Entebbe Ka Marka, Hoslay Ki Ankahi Dastan (2)
اینٹیبے کا معرکہ، حوصلے کی اَن کہی داستان (2)

صبح یا شام کا فرق ختم ہو چکا تھا، لیکن ہوائی اڈے پر ابھی بھی رات کا خوف اور تناؤ چھایا ہوا تھا۔ کمانڈوز نے ٹرمینل میں ہر طرف نظر دوڑائی۔ وہاں اب صرف یرغمالیوں کی لاشیں پڑی تھیں اور کچھ زخمی مسافر آہستہ آہستہ سانس لے رہے تھے۔ ہر کمانڈو جانتا تھا کہ ہر لمحہ قیمتی ہے اور جلد از جلد یرغمالیوں کو آزاد کرنا، مسافروں کو جہاز تک پہنچانا اور واپس اسرائیل روانہ ہونا ضروری تھا۔
ٹرمنل کے اندر کی فضاء کا ایک عجیب امتزاج تھی: خوف، سکون اور حیرت سب ایک ساتھ موجود تھے۔ کچھ مسافر ابھی بھی کانپ رہے تھے، کچھ نے آنکھوں میں آنسو لیے اپنے پیاروں کو تلاش کیا۔ کمانڈوز نے نہایت شستہ اور تیز رفتاری کے ساتھ انہیں جمع کیا اور باہر کی طرف لے گئے۔ ہر قدم پر دشمن کے ممکنہ حملے کا خطرہ موجود تھا، مگر تربیت اور حوصلے نے کمانڈوز کو خوف سے آزاد کر دیا تھا۔
اس دوران، یوگنڈا کی فوج کا ایک حصہ ہوائی اڈے کے گرد جمع ہوگیا تھا، لیکن کمانڈوز کی تدبیریں اور زمین پر کی گئی فوجی کارروائی نے انہیں مکمل طور پر قابو میں رکھا۔ ہوائی جہاز کی طرف بڑھتے ہوئے، کمانڈوز نے ہر زاویے سے محتاط نگرانی کی، تاکہ کوئی غیر متوقع حرکت نہ ہو۔ 102 یرغمالیوں کو ہوائی جہاز میں محفوظ بٹھایا گیا۔
کمانڈوز نے ہوائی جہاز کے لئے روانگی کی تیاریاں بھی انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں کیں۔ سیڑھیاں، سامان اور ایندھن کی بھرائی سب تیزی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی۔ ہر کمانڈو جانتا تھا کہ ایک لمحہ کی غلطی انسانی جانوں کے لئے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس دوران، کچھ زخمی مسافر فوری طبی امداد حاصل کر رہے تھے اور کمانڈوز نے ان کی حفاظت کو اپنی اولین ذمہ داری بنایا۔
جہاز کے اندر، ہر یرغمالی کی آنکھوں میں خوف کے ساتھ ساتھ امید بھی جھلک رہی تھی۔ وہ جان چکے تھے کہ ان کی جانوں کو بچانے والا کوئی غیر معمولی گروہ ان کے سامنے موجود ہے۔ کمانڈوز نے بھی محسوس کیا کہ یہ محض ایک فوجی مشن نہیں، بلکہ انسانیت کی ایک عظیم کوشش ہے۔
آخرکار، جہاز کی تمام تیاریاں مکمل ہوگئیں اور کمانڈوز نے پرواز کی اجازت حاصل کی۔ ایک لمحے کے لئے پوری دنیا کی خاموشی محسوس ہوئی، جیسے وقت رک گیا ہو۔ پھر، ہوائی جہاز دھیرے دھیرے رن وے پر حرکت کرنے لگا۔ کمانڈوز نے اپنا حوصلہ برقرار رکھا، دشمن کی کسی بھی ممکنہ حرکت کے لئے تیار رہ کر۔
واپسی کا سفر طویل اور دشوار گزار تھا، لیکن ہر دل میں سکون اور فخر کا جذبہ موجود تھا۔ اسرائیل پہنچتے ہی، یرغمالیوں کی آزادیاں اور کمانڈوز کی بہادری کی خبر ملک بھر میں پھیل گئی۔ یہ کہانی نہ صرف ایک کامیاب فوجی مشن تھی، بلکہ حوصلے، قربانی اور انسانی ہمت کی ایک اَن کہی داستان بھی تھی۔
یہ تحریر قاری کو کمانڈوز کی محنت، ہوائی جہاز کی تیاری اور محفوظ واپسی کے سنسنی خیز مناظر میں لے جاتی ہے، جہاں ہر لمحہ زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا تھا۔
جہاز کے اسرائیل پہنچنے کے بعد خوشی کی لہر ہر طرف محسوس کی جا رہی تھی، مگر اینٹیبے کی زمین پر ہونے والے کچھ واقعات نے خوشی میں تلخی بھی گھول دی۔ 74 سالہ ڈورا بلاچ، جو اس بحران کے دوران بیمار ہوگئی تھیں، کو پہلے ہی ہوائی جہاز سے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ اسرائیلی کمانڈوز کی کامیابی کے باوجود، ڈورا کے ساتھ ایک المناک واقعہ پیش آیا: یوگنڈا کے فوجی حکام نے، صدر امین کے حکم پر، انہیں ہلاک کر دیا۔
اس خبر کو سن کر پوری دنیا میں اسرائیلی اور بین الاقوامی حلقوں میں صدمہ اور غصہ پیدا ہوا۔ ڈورا بلاچ کی ہلاکت ایک انسانی المیہ تھی، جس نے یہ واضح کر دیا کہ ظالمانہ فیصلے انسانیت پر کس حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ باقی تمام یرغمالیوں کی جان بچ گئی اور وہ محفوظ طور پر اپنے اہل خانہ کے پاس پہنچ گئے۔
صدر ایدی امین کا ردعمل شدید اور انتقامی تھا۔ انہوں نے کینیا میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے والے ہزاروں افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ ایئرپورٹ پر کام کرنے والے 245 کینیائی شہری ہلاک کر دیے گئے اور تقریباً 3000 افراد ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ یہ ظلم و ستم کی ایک یادگار مثال تھی کہ طاقتور کے اقدامات کی قیمت اکثر بے گناہوں کو چکانا پڑتی ہے۔
اس دوران اسرائیل میں قومی فخر اور جذبہ بڑھ گیا۔ عوام نے کمانڈوز کی بہادری کو سلام کیا اور ان کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھنے کا عہد کیا۔ کمانڈوز کی قیادت، منصوبہ بندی اور حوصلے نے عالمی سطح پر ایک مثال قائم کی کہ ان کے لیے موقع آنے پر کسی قسم کی بھی فیصلہ کن کارروائی ممکن ہے، بشرطیکہ ہمت، تدبیر اور علم کی مکمل آمیزش ہو۔
یہ تحریر قاری کو صرف کارروائی کی کامیابی کے مناظر نہیں دکھاتی، بلکہ انسانی جذبات، قربانی، انتقام اور انصاف کی پیچیدہ کشمکش بھی سامنے لاتی ہے۔ قاری محسوس کرتا ہے کہ یہ داستان صرف فوجی محاذ کی نہیں، بلکہ انسانیت کے محاذ کی بھی ہے، جہاں حوصلہ اور اخلاقیات کی آزمائش ہوتی ہے۔
اینٹیبے آپریشن کے بعد دنیا نے اسرائیل کی بہادری اور عزم کو ایک نئے زاویے سے دیکھا۔ عالمی سطح پر سیاسی ردعمل اور مباحث نے یہ ثابت کیا کہ زیادتی کے خلاف کارروائی صرف ایک ملک کی فوجی کامیابی نہیں، بلکہ بین الاقوامی اقدار، انسانی جان کی حفاظت اور انصاف کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہنگامہ ہوا۔ یوگنڈا کے وفد نے اسرائیل پر "دہشت گردانہ جارحیت" کے الزامات لگائے، جبکہ اسرائیل کے نمائندے نے مکمل شواہد کے ساتھ بتایا کہ صدر امین کی فوج نے یرغمالیوں کی حفاظت میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ہائی جیکروں کی حمایت کی۔ کئی یورپی اور امریکی ممالک نے اسرائیل کی کارروائی کی تعریف کی اور اس کے برعکس کچھ ممالک نے اسرائیل پر تنقید کی، مگر عالمی رائے میں یہ بات واضح ہوگئی کہ زیادتی کے خلاف فیصلہ کن اقدام ناگزیر تھا۔
اس دوران اسرائیلی قوم میں حوصلے اور فخر کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ یرغمالیوں کی بازیابی نے قوم کو متحد کیا اور کمانڈوز کی قربانی اور بہادری کے قصے ہر گلی، ہر محفل میں سنائے جانے لگے۔ یوناتن نتن یاہو، جو اس کارروائی میں ہلاک ہوئے، ان کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھنے کا عزم ہر دل میں جگہ بنا گیا۔ بعد میں، ان کی یاد میں اسرائیل میں تقریبات اور یادگاریں قائم کی گئیں اور ان کی داستان کو نئی نسلوں کے لیے سبق کے طور پر محفوظ کیا گیا۔
کینیا نے بھی اس کارروائی میں اہم کردار ادا کیا۔ اسرائیل کو کینیا کے ائرپورٹ پر ایندھن فراہم کرنے اور انٹیلی جنس کے معاملے میں مدد دی گئی۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں کینیا کے شہریوں کو صدر امین کی جانب سے انتقام کا سامنا کرنا پڑا، مگر کینیا کی حمایت نے عالمی سطح پر اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ ظلم و زیادتی کے خلاف اتحاد ضروری ہے۔
اینٹیبے کی اس شاندار کارروائی نے دنیا بھر کے فوجی اور انٹیلی جنس ماہرین کے لیے ایک کلاسک مثال قائم کی۔ امریکی فوج نے بعد میں ڈیلٹا فورس کے قیام میں اینٹیبے کے ماڈل کو مدنظر رکھا اور یورپی ممالک نے مستقبل میں ایسے کسی عمل کے خلاف نئے قوانین اور معاہدے بنانے کی کوششیں شروع کیں۔
اس کہانی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف ایک فوجی کارروائی کی داستان نہیں، بلکہ انسانی حوصلے، قربانی، تدبیر اور انصاف کے جذبے کی داستان بھی ہے۔ اینٹیبے ریسکیو نہ صرف اسرائیل کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک سبق ہے۔ ظلم و دہشت کے خلاف حوصلہ اور دانشمندانہ اقدام کی طاقت کبھی ضائع نہیں ہوتی۔
قاری اس تحریر کو پڑھ کر محض تاریخی واقعہ نہیں دیکھتا، بلکہ ایک حقیقی جذباتی سفر طے کرتا ہے، جہاں خوف، عزم، قربانی، انتقام اور انسانی اقدار کے درمیان کشمکش دکھائی دیتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو اینٹیبے کے معرکہ کو صرف ایک فوجی داستان نہیں، بلکہ انسانی جذبے کی ایک لازوال کہانی بناتی ہے۔

