، جو مذہب اور سیاست کے امتزاج سے بھرپور تھا۔ مارشل لاء اور اسلامائزیشن کے نام پر اداروں کو جس طرح جکڑا گیا، اس کا اثر ہر سطح پر محسوس ہوا۔ چوہدری صاحب اس دور کو ایک ایسی کالی رات قرار دیتے ہیں جس میں بیوروکریسی اور پولیس محض فوجی حکم ناموں کی پابند ہوگئی۔ اختلاف رائے دب گیا اور مذہب کو طاقت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ باب بتاتا ہے کہ جبر کبھی بھی دیرپا سکون نہیں دیتا، وہ صرف وقتی خوف پیدا کرتا ہے جو آخرکار نفرت میں بدل جاتا ہے۔

لیکن ضیاء دور میں کچھ شاندار اور تاریخی کام بھی ہوئے جنہیں سردار صاحب سمیت سب اپنے تعصابات کی نظر کر دیتے ہیں۔ یہ ضیاء دور ہی تھا جس میں عام استعمال کی چیزوں کو کوٹہ کے آہنی خول سے نکال کر کھلی مارکیٹ میں عوام تک لایا گیا۔ چینی جسے آج ہم زہر قرار دے رہے ہیں یہ ایک سٹیٹس سمبل اور پروردگار کی سب سے عظیم نعمت ہوا کرتی تھی اور صرف کچھ امیر زادوں کو میسر تھی اور غریب کے لیے اس کا مخصوص ماہانہ کوٹہ ہوا کرتا تھا جس کے کچھ چُلو وہ ہر ماہ گرمی و سردی میں قطار میں لگ کر وصول کرتا۔ ضیاء دور میں یہ ہر خاص و عام کے لیے کھلے بازار میں ملنا شروع ہوئی۔

پھر ملکی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ فوج مضبوط ہوئی۔ اس کے اندر سے قبیح غیر اسلامی روایات کی بیخ کنی ہوئی اور یہ دنیا کی بہترین فوج بنی۔ جس نے چند ماہ پہلے اپنے سے سو گنا بڑے ایک عسکری و معاشی ناسور کو ایسی دھول چٹائی جس کی مثال کی تلاش جاری ہے لیکن ابھی ملی نہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد ہمیں ایک بار پھر احساس کمتری کا شکار کرنے کے لیے گھڑ لی جائے اور ہم اسے من عن تسلیم بھی کر لیں۔

پھر ضیاء صاحب نے کچھ اچھے اور شاندار لوگ سیاست میں متعارف کرائے جنہوں نے آگے چل کر اس ملک کی کایا پلٹ دی۔ موٹر ویز بنائے، بہترین اور تیز گام ٹرانسپورٹ مہیا کی، تعلیم اچھی کی، صحت کے میدان میں بہت اچھے اضافے کیے۔ لیکن نہ جانے کیوں ہم انہیں بیان کرنے سے کتراتے ہیں۔

جمہوری دور کے دعوے کے ساتھ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اقتدار میں آئے، مگر یہاں کہانی مزید الجھ گئی۔ دونوں رہنما ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے، سیاسی انتقام نے اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پولیس اور بیوروکریسی بار بار سیاسی لڑائیوں کا میدان بنی۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب جمہوریت اپنی اصل روح کھو بیٹھی تھی۔ عوام کو ریلیف ملنے کے بجائے ادارے کمزور ہوئے اور سیاسی دشمنیوں نے پورے معاشرے کو تقسیم کر دیا۔

لیکن سردار صاحب یہ بتانے سے قاصر رہے کہ بے نظیر اور نواز شریف میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ایک نے شیر شاہ سوری کی یاد تازہ کی اور اس ملک کو تمام تر بے نظیری رکاوٹوں اور لڑائیوں کے باوجود بہترین روڈ نیٹ ورک اور سپر سانک ٹرانسپورٹ مہیا کی۔ عام لوگوں کے لیے تعلیم، صحت، روزگار اور اچھی خوشحال زندگی کے بے پناہ مواقع پیدا کیے۔ لیکن سردار صاحب کی نگاہِ تیز اسے دیکھنے سے بھی قاصر رہی۔ افسوس ان کی عقابی نگاہیں نواز شریف اور بے نظیر میں درست موازنہ کرنے سے محروم رہیں۔

کتاب کا سب سے حیران کن اور چونکانے والا حصہ جنرل رانی یعنی اقلیم اختر رانی کی کہانی ہے۔ ایک عورت کس طرح طاقت کے ایوانوں میں غیر رسمی مگر فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے، یہ سن کر قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ جنرل رانی کے تعلقات، ان کا اثر و رسوخ اور اقتدار کے دروازوں پر ان کا غیر مرئی کنٹرول اس بات کا ثبوت ہے کہ طاقت ہمیشہ ظاہری عہدوں سے نہیں آتی بلکہ کبھی کبھی ذاتی تعلقات اور خفیہ رشتے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ یہ حصہ اقتدار کے ان پہلوؤں کو بے نقاب کرتا ہے جو عام طور پر تاریخ کی کتابوں میں نظر نہیں آتے۔

نہ جانے کیوں ہم ہمیشہ اپنے معاشرے کے رخِ زیبا کا سیاہ پہلو ہی پیش کرکے اور پڑھ کے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ روشن پہلو سیاہ پہلو سے کہیں نمایاں ہے۔ افسوس سردار صاحب بھی روشن چہرے پر موجود کچھ چھائیاں ہی دکھانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ سردار صاحب یہ جس کردار کا آپ نے ذکر فرمایا ہے ایسے کردار ہر دور میں ہر ایوان اقتدار، حکماء اور شہنشاہوں کا اٹوٹ حصہ رہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ شاید تاریخ کا یہ غیر روشن حصہ بھی آپ کی عقابی نگاہ سے اوجھل رہا۔ لیکن اپنے معاشرے کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا سیاہ داغ بھی اس شاہین کی نگاہ دوربین کی گرفت سے نہ بچ سکا۔

کس ایوان اقتدار میں جنرل رانی کا کردار شامل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں جنرل رانی کے کردار کو جائز تسلیم کر لیا جائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کردار ہر اقتدار کا حصہ ہے۔ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لوگ اپنے معاشرے کے کھمبوں کی ٹمٹماتی بتیوں سے روشنی وصول کرکے اور بیان کرکے تاریخ رقم کر جاتے ہیں اور اپنے ملکوں اور معاشروں کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر جاتے ہیں۔ اندھیری گلیاں دکھا کر راتوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے لیے نہیں چھوڑ جاتے۔

اپنے ذاتی سفر میں سردار محمد چوہدری کو بار بار تبادلوں، ترقیوں اور کبھی تنزلی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایمانداری کا بوجھ اکثر مہنگا پڑتا ہے۔ دوست کم اور دشمن زیادہ بن جاتے ہیں۔ لیکن آخرکار یہی اصول اور یہی سچائی سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ وہ دکھاتے ہیں کہ نوکری ختم ہو سکتی ہے، عہدہ چھن سکتا ہے، مگر اگر انسان نے اصولوں پر سودا نہ کیا ہو تو وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔

کتاب کے آخری ابواب میں وہ پوری قوم کے لیے آئینہ تھام دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہماری اصل بیماری کرپشن، مفاد پرستی اور خودغرضی ہے۔ ہم نے نظریہ پاکستان کو پسِ پشت ڈال دیا ہے، قائداعظم اور علامہ اقبال کے خواب کو بھلا دیا ہے۔ قراردادِ مقاصد اور آئینی اصول محض کتابوں میں رہ گئے ہیں۔ جب قوم اپنے اصول کھو دے تو پھر ادارے کھوکھلے ہو جاتے ہیں اور معاشرہ بکھر جاتا ہے۔ یہ تلخ سچائی ہمیں اپنے حال اور مستقبل دونوں پر نظر ڈالنے پر مجبور کرتی ہے۔

آخر میں چوہدری صاحب اپنے تجربات کا حاصل بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طاقت عارضی ہے، عہدے اور منصب بدل جاتے ہیں، مگر کردار ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ انسان کی اصل پہچان اس کی ایمانداری اور سچائی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی تاریخ سے سبق نہ سیکھے تو وہ بار بار وہی غلطیاں دہراتی ہے۔ ان کا پیغام سادہ مگر گہرا ہے۔ ہمیں ماضی کو یاد رکھ کر حال کو درست کرنا ہے، ورنہ مستقبل بھی انہی اندھیروں کا اسیر رہے گا۔

"جہانِ حیرت" محض ایک خودنوشت نہیں بلکہ ایک پورے عہد کی تاریخ ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر قاری کو اندازہ ہوتا ہے کہ اقتدار کی چمک دمک کے پیچھے کتنی سچائیاں دفن ہیں اور کس طرح ایک فرد کی ایمانداری یا بددیانتی پورے معاشرے پر اثر ڈال سکتی ہے۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ اصول پرستی آسان نہیں، مگر یہی راستہ ہے جو انسان کو سکون دیتا ہے۔ سردار محمد چوہدری نے اپنے تجربات سے یہ سبق دیا ہے کہ اگر ہم بطور قوم اپنی اصلاح نہ کریں تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور اگر ہم نے سچائی اور انصاف کو تھام لیا تو یہی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan