Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Insaf Ki Muskurahat, Frank Caprio

Insaf Ki Muskurahat, Frank Caprio

انصاف کی مسکراہٹ، فرینک کیپریو

دنیا کے کمرہ عدالتوں میں انصاف کی کئی داستانیں رقم ہوئیں، مگر چند ہی ایسی کہانیاں ہیں جنھیں سن کر دل کو قرار آتا ہے، آنکھوں میں نمی آتی ہے اور انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ قانون اگر کتابوں کی سخت لکیروں کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنوں کو بھی سمجھنے لگے تو دنیا کیسی ہو جائے۔ جج فرینک کیپریو کی زندگی اور ان کی عدالت اسی خواب کی ایک روشن تعبیر تھی۔ وہ محض ایک امریکی جج نہیں تھے، بلکہ ایک ایسے انسان تھے جنھوں نے انصاف کو کاغذ اور قانون کی گرفت سے نکال کر رحمدلی، نرمی اور انسان دوستی کے دامن میں سمیٹا۔ ان کی عدالت میں محض فیصلے نہیں ہوتے تھے، وہاں زندگی کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا تھا۔ وہ دنیا کے سب سے اچھے جج کہلائے گئے اور یہ محض ایک خطاب نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کی آواز تھی جنھوں نے ان کی شفقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دل میں محسوس کیا۔

فرینک کیپریو کی شہرت صرف امریکہ کی ریاست رہوڈ آئی لینڈ تک محدود نہیں رہی، ان کی انسان دوستی نے پوری دنیا میں انھیں پہچان دی۔ ان کے پروگرام کاٹ اِن پراویڈنس کی وائرل ویڈیوز نے لوگوں کو بتایا کہ عدالت صرف خوف اور سزا کی جگہ نہیں، بلکہ ایک ایسا مقام بھی ہو سکتی ہے جہاں انسان کو عزت ملے، اس کی مجبوری کو سمجھا جائے اور جہاں انصاف کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی مسکراتی دکھائی دے۔ یہ شو جب سوشل میڈیا پر آیا تو ایک ارب سے زیادہ لوگ اسے دیکھ کر متاثر ہوئے۔ وہ لمحے جب ایک کم سن بچی معصومیت سے اپنی ماں کی ٹریفک خلاف ورزی کی تصدیق کرتی ہے اور جج قہقہے میں شامل ہو کر اس کا جرمانہ معاف کر دیتے ہیں، یا جب ایک غمزدہ ماں کے دکھ کو سمجھتے ہوئے وہ اس کا جرمانہ معاف کر دیتے ہیں، یا پھر ایک ضعیف باپ کی بے بسی دیکھ کر قانون کی سختی کے بجائے انسانیت کو فوقیت دیتے ہیں، یہی وہ جھلکیاں ہیں جنھوں نے دنیا کو بتایا کہ اصل انصاف کیا ہوتا ہے۔

یہ بھی کم نہیں کہ ایک امریکی جج پاکستان کے لوگوں کے دلوں پر بھی راج کرنے لگا۔ صرف ایک ہفتہ پہلے، جب پاکستان نے یومِ آزادی منایا، تو فرینک کیپریو نے سبز ہلالی پرچم تھامے دنیا کو پیغام دیا: پاکستان زندہ باد۔ ان کے یہ الفاظ پاکستانیوں کے لیے غیر معمولی تحفہ تھے۔ وہ نہ ہمارے سیاست دان تھے، نہ ہی کسی سفارتی منصب پر فائز تھے، لیکن ان کے دل میں انسانوں کے لیے محبت تھی، چاہے وہ کسی بھی سرزمین کے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کی خبر پاکستان میں بھی ویسے ہی دلوں کو زخمی کر گئی جیسے امریکہ میں۔

پاکستانیوں سے ان کی محبت کی کئی داستانیں ہیں۔ ایک پاکستانی طالب علم احمد سلمان کے ساتھ ان کی ملاقات جب ہوئی تو جج نے اس کا جرمانہ معاف کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے گھر ڈنر پر آنے کی دعوت دی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، ایک جج اپنی عدالت سے نکل کر اپنے گھر کے دروازے کھول دے اور ایک اجنبی کو اپنی فیملی کا حصہ بنا لے۔ یہ فرینک کیپریو ہی تھے جنھوں نے ایک ماہ بعد اس وعدے کو پورا کیا اور پاکستانی کھانے کے ذائقے کو اپنی زندگی کی خوبصورت یادوں میں شامل کر لیا۔ پھر وہ لمحہ بھی آیا جب ایک پاکستانی جوڑے نے ان کے سامنے شکریے کے طور پر چترالی ٹوپی رکھ دی۔ یہ دنیا کے دو مختلف خطے تھے، دو الگ ثقافتیں، لیکن محبت اور ہمدردی نے ان کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہ رہنے دیا۔

ان کے انتقال کی خبر نے نہ صرف رہوڈ آئی لینڈ کو غمزدہ کر دیا بلکہ دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر سوگ کی کیفیت چھا گئی۔ لوگوں نے کہا کہ ایسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ رہوڈ آئی لینڈ کے گورنر نے درست کہا کہ جج کیپریو محض ایک جج نہیں بلکہ ہمدردی اور انسان دوستی کی علامت تھے۔ انھوں نے ہمیں دکھایا کہ انصاف اگر ہمدردی کے پیمانے پر پرکھا جائے تو وہ انسانی زندگی میں روشنی بن سکتا ہے۔ پاکستانی سماجی کارکن منیبہ مزاری نے لکھا کہ دنیا کو جج کیپریو جیسے مزید افراد کی ضرورت ہے اور یہ بالکل درست ہے۔ آج جب دنیا سختیوں، نفرتوں اور تقسیم کی زد میں ہے، ایسے لوگ جو محبت کو قانون سے بھی زیادہ طاقتور بنا دیں، وہی ہماری اصل ضرورت ہیں۔

فرینک کیپریو کی رحمدلی کوئی رسمی رویہ نہیں تھی، یہ ان کی زندگی کا حصہ تھی۔ وہ صرف عدالت میں ایسے نہیں تھے بلکہ اپنی روزمرہ زندگی میں بھی ہر دل عزیز تھے۔ یہ ان کے خاندانی پس منظر، تربیت اور زندگی کے تجربات کا عکس تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ہر قانون کی خلاف ورزی کے پیچھے ایک انسانی کہانی چھپی ہوتی ہے۔ کبھی غربت، کبھی بیماری، کبھی مجبوری اور کبھی بے بسی۔ وہ ان کہانیوں کو سنتے تھے، سمجھتے تھے اور پھر فیصلہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عدالت سے نکلنے والے اکثر لوگ صرف قانون کے فیصلے کے ساتھ نہیں بلکہ ایک نئی امید اور حوصلے کے ساتھ واپس جاتے تھے۔

انسان کی اصل عظمت اس کے عہدے یا طاقت میں نہیں بلکہ اس کے رویے میں ہے۔ جج کیپریو نے یہ ثابت کیا کہ کوئی بھی عہدہ انسان کو بڑا نہیں بناتا جب تک کہ وہ اپنے کردار کو بڑا نہ بنا لے۔ ان کی عدالت میں آنے والا ہر شخص یہ محسوس کرتا کہ وہ کسی اجنبی کے سامنے نہیں بلکہ ایک ایسے دوست کے سامنے کھڑا ہے جو اس کی بات سنے گا اور اس کے دکھ کو سمجھے گا۔ یہی وہ راز تھا جس نے انھیں دنیا کا سب سے اچھا جج بنا دیا۔

ان کے انتقال کے بعد دنیا میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ہم سب کے دل اس بات پر افسردہ ہیں کہ وہ جسمانی طور پر اب ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آج بھی زندہ ہیں۔ وہ ہر اس ویڈیو میں زندہ ہیں جس میں وہ کسی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر قانون کی گرفت ڈھیلی کر دیتے ہیں، وہ ہر اس دل میں زندہ ہیں جو ان کی باتوں سے سکون پاتا تھا اور وہ ہر اس لمحے میں زندہ رہیں گے جب کوئی جج یا کوئی طاقتور شخص انصاف کے ساتھ ساتھ ہمدردی کو بھی یاد کرے گا۔

فرینک کیپریو نے دنیا کو دکھا دیا کہ انصاف محض سزا دینے کا نام نہیں بلکہ لوگوں کو سہارا دینے کا نام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالتوں میں صرف قانون کی نہیں بلکہ دل کی بھی حکمرانی ہو سکتی ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر ہم سب اپنے اپنے دائرے میں ان کی طرح نرم دلی اختیار کر لیں تو دنیا واقعی جنت کا عکس بن سکتی ہے۔

آج دنیا ان کی موت پر غمزدہ ہے لیکن شاید ان کے جانے کے بعد ہمیں ایک اور ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ ہم ان کی وراثت کو زندہ رکھیں۔ ان کی محبت، ان کی ہمدردی اور ان کی انسان دوستی کو اپنے رویوں میں شامل کریں۔ کیونکہ فرینک کیپریو جیسے لوگ صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہتے، وہ پوری انسانیت کا سرمایہ بن جاتے ہیں۔ دنیا کو ایسے ہی مزید انسانوں کی سخت ضرورت ہے۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood