Fizaon Ka Badshah
فضاؤں کا بادشاہ

فضاؤں کی دنیا اپنی الگ ہی داستان رکھتی ہے۔ زمین پر لڑنے والا سپاہی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تلوار یا بندوق کے زور پر مقابلہ کرتا ہے مگر فضا میں لڑنے والا پائلٹ زمین سے کٹ کر اپنی جان کو اس دھاگے کے سپرد کر دیتا ہے جسے ہوا کہتے ہیں۔ وہ لمحہ لمحہ موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا ہے۔ ایک ذرا سا فیصلہ غلط ہو تو زمین کی کشش ثقل اسے لمحوں میں نیچے کھینچ لیتی ہے۔ ایسے ماحول میں جو پائلٹ دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے، اپنے طیارے کو اپنے وجود کا پر پھیلا ہوا عکس بنا لے اور دشمن کی صفوں میں ہلچل مچا دے، وہی تاریخ کے صفحات پر امر ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں جب ایک سابق اسرائیلی فضائی سربراہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ پاکستانی پائلٹ موت کو چیلنج کرنے والا، بہادر، جری، نڈر اور فضاؤں کا حقیقی بادشاہ ہے تو یہ محض تعریف نہیں بلکہ ایک زندہ ثبوت ہے اس حقیقت کا کہ پاکستان ایئر فورس نے تاریخ کے اس باب میں ایسی مثال قائم کر دی جسے دشمن بھی جھٹلا نہ سکا۔
پاکستان ایئر فورس کے ان عظیم جرنیلوں میں ایک نام ایئر مارشل نور خان کا ہے۔ وہ محض ایک کمانڈر نہیں بلکہ ایک ایسا قائد تھا جس نے اپنی قیادت، بصیرت اور حوصلے سے اپنے شاہینوں کو وہ طاقت بخشی جو کسی بھی فضائی معرکے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی تھی۔ ان کا ذکر صرف پاکستان کی فضائی تاریخ ہی نہیں بلکہ دنیا کے عسکری تجزیوں میں بھی سنہری حروف سے ملتا ہے۔ جب عرب محاذ پر وقت آیا اور عرب پائلٹ دشمن کے جدید ہتھیاروں اور تجربہ کار فضائیہ کے سامنے کمزور دکھائی دے رہے تھے تو نور خان ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے نہ صرف انہیں نئی حکمت عملی سکھائی بلکہ ان کی رگوں میں وہ خون دوڑا دیا جو لڑائی کے میدان میں حوصلے کو زندگی بخشتا ہے۔ انہوں نے عرب پائلٹوں کو یہ باور کرایا کہ میدان اسلحے سے نہیں بلکہ حوصلے اور حکمت سے جیتا جاتا ہے۔
تاریخ کے صفحات پر یہ بات درج ہے کہ نور خان کے شاگردوں نے میدان میں دشمن کے غرور کو خاک میں ملایا۔ وہ لمحہ لمحہ اپنی پرواز سے ثابت کرتے رہے کہ اگر آسمان پر کوئی طاقتور ہے تو وہ وہی ہے جو ایمان کے زینے پر کھڑا ہو کر موت کو کھیل سمجھتا ہے۔ اسرائیل کی فضائیہ اس وقت دنیا کی بہترین فضائی قوتوں میں شمار ہوتی تھی، مگر جب پاکستانی شاہین عرب فضاؤں میں اڑے تو ان کے سامنے وہ سب تجربہ، ہتھیار اور غرور بکھرتا چلا گیا۔ دشمن یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ جس پائلٹ کو وہ کمزور سمجھ رہا تھا وہ اصل میں ایک ایسا شاہین ہے جو فضا میں بادشاہت کا سکہ جمانے آیا ہے۔
یہ اعزاز کسی عام فوج کو نصیب نہیں ہوتا کہ دشمن خود اس کے حوصلے اور مہارت کا اعتراف کرے۔ لیکن پاکستان ایئر فورس کو یہ اعزاز بارہا ملا ہے۔ سنہ 1965 کی جنگ سے لے کر عرب محاذ تک اور پھر کارگل کی بلندیوں اور اب اسی سال 7 مئی اور آپریشن بنیان مرصوص تک، پاکستان کے شاہینوں نے یہ حقیقت بارہا ثابت کی کہ اگر دنیا میں کوئی فضائی قوت دشمن کے دلوں پر خوف کی لکیر کھینچتی ہے تو وہ پاکستان ایئر فورس ہے۔ آج بھی عالمی عسکری اداروں میں جب فضائی جنگوں کی مثال دی جاتی ہے تو پاکستان ایئر فورس کی کارکردگی کو بطور "کیس اسٹڈی" پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔
نور خان نے نہ صرف عرب پائلٹوں کو تیار کیا بلکہ ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔ جنگ میں ہتھیار تو ہر کوئی لے کر نکلتا ہے مگر اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ دل میں کیسا حوصلہ ہے۔ نور خان نے یہی فرق پیدا کیا۔ ان کی قیادت میں لڑنے والے پائلٹ موت کو دیکھ کر لرزے نہیں بلکہ مسکرا دیے۔ دشمن کے جدید جہاز جب عرب فضاؤں میں آئے تو پاکستانی شاہینوں نے انہیں ایسی مزاحمت دکھائی کہ اسرائیلی فضائیہ کو اپنی حکمت عملی بدلنے پر مجبور ہونا پڑا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک سابق اسرائیلی فضائی سربراہ کو کہنا پڑا کہ پاکستانی پائلٹ موت کو چیلنج کرنے والا ہے، نڈر ہے، جری ہے اور فضاؤں کا بادشاہ ہے۔ یہ اعتراف دشمن کے دل سے نکلا ہوا وہ لفظ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔ کیونکہ دشمن اپنی شکست یا اپنے خوف کو کبھی زبان پر نہیں لاتا، لیکن جب حقیقت اس حد تک واضح ہو جائے کہ الفاظ روکنے کے باوجود زبان سے نکل جائیں تو وہی سچائی تاریخ کے آئینے میں امر ہو جاتی ہے۔
پاکستان ایئر فورس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کے شاہین کسی بھی محاذ پر پیچھے نہیں ہٹے۔ ان کے لئے وطن کی سرحد محض ایک لکیر نہیں بلکہ ان کی جان ہے۔ وہ لمحہ لمحہ اپنی پرواز سے دشمن کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر تم نے اس زمین کی طرف میلی آنکھ اٹھائی تو آسمان تم پر تنگ کر دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں اگر کوئی فوجی قوت خوف کا باعث ہے تو وہ پاکستان ایئر فورس ہے۔ یہ خوف کسی ظلم یا جبر کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس بہادری اور قربانی کی بنیاد پر ہے جو ان شاہینوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دی۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے یہ شاہین اپنے ایمان اور جذبے کی طاقت سے لڑتے ہیں۔ ان کے سامنے نہ وسائل کی کمی رکاوٹ بنتی ہے اور نہ ہتھیاروں کی قلت۔ ان کی اصل طاقت وہ یقین ہے جو ان کے دل میں اللہ پر ہوتا ہے۔ وہ لمحہ لمحہ اس یقین کے ساتھ پرواز کرتے ہیں کہ موت ایک لمحے کی مہمان ہے، لیکن وطن کی عزت اور حرمت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یہی یقین ان کو دشمن کے مقابلے میں بے خوف بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیلی فضائیہ کے سربراہ نے پاکستانی پائلٹ کے بارے میں کہا کہ وہ فضاؤں کا بادشاہ ہے تو یہ صرف ایک پائلٹ کی تعریف نہیں تھی، یہ پوری پاکستانی فضائیہ کی جیت تھی۔
ایئر مارشل نور خان کی قیادت نے جو ورثہ چھوڑا، وہ آج بھی پاکستان ایئر فورس کے جوانوں کے خون میں دوڑ رہا ہے۔ ان کی حکمت عملی، ان کا عزم اور ان کا حوصلہ آج بھی نئے پائلٹوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی شخصیت اس بات کی دلیل ہے کہ اصل قائد وہی ہوتا ہے جو محاذ پر اتر کر اپنے ماتحتوں کے دل جیتے، ان کے حوصلے بڑھائے اور انہیں یہ احساس دلائے کہ وہ تنہا نہیں بلکہ ان کے ساتھ ایک ایسی قیادت ہے جو مشکل ترین لمحے میں بھی ڈٹ کر کھڑی ہے۔ نور خان نے یہی کیا۔ اسی لیے وہ تاریخ میں ہمیشہ "فضاؤں کے بادشاہ" کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
پاکستان ایئر فورس کا ذکر آتا ہے تو دل فخر سے بھر جاتا ہے۔ یہ وہ ائر فورس ہے جس نے دنیا کو بارہا یہ دکھایا کہ کم وسائل کے باوجود، دشمن کے مقابلے میں جدید تکنیکی برتری کے بغیر بھی ایمان اور عزم کی طاقت سے جیت ممکن ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو ایئر مارشل نور خان نے اپنے شاہینوں کو دیا تھا۔ یہی وہ ورثہ ہے جو آج تک قائم ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے دنیا کو یہ ماننے پر مجبور کیا کہ اگر آسمان پر کوئی طاقت ہے جو دشمن کے دل میں خوف بٹھا سکتی ہے تو وہ پاکستان ایئر فورس ہے۔

