Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Har Admi Kam Kar Sakta Hai

Har Admi Kam Kar Sakta Hai

ہر آدمی ہر کام کرسکتا ہے‎

جسم کی اذیتوں کا فلسفہ عجیب ہے۔ یہ محض درد نہیں ہوتیں، یہ محض تکلیف نہیں ہوتیں، یہ محض چیخ اور کراہ نہیں ہوتیں۔ ان کے پیچھے ہمیشہ ایک مقصد چھپا ہوتا ہے۔ کوئی چاہتا ہے کہ آپ ہار مان لیں، کوئی چاہتا ہے کہ آپ اپنی مرضی کو کسی اور کی مرضی کے آگے جھکا دیں اور کوئی چاہتا ہے کہ آپ پر یہ یقین بیٹھ جائے کہ آپ کی کوئی انفرادیت نہیں، آپ بس ایک کٹھ پتلی ہیں، ڈور کہیں اور سے ہلتی ہے اور حرکت آپ کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ کی ساری کہانیاں اسی کھیل کا حصہ ہیں۔ طاقتور ہمیشہ کمزور کو اذیت دے کر یہ باور کراتا رہا ہے کہ تم کچھ بھی کر سکتے ہو، مگر صرف ہماری مرضی سے۔

یہ ایک عجیب تضاد ہے۔ اذیت کا نشانہ بننے والے انسان کو بظاہر بے بس دکھایا جاتا ہے، لیکن اسی اذیت کے عمل میں یہ حقیقت بھی پوشیدہ ہے کہ انسان کی برداشت، اس کی قوتِ ارادی، اس کی جینے کی خواہش اور اس کا صبر لامحدود ہے۔ کوئی کوڑے کھا کر بھی جیتا ہے، کوئی قید و بند سہہ کر بھی مسکراتا ہے، کوئی جسم کے زخموں کے باوجود اپنے اندر روشنی جلاتا ہے۔ گویا اذیت دینے والا چاہے کہ اسے کچل دے، مگر اکثر اوقات اذیت سہنے والا اس اذیت سے اوپر اٹھ جاتا ہے اور دنیا کو یہ دکھا دیتا ہے کہ ہاں، آدمی ہر کام کر سکتا ہے۔

ہم روزانہ اپنی زندگی میں اسی فلسفے کا سامنا کرتے ہیں۔ کبھی حالات ہمیں اذیت دیتے ہیں، کبھی محرومیاں، کبھی غربت، کبھی بیماری، کبھی سماجی ناانصافی اور ہم یہ سب سہتے جاتے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ ہم مجبور ہیں، مگر دراصل ہم اپنی بقا اور اپنی صلاحیت کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ مزدور جو صبح سے شام تک پتھر توڑتا ہے، وہ عورت جو بھٹے پر اینٹیں ڈھوتی ہے، وہ طالب علم جو غربت کے باوجود اپنی آنکھوں میں خواب جگاتا ہے، وہ مریض جو برسوں بیماری جھیلتا ہے اور پھر بھی مسکراتا ہے۔ یہ سب اسی فلسفے کی زندہ مثالیں ہیں کہ آدمی ہر کام کر سکتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ وہ اپنی حدوں سے باہر نکلنے کا حوصلہ پیدا کرے۔

مگر سوال یہ ہے کہ ہم یہ سب اپنی مرضی سے کرتے ہیں یا کسی اور کی مرضی سے؟ یہی اصل تضاد ہے۔ دنیا کی ساری طاقتیں ہمیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم آزاد نہیں ہیں، ہم کسی زنجیر کا حصہ ہیں اور ہماری حرکات کسی اور کی مرضی سے طے ہوتی ہیں۔ یہ زنجیر کبھی سیاسی نظام ہوتی ہے، کبھی مذہبی تعبیرات، کبھی سماجی ڈھانچے، کبھی سرمایہ داری کا شکنجہ اور ہم واقعی انہی زنجیروں میں بندھے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کے پاس اختیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اختیار ہے، لیکن اسے استعمال کرنے کے لیے قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ کبھی تنہائی، کبھی مخالفت، کبھی سزا، کبھی قربانی۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ اذیت ہمیشہ دو طرح کے نتائج پیدا کرتی ہے۔ ایک وہ جو توڑ دیتے ہیں، دوسرے وہ جو بنا دیتے ہیں۔ جو ٹوٹ جاتے ہیں، وہ اپنی مرضی کھو بیٹھتے ہیں، وہ بھیڑ بکریوں کی طرح ریوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مگر جو اذیت سے گزر کر بھی اپنی انا اور اپنی سوچ کو بچا لیتے ہیں، وہ تاریخ کا حصہ بنتے ہیں۔ سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر یہی بتایا کہ آدمی ہر کام کر سکتا ہے، مگر اپنی مرضی اور اپنے یقین سے۔ منصور حلاج نے دار پر چڑھ کر یہ اعلان کیا کہ اذیت جسم کو مار سکتی ہے مگر روح کو نہیں۔ نیلسن منڈیلا نے 27 برس جیل میں گزار کر یہ بتایا کہ جیل صرف جسم کو قید کرتی ہے، خوابوں کو نہیں۔

یہی اصل بات ہے۔ اذیت جھیلنے والا انسان دنیا کو دکھاتا ہے کہ طاقتور کی اصل طاقت بھی انسان کو آزمانے میں ہے اور کمزور کی اصل طاقت بھی اپنی حدوں سے آگے بڑھنے میں۔ یہی تو وہ "ماورائی زنجیر" ہے جس کی بات کی جاتی ہے۔ ایک ایسی زنجیر جو بظاہر ہمیں قید کرتی ہے مگر دراصل ہمیں یہ دکھاتی ہے کہ ہم کس حد تک برداشت کر سکتے ہیں، کس حد تک آگے جا سکتے ہیں اور کس حد تک اپنی حقیقت کو پا سکتے ہیں۔

زندگی کا کمال یہی ہے کہ انسان وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اگر کسی کو پہاڑ پر چڑھنے کی اذیت جھیلنی ہے تو وہ بھی کر سکتا ہے۔ اگر کسی کو بھوک برداشت کرنی ہے تو وہ بھی ممکن ہے۔ اگر کسی کو سچائی کے لیے قربانی دینی ہے تو وہ بھی ممکن ہے۔ مگر سوال ہمیشہ یہی رہتا ہے کہ یہ سب کس کی مرضی سے ہوتا ہے۔ کیا یہ ہماری اپنی مرضی ہے یا کسی اور کی؟

یہاں ایک اور لطیف نکتہ ہے۔ انسان جب کسی اور کی مرضی کے تحت کچھ کرتا ہے تو وہ غلام دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اگر وہی کام اپنی مرضی سے کرے تو وہی غلامی آزادی میں بدل جاتی ہے۔ یہی فرق مزدور اور فنکار میں ہے۔ مزدور اینٹیں اٹھاتا ہے تو اسے بوجھ محسوس ہوتا ہے، فنکار پتھر تراشتا ہے تو اسے فن دکھائی دیتا ہے۔ دونوں کا جسم محنت کر رہا ہوتا ہے، مگر ایک کی محنت غلامی ہے، دوسرے کی محنت آزادی۔ تو پھر کیا انسان واقعی غلام ہے؟ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی اصل قوت اسی میں ہے کہ وہ اپنی اذیتوں کو معنی دے، اپنی محنت کو مقصد دے اور اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے جینے کا ہنر پیدا کرے۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ اذیتیں کسی بیرونی طاقت کی جانب سے دی جاتی ہیں، مگر اکثر وہ ہماری اپنی ذات کی پیداوار بھی ہوتی ہیں۔ ہم خود کو اپنی خواہشات کے شکنجے میں کس لیتے ہیں، اپنے خوف کے قیدی بن جاتے ہیں، اپنی کمزوریوں کو زنجیر بنا لیتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح کی اذیت ہے اور اس اذیت کو سہتے سہتے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ہر کام کر سکتے ہیں۔ اصل آزادی اسی دن ملتی ہے جب ہم اپنی اندرونی زنجیروں کو توڑتے ہیں۔

آپ دیکھیں تو دنیا کا ہر بڑا انقلاب اسی فلسفے پر قائم ہے۔ غلامی کے خلاف جنگ، آزادی کی تحریکیں، مساوات کے خواب، سب اسی اذیت سے جنم لیتے ہیں کہ طاقتور چاہتا ہے انسان اپنی مرضی سے کچھ نہ کرے اور کمزور یہ طے کر لیتا ہے کہ وہ ہر کام کرے گا، مگر اپنی مرضی سے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب دنیا بدلتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ ہر آدمی ہر کام کر سکتا ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ وہ کس کے لیے اور کس کی مرضی سے کرے گا۔ اگر وہ صرف زنجیروں کے حکم پر کچھ کرے تو وہ محض زندہ رہنے کا نام ہے۔ مگر اگر وہ اپنی اذیتوں کو سہتے سہتے یہ سیکھ لے کہ آزادی کیا ہے، خودی کیا ہے اور اپنی مرضی کیا ہے، تو پھر وہ محض زندہ نہیں رہتا، وہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔

آج بھی دنیا میں بے شمار لوگ اپنی اپنی اذیتوں کے قیدی ہیں۔ کوئی غربت کی اذیت سہہ رہا ہے، کوئی جنگ کی، کوئی جبر کی، کوئی بے انصافی کی۔ لیکن ان سب کے اندر ایک ہی سچ چھپا ہے کہ انسان ہر کام کر سکتا ہے۔ وہ بھوک سہہ سکتا ہے، وہ جبر سہہ سکتا ہے، وہ قید سہہ سکتا ہے، مگر وہ اپنی مرضی کے خواب نہیں چھوڑ سکتا اور یہی وہ خواب ہیں جو دنیا کو بدلتے ہیں۔

کسی نے سچ کہا ہے کہ انسان کا اصل جوہر اس کی اذیتوں میں چھپتا ہے۔ جس نے اذیت جھیلی اور سر جھکا لیا، وہ غلام ہے۔ جس نے اذیت جھیلی اور سر اٹھا لیا، وہ آزاد ہے اور یہی آزادی اس یقین سے جنم لیتی ہے کہ آدمی ہر کام کر سکتا ہے۔ ہر کام۔ بس اپنی مرضی سے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan