Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Iqbal Ki Farsi Shayari, Zaboor e Ajam

Iqbal Ki Farsi Shayari, Zaboor e Ajam

اقبال کی فارسی شاعری، زبورِ عجم

علامہ اقبال کی شاعری میں روحانی گہرائی، فکری بلندی اور قلبی سچائیوں کی ایک ایسی آمیزش ملتی ہے جو اردو ادب میں کم نظیر رکھتی ہے۔ ان کی ہر کتاب ایک جہانِ تازہ کا دروازہ کھولتی ہے اور جب بات زبورِ عجم کی ہو، جو 1927 میں منظرِ عام پر آئی، تو یہ کتاب نہ صرف ان کی فکری پختگی کا مظہر ہے بلکہ اس میں اُن کے باطنی سفر کی ایک ایسی جھلک ملتی ہے جو قاری کو اپنے وجود کی تہوں میں جھانکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ کتاب گو فارسی میں ہے، مگر اس کی روح ایسی ہے کہ وہ ہر زبان، ہر دل اور ہر سوچ سے ہم کلام ہو سکتی ہے۔ یہ وہ کلام ہے جسے پڑھتے ہوئے دل کی زمین ہلنے لگتی ہے، آنکھیں کچھ اور دیکھنے لگتی ہیں اور دماغ کسی اور سمت سفر پر نکل جاتا ہے۔

زبورِ عجم درحقیقت اقبال کا وہ اندرونی سفر ہے جو روح کی سطح سے نکل کر وجود کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ یہ کتاب اُن کا ایک باطنی مکالمہ ہے، جو نہ صرف خدا سے بلکہ خود سے بھی ہے۔ یہ وہ کلام ہے جہاں اقبال عقل سے آگے کی بات کرتے ہیں، جہاں فلسفہ رک جاتا ہے اور جہاں دل بولنے لگتا ہے۔ یہاں صوفیانہ تجربات کی ایسی نرماہٹ اور لطافت ہے جو کسی واعظ کی سختی یا فلسفی کی خشک بیانی سے آزاد ہے۔ اقبال یہاں خطیب نہیں، معلم نہیں، رہنما بھی نہیں، بلکہ ایک ایسا دردمند عاشق ہے جو زندگی، موت، خدا، انسان، روح، فطرت اور کائنات سے ہم کلام ہے۔ وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ اس گفتگو میں شامل کر لیتا ہے۔ یہ شرکت ابلاغی نہیں، قلبی ہے۔ یہاں الفاظ نہیں بولتے، بلکہ سکوت بولتا ہے، خامشی چیخ بنتی ہے اور ایک عام سا شعر کسی عمر بھر کی ریاضت کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

زبورِ عجم کی معنوی وسعت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اقبال اس وقت تصوف اور حکمت کے ایک ایسے سنگم پر کھڑے تھے جہاں انہوں نے نہ صرف مغربی فکر کو سمجھا تھا بلکہ مشرق کی روحانیات کو اپنے اندر جذب بھی کر چکے تھے۔ اس کتاب میں رومی کی محبت، حافظ کی لطافت، سعدی کی دانائی اور شیخ اکبر ابنِ عربی کی معرفت کی جھلک ایک ساتھ نظر آتی ہے، مگر ان سب کے باوجود اقبال کی اپنی ایک منفرد آواز ابھر کر سامنے آتی ہے۔ یہ آواز کوئی شور نہیں، بلکہ ایک ایسا خاموش اصرار ہے جو دل کی دیواریں چیر کر اندر داخل ہو جاتا ہے۔

اقبال کی شاعری میں ہمیشہ ایک خاص قسم کی "تکلیفِ شوق" رہی ہے، مگر زبورِ عجم میں یہ شوق ایک باطن کی آگ بن جاتا ہے۔ یہاں وہ انسان کو اُس کے خالق سے جوڑنے کی صرف تلقین نہیں کرتے، بلکہ اسے اُس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جہاں انسان کو اپنی اصلیت کا احساس ہو جائے۔ ان کی نظر میں انسان صرف ایک حیوانِ ناطق نہیں بلکہ ایک خوابیدہ نبی ہے، جو اپنی نبوت سے بے خبر ہے۔ وہ بار بار ہمیں جگانے کی کوشش کرتے ہیں، ہلا دیتے ہیں، جھنجھوڑ دیتے ہیں اور اس کوشش میں ان کے اشعار کہیں دعا بن جاتے ہیں اور کہیں نوحہ۔

اگرچہ زبورِ عجم میں روایتی صوفیانہ شاعری کی زبان اور طرز موجود ہے، لیکن اقبال کا اندازِ فکر اس سے کہیں آگے جاتا ہے۔ وہ وحدت الوجود کی وادی سے گزرتے ہیں، مگر وہاں ٹھہرنے کے قائل نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وحدت اگر حرکت سے خالی ہو جائے تو جمود بن جاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک تصوف صرف جذب کی کیفیت نہیں بلکہ عمل کی پکار ہے۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ اللہ کو پانے کے لیے صرف خانقاہ کافی نہیں، بلکہ میدانِ عمل میں کودنا بھی لازم ہے۔ ان کے نزدیک سچائی صرف احساس کا نام نہیں بلکہ وہ قوت ہے جو دنیا کو بدل سکتی ہے۔

زبورِ عجم میں انسان کے وجود کی معنویت، اُس کی باطنی طاقت اور اُس کی حقیقی منزل پر بے حد باریکی سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ انسان ایک ایسا آئینہ ہے جس میں خدا خود کو دیکھتا ہے، بشر ایک ایسا راز ہے جس میں الوہیت کی گونج چھپی ہے۔ مگر یہ گونج اُس وقت ظاہر ہوتی ہے جب انسان خود کو پہچان لے۔ یہ کتاب بار بار ہمیں یاد دلاتی ہے کہ "خودی" کو پہچاننا ہی سب سے بڑی عبادت ہے اور یہی پہچان انسان کو اسفل سے اعلیٰ، ذرے سے خورشید اور بندے سے خلیفہ بنا سکتی ہے۔

اس کتاب میں صوفیانہ تجربات صرف روحانی واردات نہیں بلکہ شعوری ارتقاء کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اقبال کے یہاں وجد میں گم ہونا کوئی مقصد نہیں، بلکہ وہ وجد جو عمل کی طرف لے جائے، وہی اصل وجد ہے۔ زبورِ عجم کے اشعار دل کو نرم کرتے ہیں مگر ساتھ ہی دماغ کو جگاتے بھی ہیں۔ یہ وہ شاعری ہے جو صرف رُلاتی نہیں، سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔

اقبال اس کتاب میں اپنے باطن کی اُس دنیا میں قاری کو لے جاتے ہیں جہاں وہ خود بھی ایک مسافر ہیں، ایک ایسا مسافر جو راہ بھی خود چنتا ہے اور منزل بھی خود بناتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ سچا صوفی وہ نہیں جو دنیا سے منہ موڑ لے، بلکہ وہ ہے جو دنیا میں رہ کر بھی اس کے رنگوں سے دھوکہ نہ کھائے۔ وہ فرماتے ہیں کہ عشق اگر بے عمل ہو تو فقط ایک خواب ہے اور عقل اگر بے عشق ہو تو فقط ایک جال۔ زبورِ عجم میں عشق اور عقل کا ایک ایسا امتزاج نظر آتا ہے جو اقبال کے فکری کمال کی دلیل ہے۔

یہ کتاب، درحقیقت ایک ایسا آئینہ ہے جس میں پڑھنے والا اپنی اصل کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کی روشنی میں وہ جان سکتا ہے کہ اُس کے اندر کتنی طاقت ہے اور اُسے کس طرف جانا ہے۔ یہ کتاب صوفیانہ اصطلاحات کی پیچیدگیوں میں نہیں الجھاتی بلکہ قاری کو سادگی سے اُس حقیقت تک لے جاتی ہے جس کی تلاش ہر دل میں کسی نہ کسی انداز میں جاری ہے۔

زبورِ عجم کا سب سے خوبصورت پہلو شاید یہ ہے کہ یہ کتاب صرف پڑھنے کے لیے نہیں، جینے کے لیے ہے۔ اس کے اشعار فقط صفحوں پر نہیں بلکہ دل کی دھڑکنوں میں لکھے جاتے ہیں۔ یہ وہ کلام ہے جو خاموش وقتوں میں بھی بولتا ہے اور تنہائی میں بھی رفاقت کا احساس دلاتا ہے۔ اقبال نے اس کتاب میں خودی کو ایک ایسی شمع کی مانند پیش کیا ہے جو اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کی طاقت رکھتی ہے، بشرطیکہ انسان اُس شعلے کو اپنے اندر محسوس کر لے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زبورِ عجم علامہ اقبال کا نہ صرف فکری و قلبی سفر ہے بلکہ ایک ایسا پیغام ہے جو ہر دور، ہر نسل اور ہر زبان کے لیے ہے۔ یہ صرف فارسی کے الفاظ میں لپٹی ایک شعری کتاب نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے، ایک دعوتِ نظر ہے، ایک دعوتِ بیداری ہے۔ اس کتاب کا ہر شعر، ہر مصرعہ، ایک صدا ہے، ایک چیخ ہے، ایک دعا ہے، ایک امید ہے۔ یہ وہ کلام ہے جسے پڑھ کر انسان صرف سوچتا نہیں بلکہ بدلنا شروع کر دیتا ہے۔

زندگی اگر صرف جینے کا نام ہوتی، تو شاید ہمیں اقبال جیسے شاعر کی ضرورت نہ ہوتی، مگر چونکہ زندگی ایک سفر ہے، ایک دریافت ہے، ایک تلاش ہے، اس لیے زبورِ عجم جیسے ہم سفر کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ صوفی ہونا ترکِ دنیا نہیں، بلکہ دنیا کو سمجھ کر خدا کو پانا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ دل کے سناٹے میں بھی خدا بولتا ہے اور خاموشی میں بھی ہدایت چھپی ہوتی ہے۔

علامہ اقبال نے زبورِ عجم میں جس حکمت، محبت، جستجو اور آگہی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ محض ایک شاعر کی کاوش نہیں بلکہ ایک درویش، ایک مفکر اور ایک عاشقِ حق کی گواہی ہے۔ یہ کلام صرف الفاظ نہیں بلکہ خواب ہیں، دعائیں ہیں، چراغ ہیں اور راہیں ہیں۔ پڑھنے والا اگر دل کے کان کھول لے تو یہ کلام اسے وہاں لے جا سکتا ہے جہاں نہ وقت کی حد ہے، نہ فاصلوں کا وہم، نہ خوف کی زنجیر۔ وہاں صرف ذات ہے، سچ ہے، خدا ہے اور بندہ، جو خود کو پہچان چکا ہے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail