Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Golf, Shahana Waqar Se Bharpur Khel

Golf, Shahana Waqar Se Bharpur Khel

گالف، شاہانہ وقار سے بھرپور کھیل

پہلے پہل جب کبھی گالف کا نام سنتا یا کبھی کبھار ٹی وی پر جھلک دیکھتا تو دل سے ایک ہی لفظ نکلتا: "فضول"۔ نہ کوئی دوڑ، نہ چیخ، نہ جوش، نہ ہنگامہ۔ بس صاحب ایک عجیب سی جیکٹ پہنے، ٹوپی جمائے، ہاتھ میں کوئی بےجان سی چھڑی لیے میدان میں ہلکی چال چلتے دکھائی دیتے۔ ساتھ ایک اور صاحب یا شاید خادم، جنہوں نے ایک چھوٹا سا کیری کارٹ سنبھالا ہوتا، جس میں کئی قسم کی چھڑیاں قطار سے رکھی ہوتیں۔ صاحب گیند پر ہٹ مارتے، چھڑی خادم کو تھماتے اور خراماں خراماں اگلے ہول کی طرف روانہ ہو جاتے۔

اس منظر پر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی۔ لگتا جیسے یہ کوئی کھیل نہیں، بلکہ کسی "بابو صاحب" کی صبح کی چہل قدمی ہے، جس میں ورزش کم، نخرہ زیادہ اور کھیل سے زیادہ پروٹوکول اور وقار کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ میں دل ہی دل میں ایسے تمام کھیلوں کا مذاق اڑاتا جن میں پسینہ کم اور اسٹیج زیادہ ہوتا۔ میرے نزدیک کھیل وہی ہوتا ہے جس میں آدمی دوڑتا ہے، گرتا ہے، اٹھتا ہے، مقابلہ کرتا ہے اور تماشائی چیختے چلاتے ہیں۔ گالف اس تصور کے بالکل برعکس تھا۔ ایک خاموش، سست اور سنجیدہ سا کھیل، جو کسی شاہی روایت کا حصہ لگتا تھا، کھیل نہیں۔

مگر زندگی کا یہی حسن ہے کہ وہ ٹھیک وہیں لے جاتی ہے جہاں ہم جانے سے انکاری ہوتے ہیں۔ مجھے بھی ایک دن گالف کورس جا کر ایک بین الاقوامی چیمپئن شپ دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک قریبی دوست نے دعوت دی۔ کہا، چلو ہریالی دیکھ لو، باہر کی ہوا کھا لو اور ہاں، "لنچ بہت اعلیٰ ہوتا ہے"، یہ جملہ فیصلہ کن ثابت ہوا۔ ہم جا پہنچے۔ سامنے جو منظر تھا، وہ کسی اور ہی دنیا کی جھلک دیتا تھا۔ ہرے بھرے میدان، مکمل خاموشی، ترتیب، وقار اور شائستگی۔ وہی "بابو کلچر" کا کھیل میری آنکھوں کے سامنے تھا، لیکن نہ جانے کیوں، اس بار منظر کچھ مختلف لگ رہا تھا۔

میں نے ایک کھلاڑی کو بغور دیکھنا شروع کیا۔ وہ گیند پر ہٹ مارنے سے پہلے ہوا کا رخ دیکھ رہا تھا، گھاس کو چھو کر زمین کی نرمی کا اندازہ لگا رہا تھا، چند قدم پیچھے ہٹتا، آگے آتا، جھک کر چھڑی کی پوزیشن درست کرتا اور پھر ایک بالکل خاموش، نرم اور مکمل انداز میں ہٹ مارتا۔ گیند نے ہوا میں ایک خوبصورت قوس بنائی اور بالکل قریب جا گری ہول کے۔ نہ تالی بجی، نہ شور ہوا، صرف ایک مطمئن سی مسکراہٹ کھلاڑی کے چہرے پر آئی۔ کیڈی نے خاموشی سے چھڑی واپس لی، کارٹ میں رکھی اور دونوں آگے بڑھ گئے۔

اسی لمحے میرے اندر کچھ بدلنے لگا۔ میں رکا اور شاید پہلی بار گالف کو صرف دیکھا نہیں، سمجھنے لگا۔ یہ کوئی سست یا بورنگ عمل نہیں تھا، بلکہ ایک مکمل فلسفہ تھا۔ ہر کھلاڑی کی ہر حرکت میں سوچ تھی، ترتیب تھی، حکمت تھی۔ ہر ہٹ میں خود اعتمادی اور صبر کا امتحان تھا۔ شور سے خالی اس کھیل میں ایک خاموش جنگ جاری تھی۔ اپنی کمزوریوں سے، اپنے خوف سے، اپنی ذہنی الجھنوں سے۔

گالف ایک ایسا کھیل نکلا جس میں ہر فیصلہ کھلاڑی کو خود کرنا ہوتا ہے، ہر زاویہ خود سوچنا ہوتا ہے، ہر ہٹ کی ذمہ داری خود اٹھانی ہوتی ہے۔ کوئی شور نہیں، کوئی حریف کی للکار نہیں، صرف ایک گہری خاموشی، جس میں آپ کی اپنی سانسیں تک شور بن جاتی ہیں۔ یہاں نہ شور کرنے کی اجازت ہے، نہ جلدی کرنے کی۔ ہر قدم سوچا سمجھا، ہر ہٹ تول کر، ہر حرکت کی اپنی ریاضی، اپنی نفسیات۔

پھر مجھے وہ کیڈی نظر آیا، جسے میں پہلے "نوکر" کہتا تھا۔ مگر اب وہ کسی شاگرد کا استاد لگا۔ ہر سٹک کے بارے میں مشورہ، زمین کی ہیئت کا جائزہ، ہوا کی سمت پر رائے اور کھلاڑی کے مزاج سے ہم آہنگی۔ یہ محض خدمت نہیں، علم و تجربہ کا نچوڑ تھا۔ وہ کارٹ، جسے میں بابو صاحب کی سہولت سمجھتا تھا، دراصل مہارت کا سفری بکس نکلا۔ اس میں ہر موقع کے لیے الگ چھڑی، الگ حکمت عملی، الگ طرز عمل تھا۔ یہ سارا منظر اب مجھے طنز کا نہیں، تدبر کا احساس دلانے لگا۔

میں نے باقی دن گالف کو دل لگا کر دیکھا۔ ہر کھلاڑی، ہر شاٹ، ہر قدم سب کچھ جیسے کسی خاموش فلم کا حصہ تھے، مگر ایسی فلم جو چیخے نہیں، گہرائی سے بولے۔ وہ کھیل جسے میں ہمیشہ "بابو کلچر" کا نمائندہ سمجھتا رہا، اب مجھے مہذب، باشعور اور گہرے لوگوں کا کھیل لگنے لگا۔ وہ صاحب جو پہلے مجھے دکھاوے کے نمائندے لگتے تھے، اب سوچنے والے انسان دکھائی دیے۔ وہی خراماں چال، وہی نفیس لباس، وہی نرمی۔ اب سب کچھ ایک نیا مفہوم لیے سامنے آیا۔

گالف اب میرا پسندیدہ کھیل ہے۔ میں نہ صرف اسے دیکھتا ہوں بلکہ اسے محسوس کرتا ہوں۔ میں اس کے سکون میں اپنی زندگی کی جھلک دیکھتا ہوں۔ ہم سب اپنے اپنے میدان کے گالفر ہیں، ہر روز کسی نہ کسی ہول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کیڈی ہمارے ساتھ ہیں۔ کبھی ضمیر، کبھی تجربہ کار دوست، کبھی دعا گو ماں، کبھی خاموشی سے سمجھانے والا استاد۔ ہم ہر روز سٹک چنتے ہیں۔ کوئی فیصلہ لینا ہو، کوئی لفظ کہنا ہو، کوئی تعلق نبھانا ہو، ہر وقت الگ سٹک چاہیے۔ کبھی نشانہ قریب لگتا ہے، کبھی گیند کسی جھاڑی میں جا گرتی ہے، کبھی ریت میں، کبھی پانی میں۔ مگر پھر بھی ہم اگلے ہول کی طرف بڑھتے ہیں۔ کیونکہ یہی کھیل ہے۔ گالف بھی اور زندگی بھی۔

اب اگر کوئی کہے کہ گالف بابو لوگوں کا کھیل ہے، تو میں ہنس کر کہتا ہوں: ہاں، ہے۔

لیکن وہ بابو، جو اندر سے بادشاہ ہوتے ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari