Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Hum Kab Samjhen Ge?

Hum Kab Samjhen Ge?

ہم کب سمجھیں گے؟

دنیا کی اقوام کس طرح سوچتی ہیں، منصوبہ بندی کرتی ہیں، کاروبار کرتی ہیں اور بڑے بڑے منافع کماتی ہیں، اگر ہم یہ بات سمجھ جائیں تو شائد ہمارا رونا دھونا کم ہو جائے۔ ہم پاکستانی ہمیشہ غربت کا ماتم کرتے رہتے ہیں، خالی جیبوں کی شکایت کرتے ہیں، اپنے ملک کی معاشی زبوں حالی پر آہیں بھرتے ہیں اور اپنے اردگرد ذرہ نظر نہیں دوڑاتے کہ ہمارے ہمسائے جیسے بھارت، چین، یہاں تک کہ بنگلہ دیش بھی اپنی معیشت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا کیسے پہنچا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا کر رہے ہیں جو ہم نہیں کر پا رہے؟

بھارت کی ایک حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ ملک کیسے کاروبار کی راہیں نکالتے ہے اور عالمی دباؤ کے باوجود اپنے فائدے کی پالیسی پر کیسے قائم رہتے ہے۔ بھارت نہ صرف روس سے بڑے پیمانے پر تیل خرید رہا ہے بلکہ اس خریدے گئے تیل میں سے ایک بڑی مقدار کو عالمی منڈی میں فروخت کرکے زبردست منافع بھی کما رہا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں، بلکہ بھارت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود روسی تیل کی خریداری جاری رکھے گا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کو بھارتی سرکاری ذرائع نے بتایا کہ بھارت کسی کے دباؤ میں آ کر اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرے گا، بلکہ اپنی قومی پالیسیوں پر ثابت قدم رہے گا، چاہے عالمی طاقتیں انہیں دبانے کی کوشش کریں یا بلیک میل کریں۔ یہ ہے وہ اصولی اور باوقار رویہ جو ایک خودمختار قوم اختیار کرتی ہے۔ بھارت کی یہ پالیسی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر کوئی ملک دنیا میں اپنا مقام بنانا چاہتا ہے، تو اسے اپنی خارجہ اور تجارتی پالیسیوں میں خودمختاری اور قومی مفاد کو سب سے بالا رکھنا ہوگا۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت پر روسی تیل کی درآمد کے حوالے سے جو تنقید کی جا رہی ہے، وہ سراسر "غیر منصفانہ اور بلاجواز" ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت، ایک بڑی معیشت کی حیثیت سے، اپنے قومی مفادات اور اقتصادی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ ان کے اس بیان میں وہ اعتماد اور خود اعتمادی صاف جھلکتی ہے جو ایک باشعور اور باہمت قوم کی علامت ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ روس سے تیل کی درآمد اس لیے کر رہا ہے تاکہ اپنی عوام کے لیے توانائی کے اخراجات کو قابلِ برداشت اور متوقع رکھا جا سکے۔

یہ بات نہایت اہم ہے کہ بھارت نے اس دوہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے جو ان ممالک نے اپنا رکھا ہے جو خود بھی روس سے تجارتی تعلقات رکھتے ہیں، مگر بھارت پر تنقید کرتے ہیں۔ جیسوال نے کہا کہ یہ بات بھی "افشاں" ہو چکی ہے کہ وہ ممالک جو بھارت کو نشانہ بنا رہے ہیں، خود روس کے ساتھ تجارتی تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے معاملات صرف توانائی تک محدود نہیں بلکہ کھاد، کان کنی کی مصنوعات، کیمیکل، لوہا اور اسٹیل، مشینری اور ٹرانسپورٹ آلات جیسی اشیاء بھی شامل ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ امریکہ بھی روس سے یورینیم ہیکسا فلورائیڈ (جو کہ نیوکلیئر انڈسٹری کے لیے ضروری ہے)، پیلیڈیم (جو کہ الیکٹرک وہیکل انڈسٹری میں استعمال ہوتا ہے)، کھاد اور کیمیکلز درآمد کر رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جب خود یورپ اور امریکہ اپنے مفاد کی خاطر روس سے تجارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں تو بھارت اگر اپنے قومی مفاد کے تحت یہی کام کر رہا ہے تو اس پر تنقید کیوں؟ بھارت نے بڑی مہارت سے اس سوال کو عالمی فورمز پر اٹھایا اور دنیا کو آئینہ دکھایا۔ یہ سب کچھ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر کوئی ملک ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے عالمی طاقتوں کی منافقانہ پالیسیوں سے مرعوب ہونے کے بجائے، اپنے فائدے کو مقدم رکھنا ہوگا۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت، چین یا بنگلہ دیش ہم سے کوئی الگ مخلوق نہیں۔ ان کے عوام بھی ہماری طرح کے ہیں، ان کے مسائل بھی ہمارے جیسے ہیں، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں کی قیادتیں قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتیں، وہ معیشت کو مضبوط بنانے کو اولین ترجیح دیتی ہیں، وہ کاروبار کے مواقع تلاش کرتی ہیں، ان پر عمل کرتی ہیں اور نتائج بھی حاصل کرتی ہیں۔

دوسری طرف ہم پاکستانی ہر فورم پر یہی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے پاس پیسہ نہیں، ہمارے حالات خراب ہیں، ہمارے ادارے ناکام ہیں۔ مگر ہم یہ سوال نہیں کرتے کہ ہم نے خود اپنے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے کتنی بار اپنے قومی مفادات کو قربان کیا؟ ہم نے کتنی بار اپنے وسائل کو ضائع کیا؟ ہم نے کب کب اصولوں پر کھڑا ہونا سیکھا؟ بھارت جیسا ملک جب عالمی طاقتوں کے سامنے اپنے مفاد کی بات کرتا ہے تو دنیا کو اسے سننا پڑتا ہے۔ وہ اس لیے نہیں کہ بھارت بہت بڑا ملک ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ اپنی پالیسی پر ڈٹا رہتا ہے، وہ قوم کی بہتری کے لیے فیصلے کرتا ہے اور اس فیصلے پر شرمندہ نہیں ہوتا۔

کیا ہمیں یاد ہے کہ ہم نے کتنی بار صرف قرضے لینے کی پالیسی اپنائی اور اپنی معیشت کو گروی رکھ دیا؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم کب تک دنیا سے امداد مانگتے رہیں گے؟ کب تک ہمیں IMF، World Bank اور دوست ممالک کی بیساکھیوں پر چلنا ہوگا؟ کب ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ اب ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے، اپنے وسائل سے، اپنی سوچ سے، اپنی محنت سے؟

بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے روس سے تیل خرید کر صرف اپنی ضرورت پوری نہیں کی، بلکہ اسے پروسیس کرکے عالمی منڈی میں فروخت بھی کیا اور خوب منافع کمایا۔ یہ ہے وہ ذہن، وہ وژن، جس سے معیشتیں بنتی ہیں۔ ہم کیوں نہیں سوچ سکتے کہ اگر بھارت یہ سب کچھ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کب تک سازشوں، الزامات اور غیروں کی طرف دیکھنے میں اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کو بدلیں، اپنی سوچ کو، اپنی ترجیحات کو، اپنے فیصلوں کو۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ دنیا میں صرف وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو مشکل فیصلے کر سکتی ہوں، جو اپنے قومی مفاد پر سمجھوتہ نہ کریں، جو اپنے وسائل کا درست استعمال کرنا جانتی ہوں اور جو ہر حالت میں خود مختار اور باوقار رہنے کو اپنا شعار بنائیں۔

آج جب دنیا کے حالات بدل رہے ہیں، جب عالمی سیاست اور معیشت میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں، جب ہر ملک اپنے مفاد کے لیے نئی راہیں تلاش کر رہا ہے، تو ہمیں بھی اپنی سمت درست کرنی ہوگی۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کب تک صرف دوسروں کو دیکھ کر حسرت کرتے رہیں گے اور کب اپنے لیے کوئی راہ نکالیں گے۔ بھارت کی مثال ہمیں یہی بتاتی ہے کہ کامیاب قومیں کبھی انتظار نہیں کرتیں، وہ خود فیصلہ کرتی ہیں، خود راستے بناتی ہیں اور خود منزل تک پہنچتی ہیں۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail