Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Insaniyat Ke Samundar Ke Musafir

Insaniyat Ke Samundar Ke Musafir

انسانیت کے سمندر کے مسافر

دنیا کے شور و غوغا، مفادات کی سیاست اور خودغرضی کی آندھیوں میں کبھی کبھار کچھ چہرے ایسے اُبھرتے ہیں جو انسانیت کے وجود پر یقین کو پھر سے زندہ کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ذات سے آگے دیکھتے ہیں، اپنے وطن، اپنے عقیدے، اپنی آسائشوں اور اپنے معمولات سے بلند ہو کر صرف ایک مقصد کے لیے جیتے ہیں: انسانیت کے لیے۔ "گلوبل صمود فلوٹیلا" کے یہ مسافر، سینیٹر مشتاق احمد، سویڈن کی بائیس سالہ گریٹا، برازیل کے تیس سالہ تیاگو اور جرمنی کی جواں سال یاسمین۔ انہی عظیم انسانوں میں سے ہیں جنہوں نے انسان ہونے کا مفہوم نئے سرے سے متعین کر دیا۔

یہ لوگ سمندر کے اُس سفر پر نکلے جس کی منزل غزہ تھی۔ وہ غزہ جو اس صدی کے سب سے بڑے انسانی المیے کی علامت بن چکا ہے۔ وہ غزہ جس کی فضاؤں میں بموں کی گونج ہے، جس کی زمین پر بچوں کا لہو بہہ رہا ہے، جہاں گھروں کی دیواریں درد کی داستاں سناتی ہیں اور جہاں انسان ہونے کا مطلب صرف زندہ رہنے کی جدوجہد بن گیا ہے۔ مگر ان کے دلوں میں خوف نہیں تھا، ان کے چہروں پر کمزوری نہیں تھی۔ ان کے ارادوں کی پختگی سمندروں کی موجوں جیسی تھی، جو ہر طوفان کے باوجود اپنی سمت نہیں بدلتیں۔

سینیٹر مشتاق احمد، یہ نام صرف پاکستان کی سیاست یا پارلیمان کے لیے نہیں، بلکہ اب انسانیت کے ضمیر کے لیے بھی جانا جائے گا۔ وہ صرف ایک سیاسی رہنما نہیں، وہ ایک ضمیر کی آواز ہیں۔ ان کا یہ سفر محض علامتی نہیں تھا، یہ ایک عہد کا اعلان تھا کہ امتِ مسلمہ میں ابھی وہ دل زندہ ہیں جو ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ جب اسرائیل کی بحری ناکہ بندی کے آگے ان کا قافلہ غزہ سے محض چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر رُکا، جب گنوں کے سائے تنے، جب گرفتاریاں ہوئیں، جب اسرائیلی جیل کی سلاخوں کے پیچھے دن رات کا فرق مٹ گیا، تب بھی مشتاق احمد کے چہرے پر استقامت کی روشنی تھی۔ ان کے الفاظ اب بھی گونج رہے ہیں، "ہم غزہ کے مظلوموں کے ساتھ ہیں، ہم انسانیت کے ساتھ ہیں، ہم انصاف کے ساتھ ہیں"۔

اس قافلے میں جو تین نام سب سے نمایاں ہو کر سامنے آئے، گریٹا، تیاگو اور یاسمین، وہ اس عہد کے غیر مسلم ہیروز ہیں جنہوں نے دکھا دیا کہ انسانیت مذہب کی قید میں نہیں، دل کی وسعت میں ہے۔

گریٹا، وہ بائیس سالہ سویڈن کی لڑکی، جس کے نرم ہاتھوں نے دنیا کے سب سے طاقتور ظالموں کے خلاف علمِ احتجاج بلند کیا۔ ایک لڑکی، جو اپنی عمر کے لڑکوں لڑکیوں کی طرح کسی یونیورسٹی کی کلاس میں بیٹھ سکتی تھی، کسی کیفے میں دوپہر کا کھانا کھا سکتی تھی، یا کسی پرسکون یورپی شہر میں اپنا مستقبل سنوار سکتی تھی۔ مگر اس نے طے کیا کہ وہ اس وقت کے سب سے بڑے انسانی المیے کے خلاف خاموش نہیں رہے گی۔ وہ ایک عزم کے ساتھ کشتی پر سوار ہوئی، اس سمندر کی سمت جس کے پار بموں کی بارش ہو رہی تھی۔ وہ صرف غزہ کے بچوں کے لیے نہیں، پوری انسانیت کے لیے سفر کر رہی تھی۔

تیس سالہ تیاگو، برازیل کا وہ نوجوان جس کے دل میں انصاف کے لیے دھڑکنے والی دھڑکن نے اسے دنیا کے دوسرے کنارے تک پہنچا دیا۔ اس کی زبان عربی نہیں تھی، اس کا عقیدہ اسلام نہیں تھا، مگر اس کے دل میں وہ ایمان تھا جو انسانیت کو سب سے بڑا مذہب مانتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کی آسائشیں پیچھے چھوڑیں، اپنے خاندان کو الوداع کہا اور کشتی پر سوار ہوگیا۔ جانتے ہوئے کہ ممکن ہے یہ سفر واپسی کا نہ ہو۔ مگر وہ گیا، کیونکہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا اس کے لیے ایک بہت بڑا گناہ تھا۔

اور یاسمین، جرمنی کی جواں سال خاتون، جو مغربی دنیا کے اُس معاشرے سے آئی جہاں فلسطین کا نام لینا بھی بعض اوقات جرم بن جاتا ہے۔ مگر اس نے اپنے دل کی آواز سنی، اپنی ضمیر کی پکار کو دبانے سے انکار کیا۔ وہ اس فلوٹیلا کی وہ روشنی تھی جو رات کے اندھیروں میں بھی ایمانِ انسانیت کو روشن رکھے ہوئے تھی۔ جب اسرائیلی فوج نے انہیں حراست میں لیا، جب ان پر طعن و تشنیع کی گئی، جب ان کے جسموں پر تشدد ہوا، تب بھی ان کے چہروں پر وہ مسکراہٹ تھی جو صرف حق پر کھڑے لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔

یہ سب اس قافلے کے مسافر تھے جنہوں نے دنیا کو یاد دلایا کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔ ان کی قید، ان کی تکالیف، ان کی بھوک اور پیاس، یہ سب محض اذیت نہیں تھی، بلکہ یہ انسانیت کے وقار کی قیمت تھی۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ دل کی زمین پر ایمان کا بیج کبھی ضائع نہیں جاتا، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے سینے میں بویا جائے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے جب واپس آ کر ان نوجوانوں کا ذکر کیا، تو ان کی آواز میں فخر کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں نمی تھی۔ انہوں نے کہا کہ "یہ غیر مسلم مگر انسان دوست ہیروز ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ انہوں نے اپنے آرام، اپنے گھر، اپنی سلامتی کو قربان کر دیا تاکہ دنیا کو یاد دلا سکیں کہ انسانیت کا درد مذہب سے بالاتر ہے"۔

یہ الفاظ دراصل ایک عہد کی گواہی ہیں، کہ اگر آج مسلمان حکمران اپنے مفادات میں گم ہیں، تو کہیں کہیں کچھ غیر مسلم دل انسانیت کے سچے امین بنے ہوئے ہیں۔ یہ کتنا بڑا لمحۂ شرمندگی بھی ہے اور کتنا بڑا سبق بھی۔

دنیا کے ایوانوں میں، اقوام متحدہ کی عمارتوں میں اور عالمی طاقتوں کے دارالحکومتوں میں جب غزہ کے بچوں کی لاشوں پر خاموشی چھائی ہوئی تھی، تب یہ چند دیوانے سمندر کے راستے انصاف کی پکار بن کر نکلے۔ وہ دنیا کو بتانے گئے کہ انسانیت کی جنگ بندوقوں سے نہیں، ضمیر سے لڑی جاتی ہے اور اگر ایک کشتی پر بیٹھے چند لوگ پوری دنیا کے نظام کو للکار سکتے ہیں، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سچائی ابھی زندہ ہے۔

کاش ہم سب میں تھوڑا سا حوصلہ ہوتا گریٹا جیسا، تھوڑا سا درد ہوتا تیاگو جیسا، تھوڑی سی جرات ہوتی یاسمین جیسی اور تھوڑا سا عزم ہوتا مشتاق احمد جیسا۔ تو شاید آج دنیا کا منظر کچھ اور ہوتا۔ شاید آج غزہ کے بچے بھوک سے نہ مر رہے ہوتے، شاید آج مظلوم عورتیں اپنے بچوں کو ملبے کے نیچے دفن نہ کر رہی ہوتیں، شاید آج انسانیت اپنے ضمیر سے اتنی دور نہ جا چکی ہوتی۔

یہ قافلہ رکا نہیں۔ اس کی داستان اب ایک تحریک ہے، جو ہر دل میں بیدار ہو سکتی ہے۔ "گلوبل صمود فلوٹیلا" صرف ایک سمندری سفر نہیں تھا، یہ ایک روحانی اعلان تھا کہ جب دنیا کے تمام دروازے بند ہو جائیں، تب بھی انسانیت کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور جب ظالم طاقتور ہو جائے، تب ایک سچ بولنے والا کمزور بھی پوری دنیا کو بدل سکتا ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد اور ان کے رفقا کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بہادری صرف بندوق اٹھانے کا نام نہیں، بلکہ ظلم کے سامنے ڈٹ جانے، قید و بند کی صعوبتیں سہنے اور حق پر قائم رہنے کا نام ہے۔

گریٹا، تیاگو اور یاسمین شاید کسی مسجد میں کبھی نہ جھکے ہوں، مگر انہوں نے وہ سجدہ ضرور کیا ہے جو رب کے نزدیک سب سے افضل ہے، سچائی اور انسانیت کے لیے قربانی کا سجدہ۔

آج ہمیں ان کے نام یاد رکھنے چاہئیں، صرف ان کے کارناموں کے لیے نہیں بلکہ اپنے ضمیر کو جگانے کے لیے۔ کیونکہ اگر ایک غیر مسلم لڑکی، ایک دور دراز ملک کا نوجوان اور ایک جرمن خاتون، غزہ کے مظلوموں کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟ ہم جو خود کو مظلوم امت کا حصہ کہتے ہیں، ہم کیوں اپنی زبانوں اور دلوں کو قفل لگا کر بیٹھے ہیں؟

یہ کالم ان سب کے نام جو انسان ہونے کا حق ادا کر گئے۔ یہ خراج ہے ان روحوں کے لیے جو ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ انسانیت کا چراغ کبھی نہیں بجھتا، اگر کوئی اسے روشن رکھنے والا موجود ہو اور اس وقت یہ چراغ، سمندر کی لہروں پر، "گلوبل صمود فلوٹیلا" کے ان مسافروں کے ہاتھوں میں جل رہا ہے، امید، حوصلے اور ایمان کی لو کے ساتھ۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan