Ghuroor Ka Suraj Ghuroob Hone Wala Hai
غرور کا سورج غروب ہونے والا ہے

تاریخ انسانیت کا پہلا اور آخری سبق یہی ہے کہ غرور اور تکبر کا انجام ہمیشہ زوال اور رسوائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا: "إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الُمُسُتَكُبِرِينَ" (النحل: 23) "یقیناً اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا"۔ یہ آفاقی قانون ہے جس سے کوئی قوم یا کوئی فرد بچ نہیں سکتا۔ چاہے وہ فرعون ہو جس نے خدائی کا دعویٰ کیا، یا نمرود جس نے آسمان پر تیر چلایا، یا شداد جس نے جنت بنانے کا غرور کیا۔ سب اپنے غرور میں غرق ہو کر برباد ہوئے اور آج یہی تکبر ہمیں بھارت کے چہرے پر صاف دکھائی دیتا ہے۔
بھارت کا موجودہ سیاسی اور سماجی منظرنامہ غرور کی بدترین تصویر ہے۔ نریندر مودی اور اس کے انتہا پسند ساتھیوں نے عوام کے دلوں میں یہ فریب بٹھایا ہے کہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا، سب سے طاقتور اور سب سے اہم ملک ہے۔ یہ فریب وقتی طور پر خوشنما لگتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھارت کی گلیاں بھوک اور غربت کی چیخوں سے بھری ہیں۔ لاکھوں کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ کروڑوں نوجوان بے روزگاری کے عفریت سے لڑ رہے ہیں۔ اقلیتیں دن رات ظلم سہہ رہی ہیں۔ لیکن ان سب مسائل پر پردہ ڈالنے کے لیے غرور کی مصنوعی روشنی دکھائی جاتی ہے۔ یہی وہ روشنی ہے جو آخرکار اندھیرے میں بدل جاتی ہے۔
قرآن مجید میں آیا ہے: "وَتِلُكَ الُقُرَى أَهُلَكُنَاهُمُ لَمَّا ظَلَمُوا" (الکہف: 59) "ہم نے ان بستیوں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا"۔ یہ آیت ہمیں خبردار کرتی ہے کہ جب ظلم اور تکبر حد سے بڑھ جائے تو اللہ کا فیصلہ آتا ہے اور وہ فیصلہ ٹلتا نہیں۔ بھارت کے اندر اقلیتوں پر مظالم اسی قانونِ الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ کبھی مسلمانوں کی مساجد شہید کی جاتی ہیں، کبھی ان کے گھروں کو آگ لگا دی جاتی ہے، کبھی انہیں دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے۔ مسیحی برادری بھی محفوظ نہیں اور دلت طبقہ صدیوں سے ذلت سہ رہا ہے۔ یہ سب ظلم کے وہ پہاڑ ہیں جن پر غرور کا محل کھڑا ہے، لیکن یہ محل زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔
بھارت کے غرور کا ایک پہلو کرکٹ میں بھی جھلکتا ہے۔ آج بھارتی کھلاڑی، تبصرہ نگار اور بورڈ کے نمائندے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ "ہم کرکٹ کی سپر پاور ہیں۔ دنیا کا سارا پیسہ ہمارے بورڈ میں آتا ہے۔ آئی سی سی ہمارے اشاروں پر چلتی ہے" اور بظاہر ایسا لگتا بھی ہے کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسی پرانی کرکٹ طاقتیں بھی کئی بار ان کے دباؤ کے آگے جھک جاتی ہیں۔ لیکن یہ غرور بھی زیادہ دیر باقی نہیں رہ سکتا۔ کبھی انگلینڈ اور آسٹریلیا بھی اسی غرور کا شکار ہوا کرتے تھے اور یہی کیا کرتے تھے جو آج بھارت کر رہا ہے۔ لیکن آج غرور کی اس سزا کے نتیجے میں وہ بھارت کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ کبھی وہ بھارت کو اپنا غلام سمجھتے تھے اور اس سے ہتک آمیز سلوک کرتے تھے۔
کرکٹ کی تاریخ بار بار غرور کرنے والوں کو سبق دیتی آئی ہے۔ بھارت کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ 2007ء کے ورلڈ کپ میں جب بنگلہ دیش نے بھارت کو گروپ اسٹیج سے باہر کیا تو پورے بھارت میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ یہ شکست غرور کے لیے ایک تھپڑ تھی۔ پھر 2021ء کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں نیوزی لینڈ اور پاکستان کے ہاتھوں عبرتناک شکست نے بھارت کو شرمندہ کیا اور سب سے تازہ مثال 2023ء کے ورلڈ کپ کی ہے، جب بھارت نے پورے ایونٹ میں فتح کے جھنڈے گاڑے، مگر اپنے ہی گھر احمد آباد میں لاکھوں تماشائیوں کے سامنے فائنل میں آسٹریلیا سے بری طرح ہار گیا۔ وہ دن دنیا کو یہ دکھانے کے لیے کافی تھا کہ غرور کے محل کتنا ہی اونچا ہو، ایک دن زمین بوس ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتُ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذُنِ اللَّهِ" (البقرہ: 249) "کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آ گئیں"۔ یہ آیت میدانِ جنگ کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے میدان پر بھی صادق آتی ہے۔ بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور افغانستان جیسی ٹیموں کی جیت دراصل اللہ کی سنت کی جھلک ہے کہ چھوٹی جماعتیں بھی بڑی طاقتوں کو ہرا سکتی ہیں۔ یہ کھیل کا سبق ہی نہیں، زندگی کا بھی سبق ہے۔
بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ پیسہ اور طاقت ہمیشہ کامیابی کی ضمانت ہیں۔ یہی سوچ اس کے کرکٹ بورڈ میں ہے، یہی سیاست میں اور یہی معیشت میں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کامیابی عاجزی اور محنت میں ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "من تواضع لله رفعه الله" (صحیح مسلم) "جو اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے، اللہ اس کو بلند کرتا ہے"۔ یہ اصول کھیل کے میدان سے لے کر زندگی کے ہر شعبے پر لاگو ہوتا ہے۔ جس ٹیم نے عاجزی کے ساتھ محنت کی، وہ بلند ہوئی۔ جس نے غرور کیا، وہ شکست کھا گئی۔
بھارت نے یہ نہیں سیکھا۔ وہ اپنی شکستوں سے سبق لینے کے بجائے اور زیادہ غرور میں ڈوبتا گیا۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ پیسہ آئی سی سی کو قابو میں رکھ سکتا ہے، لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ گیند اور بلے پر فیصلہ ربّ العالمین کا ہوتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل پر اقلیتوں کو دبا سکتا ہے، لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ مظلوم کی آہ آسمان کو ہلا دیتی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہمسایہ ممالک پر دھونس جما کر خطے کے فیصلے کنٹرول کر سکتا ہے، لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ تاریخ کبھی بھی ظالموں کا ساتھ نہیں دیتی۔
بھارت کی مثال ہمیں ایک سبق دیتی ہے کہ غرور سے بچیں۔ یہ مت سوچیں کہ ہمارے پاس دولت ہے، طاقت ہے، علم ہے یا شہرت ہے تو ہم دوسروں سے برتر ہیں۔ یہ سب اللہ کی عطا ہے اور وہ لمحے بھر میں چھین بھی سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "لَئِن شَكَرُتُمُ لَأَزِيدَنَّكُمُ وَلَئِن كَفَرُتُمُ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ" (ابراہیم: 7) "اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے"۔ غرور دراصل ناشکری ہے اور عاجزی اصل شکر ہے۔
کرکٹ کے میدان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایک لمحے میں حالات بدل جاتے ہیں۔ ایک اوور، ایک گیند، ایک شاٹ پورے میچ کا نقشہ الٹ دیتا ہے۔ یہی زندگی ہے۔ غرور کرنے والا سمجھتا ہے کہ سب کچھ اس کے قابو میں ہے، لیکن ایک لمحے میں سب کچھ بدل سکتا ہے۔ آج طاقت ہے تو کل کمزوری بھی ہو سکتی ہے۔ آج عزت ہے تو کل ذلت بھی ہو سکتی ہے۔ یہی قانون اللہ کا ہے۔
بھارت کا غرور زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کے سیاسی فیصلے، معاشی بحران، اقلیتوں پر مظالم، کھیلوں میں عبرتناک شکستیں اور عالمی سطح پر تنہائی، یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ غرور کا سورج اب غروب ہونے والا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ بھارت کے عوام کو غرور کے اندھیروں سے نکالے، ان کے دلوں کو عاجزی اور انکساری سے منور کرے اور انہیں اسلام کی روشنی عطا فرمائے۔ کیونکہ حقیقی کامیابی عاجزی میں ہے، حقیقی عزت اللہ کے سامنے جھکنے میں ہے اور حقیقی امن صرف اسلام کے دائرے میں ہے۔

