Iqbal Ki Farsi Shayari, Khudi Se Bekhudi Tak
اقبال کی فارسی شاعری، خودی سے بیخودی تک

انسان اپنی ذات کی تلاش میں صدیوں سے سرگرداں ہے۔ کبھی وہ آسمانوں میں خدا ڈھونڈتا ہے، کبھی زمین پر طاقت، دولت، علم، یا فتوحات میں اپنی پہچان تلاش کرتا ہے۔ مگر خودی کا راز صرف یہ نہیں کہ آدمی اپنی انفرادیت کو پہچانے، بلکہ اس کا عروج تب ہے جب وہ اپنے آپ کو کسی اعلیٰ تر مقصد کے لیے وقف کر دے۔ یہی علامہ محمد اقبال کا پیغام ہے، جو انہوں نے "اسرارِ خودی" کے بعد اپنے دوسرے فارسی شاہکار "رموزِ بیخودی" میں قوم کے نام لکھا۔ یہ کتاب ایک چراغ ہے، جو تاریک راہوں میں بھٹکتے مسلمانوں کے ہاتھ میں تھما دیا گیا، کہ لو! اب خودی کو فنا کرکے بیخودی کی بستی میں قدم رکھو۔ خودی، جو فرد کی پہچان ہے، بیخودی، جو امت کا شعور ہے۔ خودی کی تلاش میں فرد جاگتا ہے، مگر بیخودی میں وہ بیداری دوسروں کے لیے روشنی بن جاتی ہے۔
رموزِ بیخودی علامہ اقبال کا وہ پیغام ہے جو دلوں کو جھنجھوڑتا ہے، آنکھوں کو نم کرتا ہے اور ذہن کو جھنجھلا کر نئی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ اقبال نے یہ کتاب 1918 میں لکھی، جب ملت اسلامیہ زوال کے گہرے غار میں گری ہوئی تھی۔ سلطنتِ عثمانیہ بکھر رہی تھی، برصغیر کے مسلمان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور قومیں "قومیت" کے نام پر ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ ایسے میں اقبال نے یہ صدا بلند کی کہ مسلمان کا رشتہ زمین، نسل یا زبان سے نہیں، بلکہ دین سے ہے۔ اسلام وہ وحدت ہے جس میں ہر رنگ، ہر نسل، ہر وطن کے لوگ ایک صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں، اگر وہ دل سے کلمہ پڑھ لیں۔
اقبال کا خیال ہے کہ جب تک فرد خودی کو پہچانتا ہے، وہ بیدار ہوتا ہے، مگر جب وہ اپنی ذات کو ملت کے لیے قربان کرتا ہے، تو وہ بیخودی کے درجے پر پہنچتا ہے۔ بیخودی، یعنی اپنے آپ کو امت کا حصہ سمجھنا۔ جیسے قطرہ دریا میں جا ملے اور پھر دریا کی موجوں میں اس کا رنگ، اس کی روانی اور اس کی قوت شامل ہو جائے۔ اسی لیے اقبال فرماتے ہیں کہ فرد کی نجات، اس کی ترقی، اس کی شناخت، صرف ملت کے ساتھ جڑ کر ممکن ہے۔ وہ فرد جو خود کو الگ سمجھتا ہے، وہ تنکا ہے، جو ہوا کے ایک جھونکے سے بکھر سکتا ہے۔ لیکن جو ملت سے جڑ جائے، وہ پہاڑ ہو جاتا ہے، جو طوفان کا بھی سامنا کر سکتا ہے۔
"رموزِ بیخودی" کا ایک بڑا پیغام یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ذات امت کا مرکز ہے۔ جس طرح کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے، ویسے ہی رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ ان کی فکری، اخلاقی، روحانی سمت کا قبلہ ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی وحدت اس وقت ممکن ہے جب وہ نبیﷺ کی اطاعت کو اپنی زندگی کا دستور بنا لیں۔ آج ہم قوم، فرقے، فقہے اور زبانوں میں بٹے ہوئے ہیں، مگر اقبال کی پکار یہ ہے کہ نبیﷺ کے قدموں میں ہی امت کی زنجیر ہے۔ وہی زنجیر جس میں امام حسینؓ نے اپنا خون شامل کرکے قیامت تک کے لیے ملت کا چراغ روشن کر دیا۔ حسینؓ کا انکار، صرف یزید کا انکار نہیں تھا، بلکہ ہر اس نظام کا انکار تھا جو ظلم، جبر اور باطل پر کھڑا ہو۔ یہی بیخودی کا اوج ہے، کہ انسان اپنے آپ کو حق کی راہ میں فنا کر دے، تاکہ حق باقی رہے۔
اقبال کی نگاہ میں شریعت صرف عبادات کا نظام نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو ملت کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اگر ملت کو جسم سمجھا جائے تو شریعت اس کی روح ہے۔ ایک جسم جس میں روح نہ ہو، وہ مردہ ہوتا ہے اور اقبال فرماتے ہیں کہ آج ہم نے روح کو چھوڑ کر صرف جسم بچانے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے دین کو مسجد تک محدود کر دیا، حالانکہ اسلام کا دائرہ معیشت، سیاست، عدل، تعلیم، تہذیب اور معاشرت سب پر محیط ہے۔ جب تک مسلمان شریعت کے نظام کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا حصہ نہیں بنائیں گے، ان کا اتحاد ممکن نہیں۔
"رموزِ بیخودی" ہمیں مغربی تہذیب کی چکاچوند سے ہوشیار کرتی ہے۔ اقبال مغرب کی ترقی، سائنسی ایجادات اور تنظیم کو سراہتے ضرور ہیں، مگر وہ مغربی "فرد پرستی" کے خلاف ہیں۔ مغرب نے انسان کو خدا سے الگ کرکے خود کو خدا بنا لیا ہے۔ اس نے عقل کو وحی پر ترجیح دی اور مادہ پرستی کو کامیابی کا پیمانہ بنایا۔ اقبال خبردار کرتے ہیں کہ اگر مسلمان مغرب کی اندھی تقلید کرتے رہے تو وہ اپنے اصل سے دور ہو جائیں گے۔ کیونکہ مغرب کے پاس ٹیکنالوجی تو ہے، مگر دل نہیں۔ علم ہے، مگر یقین نہیں۔ طاقت ہے، مگر رحم نہیں۔ مسلمان کا جوہر اس کے ایمان، ایثار، قربانی اور اخلاق میں ہے اور یہ سب وہ خزانے ہیں جو مغرب کی تجوریوں میں نہیں پائے جاتے۔
اقبال کا یہ شاہکار ہمیں قیادت کے بارے میں بھی ایک نئی سوچ دیتا ہے۔ وہ صرف سیاسی لیڈر کو رہنما نہیں مانتے، بلکہ وہ روحانی و اخلاقی بلندیوں پر فائز رہنما چاہتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک امام وہ ہے جو دل کی گہرائیوں سے بیدار ہو، جو امت کے درد کو محسوس کرے، جو رات کو سجدوں میں روتا ہو اور دن کو امت کی رہنمائی میں سرگرم رہے۔ وہ حضرت عمرؓ، امام حسینؓ اور صلاح الدین ایوبی جیسے کرداروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم اپنی قوم میں ایسی قیادت کو پیدا کریں جو نفع کمانے کے بجائے امت کو جگانے والی ہو۔
"رموزِ بیخودی" کا خلاصہ اگر ایک فقرے میں دیا جائے تو وہ یہ ہوگا: مسلمان اپنی ذات کو امت کے لیے وقف کرے، تاکہ وہ حقیقتاً زندہ ہو جائے۔ یہ قربانی صرف میدانِ جنگ میں تلوار لے کر مرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ روزمرہ کی زندگی میں فرض کی ادائیگی، سچائی، دیانت اور غیرتِ ایمانی کا نام ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ جو فرد اپنی خواہشات کو قوم کے مفاد پر قربان کر دے، وہی اصل میں زندہ ہے۔ وہی ملت کا ستون ہے۔ وہی دریا کی روانی ہے۔ وہی امت کا نور ہے۔
یہ کتاب محض اشعار کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایک فکری انقلاب ہے، ایک دعوتِ رجوع ہے، ایک بیداری کی صدا ہے، جو ہر مسلمان کے دل میں گونجنی چاہیے۔ اقبال صرف شاعر نہیں، وہ امت کے معمار ہیں۔ وہ فرد کو جگاتے ہیں، پھر اسے ملت میں گم کر دیتے ہیں اور یہی ان کی شاعری کا اصل کمال ہے، کہ وہ فرد کو آسمان پر لے جا کر دوبارہ زمین پر اتارتے ہیں، مگر اس بار وہ فرد نہیں رہتا، وہ امت کا چراغ بن جاتا ہے۔
آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اس چراغ کی روشنی کو پھر سے اپنے دلوں میں بسائیں۔ "رموزِ بیخودی" کو صرف کتابوں میں بند نہ رکھیں، بلکہ اسے عمل کا منشور بنائیں۔ اس کے اشعار صرف پڑھنے کے نہیں، جینے کے ہیں۔ جب ایک طالب علم، ایک تاجر، ایک مزدور، ایک حکمران، ایک استاد، ایک ماں، ایک بیٹی، سب اقبال کے اس پیغام کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، تب امت کا زوال بامِ عروج میں بدل سکتا ہے۔
یہ کالم ایک پکار ہے، ایک صدا ہے، ایک امید ہے، کہ ہم پھر سے ملت بنیں، ہم پھر سے امّت ہوں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم صرف خودی نہ سیکھیں، بلکہ بیخودی کے رموز بھی جانیں۔

