Insani Zehan, Aik Behr e Bekaraan
انسانی ذہن، ایک بحر بیکراں

انسانی ذہن کائنات کی سب سے بڑی معمہ خیز تخلیق ہے۔ یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی کو ناپنا ممکن نہیں، جس میں لامحدود موجیں اٹھتی اور ڈوبتی ہیں اور جس کی وسعت کو کسی پیمانے میں سمیٹنا محال ہے۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، سمجھتے ہیں اور اپنے وجود میں محسوس کرتے ہیں، وہ دراصل ہمارے ذہن کی عکاسی ہے۔ کائنات کا ہر منظر، وقت کا ہر لمحہ اور احساس کا ہر رنگ اس وقت تک حقیقت نہیں بن پاتا جب تک ذہن اسے ادراک کے دائرے میں لا کر شعور کے آئینے پر ثبت نہ کر دے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم جو دیکھ رہے ہیں وہی اصل حقیقت ہے؟ یا پھر ہمارے ذہن نے اپنی مخصوص صلاحیتوں اور محدود پیمانوں کے مطابق حقیقت کو ایک ایسا سانچہ دے دیا ہے جو محض ہماری نظر کا دھوکا اور ہماری سمجھ کا فریب ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے انسانی ذہن کی پوشیدہ دنیا کا سفر شروع ہوتا ہے۔
ذہن ایک پردہ دار حقیقت ہے۔ یہ اپنی سرزمین میں ایسے مناظر اور امکانات کو چھپائے بیٹھا ہے جو ظاہری آنکھ سے کبھی نہیں دیکھے جا سکتے۔ ایک لمحے کے لیے رک کر سوچئے کہ ہم سب اس دنیا میں ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی اپنی اپنی الگ دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ دنیا جو صرف ہمارے خیالات، ہمارے تجربات، ہمارے خوابوں اور ہمارے احساسات کی تخلیق ہے۔ دو افراد ایک ہی منظر دیکھ سکتے ہیں مگر اس منظر کا مطلب دونوں کے لیے یکساں نہیں ہوگا۔ کسی کے لیے وہ منظر سکون کا ذریعہ ہوگا، تو کسی کے لیے اذیت کا سبب۔ یہ فرق کسی بیرونی حقیقت میں نہیں بلکہ ہر فرد کے اندر موجود ذہنی دنیا کے الگ الگ سانچوں میں ہے۔ گویا حقیقت بذاتِ خود ایک ایسی شے ہے جو ہر شخص کے ذہن کی چھلنی سے چھن کر اپنے منفرد رنگ اور اپنی مخصوص کیفیت کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔
ادراک کی یہ چھلنی کبھی صاف اور شفاف نہیں ہوتی۔ یہ ہمیشہ تجربات، تربیت، خوف، امید، خواب اور محرومیوں کی گرد سے بھری رہتی ہے۔ بچپن کی یادیں، جوانی کے نشیب و فراز، سماجی دباؤ، ذاتی ناکامیاں اور کامیابیاں، سب مل کر ذہن کے اندر ایک ایسا جال بُن دیتے ہیں جس کے تانے بانے سے گزرتے ہی حقیقت اپنی اصل صورت کھو بیٹھتی ہے اور ایک نیا چہرہ بنا لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی انسان کو لگتا ہے کہ وہ خود کو بھی پوری طرح نہیں جانتا۔ وہ اپنے خیالات کے قیدی کی مانند اپنی ہی پوشیدہ دنیا میں بھٹکتا رہتا ہے۔ ذہن کی یہ پوشیدہ دنیا کسی خوابوں کے جزیرے کی طرح ہے، جہاں سب کچھ موجود ہے مگر براہِ راست ہاتھ نہیں آتا، جہاں منظر دکھائی دیتا ہے مگر اس کا لمس نہیں ملتا، جہاں حقیقت اور خیال کی سرحدیں دھندلا کر ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔
خیال کی قوت اس پوشیدہ دنیا میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خیال ایک ایسا پرندہ ہے جو لمحوں میں صدیوں کا سفر طے کر لیتا ہے۔ یہ ہمیں ماضی کی گلیوں میں لے جا سکتا ہے، مستقبل کی راہوں پر بٹھا سکتا ہے اور ایسی دنیا کے در کھول سکتا ہے جو کبھی وجود میں ہی نہیں آئی۔ یہی خیال ہے جو انسان کو ایجادات تک لے گیا، یہی خیال ہے جو اسے فنونِ لطیفہ کے سمندر میں ڈبکیاں لگواتا ہے اور یہی خیال ہے جو اسے کبھی کبھی گمراہی کے اندھیروں میں بھی دھکیل دیتا ہے۔ خیال کا حسن یہی ہے کہ وہ بیک وقت تخلیق کا سرچشمہ بھی ہے اور تباہی کا موجب بھی۔ مگر اس سب کے بیچ ایک بات یقینی ہے: خیال انسانی ذہن کی اس پوشیدہ سرزمین کا دروازہ ہے جس کے بغیر حقیقت تک پہنچنا ممکن نہیں۔
یہاں ایک اور دلچسپ نکتہ سامنے آتا ہے۔ ذہن کی یہ پوشیدہ دنیا صرف فرد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پوری انسانیت کے اجتماعی شعور سے بھی جڑی ہوتی ہے۔ جیسے ایک دریا میں بے شمار قطرے مل کر بہتے ہیں، ویسے ہی فرد کے خیالات اور ادراکات انسانی شعور کے بڑے دریا میں جا ملتے ہیں۔ تاریخ کے بڑے موڑ اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب کسی دور میں انسانوں کے اجتماعی ذہنوں نے ایک نئی سمت میں سوچنا شروع کر دیا۔ آزادی کی تحریکیں، سائنسی انقلابات، ادبی رجحانات اور سماجی تبدیلیاں سب اسی اجتماعی ذہنی دنیا کی پیداوار ہیں۔ گویا انسان اپنی انفرادی پوشیدہ دنیا کے ساتھ ساتھ ایک اجتماعی پوشیدہ دنیا کا بھی حصہ ہے اور یہ دونوں سطحیں مل کر وہ کائنات تشکیل دیتی ہیں جسے ہم تہذیب و تمدن کے نام سے جانتے ہیں۔
مگر اس ساری پیچیدگی میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا انسان اپنی پوشیدہ دنیا کو کبھی پوری طرح کھول سکتا ہے؟ کیا وہ اس پردے کو ہٹا سکتا ہے جو ادراک اور حقیقت کے درمیان کھنچا ہوا ہے؟ فلسفی صدیوں سے یہ سوال کرتے آئے ہیں، سائنسدان تجربات سے اس راز کو کھولنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور صوفی اپنی روحانی واردات میں اس پردے کو چاک کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ شاید حقیقت یہ ہے کہ انسانی ذہن ہمیشہ ادراک اور حقیقت کے بیچ ایک سرحد پر کھڑا رہے گا۔ کبھی وہ حقیقت کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے گا تو کبھی اپنے خیالات کے دھندلکے میں کھو جائے گا۔ مگر اسی جستجو، اسی تلاش اور اسی بے چینی میں انسان کی اصل عظمت پوشیدہ ہے۔
انسانی ذہن کی اس پوشیدہ دنیا میں خوف بھی بستے ہیں اور امیدیں بھی۔ خواب بھی پنپتے ہیں اور خدشات بھی۔ کوئی فرد ان خوفوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے تو کوئی انہی خوفوں کو اپنی ہمت کا ایندھن بنا لیتا ہے۔ کوئی خوابوں میں کھو کر حقیقت سے فرار اختیار کرتا ہے تو کوئی انہی خوابوں کو حقیقت کا روپ دے کر دنیا کے نقشے بدل دیتا ہے۔ یہ فرق اس بات پر ہے کہ کوئی اپنے ذہن کی پوشیدہ دنیا کو صرف ایک سراب سمجھتا ہے اور کوئی اسے امکانات کی ایسی زمین جسے حقیقت میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
آخرکار یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ انسانی ذہن کی پوشیدہ دنیا ہی وہ اصل کائنات ہے جس میں ہم جیتے ہیں۔ ہماری گفتگو، ہمارے فیصلے، ہمارے رشتے، ہمارے دکھ اور ہماری خوشیاں سب اسی پوشیدہ سرزمین کی تخلیق ہیں۔ اگر ہم اپنی اس اندرونی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس کے دھندلکوں کو صاف کریں اور اس کے خوابوں کو حقیقت کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو شاید ہماری زندگی کہیں زیادہ بامعنی اور روشن ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی جستجو باہر کی دنیا کو فتح کرنا نہیں بلکہ اپنے اندر کے اس پوشیدہ جہان کو پہچاننا ہے۔ کیونکہ جب انسان اپنے ذہن کی اس پوشیدہ دنیا کو سمجھ لیتا ہے تو پھر کائنات کے سب پردے اس پر خود بخود کھلنے لگتے ہیں۔

