Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Entebbe Ka Marka, Hoslay Ki Ankahi Dastan (1)

Entebbe Ka Marka, Hoslay Ki Ankahi Dastan (1)

اینٹیبے کا معرکہ، حوصلے کی اَن کہی داستان (1)

جب دنیا سناٹے اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی اور افریقی رات اپنے سناٹے کا پہرہ دے رہی تھی، ایک ہوائی جہاز نے اپنے پَر کھولے اور اسرار و حیرت کی سرحدوں کو چھو لیا۔ یہ وہ دن تھا جب مسافر بحری جہاز کی بجائے موت اور زندگی کے درمیان ایک دھاگے پر جھول رہے تھے اور ہر لمحہ اُن کے لیے خطرے کا پیغام تھا۔ یہ کہانی ہے ان کی جو بہادری، ہوش اور عقل کی روشنی سے اندھیروں میں راستہ تلاش کرتے ہوئے ایک ناممکن کو ممکن بنانے جا رہے تھے۔

27 جون 1976 کی ایک اجلی دوپہر تل ابیب سے ایئر فرانس کا ایک ہوائی جہاز روانہ ہوا۔ جہاز پر 246 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سوار تھے، جن میں زیادہ تر یہودی اور اسرائیلی شہری تھے۔ ابتدائی طور پر یہ معمول کی پرواز تھی، لیکن تقدیر نے اسے خوفناک اور غیر معمولی کہانی میں بدل دیا۔ ایتھنز میں ایک مختصر توقف کے دوران جہاز پر چار یرغمالی سوار ہوئے۔ دو فلسطینی اور دو جرمن۔ وہ جہاز کی سمت بدل کر لیبیا کی طرف لے گئے اور وہاں ایندھن کے لیے چند گھنٹے رکنے کے بعد، آخرکار یرغمالیوں کا سفر یوگنڈا کے اینٹیبے ہوائی اڈے تک پہنچا۔

یوگنڈا کے حکمران، ایدی امین، نے یرغمالیوں کی مدد کی اور ان کا استقبال ذاتی طور پر کیا۔ امین کی یہ حمایت ایک خطرناک کھیل کی شروعات تھی، جس میں انسانیت اور بہادری کی آزمائش ہونا تھی۔ یرغمالیوں نے تمام مسافروں کو ایک پرانے، بند ہوائی اڈے کے ٹرمینل میں منتقل کیا اور اسرار کی ایک دیوار کے پیچھے اُنہیں محصور کر دیا۔ یہ کوئی معمولی یرغمالی کارروائی نہیں تھی، یہ ایک منصوبہ بندی شدہ سیاسی اور عسکری چال تھی، جس کا مقصد اسرائیل میں قید فلسطینی اور دیگر بین الاقوامی قیدیوں کی رہائی پر دباؤ ڈالنا تھا۔

ابتدائی دنوں میں، یرغمالیوں نے اسرائیلی اور یہودی مسافروں کو باقی گروپ سے الگ کرکے ایک علیحدہ کمرے میں منتقل کیا۔ ان کے سامنے ایک ایسی حقیقت کھل گئی، جو ہر لمحہ موت کے سائے میں زندگی کی قیمت کو اور زیادہ واضح کر رہی تھی۔ ہر لمحہ ایک خطرہ، ہر سانس ایک چیلنج اور تمام نظریں خوف اور امید کے درمیان جھول رہی تھیں۔ غیر اسرائیلی مسافروں کو کچھ دن بعد رہائی دی گئی، لیکن اسرائیلی گروپ، جس میں 94 مسافر اور عملے کے 12 ارکان شامل تھے، یرغمالیوں کے قبضے میں رہے۔

اسرائیل کے حکومتی نمائندے ابتدا میں دو رائے میں بٹے ہوئے تھے: ایک گروہ سیاسی حل اور مذاکرات کے لیے تیار تھا، جبکہ دوسرا گروہ طاقت کے ذریعے جواب دینے کے حق میں تھا۔ موساد کی جانب سے فراہم کردہ خفیہ معلومات نے فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اسرائیلی فوج ایک رات کے اندھیرے میں چار ہزار کلومیٹر سے زیادہ کی مسافت طے کرے اور ایک ایسا معرکہ انجام دے جو تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے۔

اس کارروائی کے لیے تقریباً 100 اہلکار منتخب کیے گئے۔ ہر ایک نے اپنی مہارت اور بہادری کے لیے ایک الگ کردار ادا کیا۔ یہ صرف فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ ایک ذہنی اور جسمانی آزمائش بھی تھی، جس میں وقت کی رفتار، دشمن کی غیر متوقع حرکت اور انسانی جرات کی اہمیت تھی۔ اسرائیلی کمانڈوز نے نہ صرف زمین پر، بلکہ فضائی نگرانی، دشمن کی نفسیات اور ہر ممکن خطرے کا حساب کتاب کرتے ہوئے منصوبہ بندی کی۔

جنوبی بحیرہ احمر کے اوپر سے طیاروں نے بلند پرواز کرتے ہوئے ایریٹریا کے اوپر سے راستہ لیا اور پھر کیینیا کے شمال مشرق کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ زمین اور آسمان کے درمیان یہ سفر صرف فاصلے کا نہیں تھا، بلکہ ایک امتحان تھا کہ کس طرح انسان ناممکن کو ممکن بناتا ہے۔

رات کے سناٹے میں، اسرائیلی کمانڈوز نے اینٹیبے کے ہوائی اڈے پر لینڈ کیا۔ ابتدائی لمحے میں ہر چیز غیر یقینی تھی: ایک غلط موڑ، ایک غیر متوقع گولی، یا دشمن کی کوئی حرکت سب کچھ بدل سکتی تھی۔ لیکن کمانڈوز نے ہوش اور جرأت کے ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھایا۔ وہ جانتے تھے کہ یہاں ہر لمحہ ایک زندگی کی قیمت رکھتا ہے۔

اس تحریر کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ کس طرح انسانیت، بہادری اور عزم کے ساتھ، دنیا کے کسی بھی کونے میں ایک چھوٹا سا گروہ، ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ اینٹیبے کا یہ معرکہ صرف ایک فوجی کارروائی نہیں، بلکہ انسانی حوصلے اور فیصلہ سازی کی انتہا کی مثال تھا۔

رات کا اندھیرا اینٹیبے کے ہوائی اڈے پر چھایا ہوا تھا۔ زمین پر چھائی خاموشی اور آسمان میں ستاروں کی روشنی کے بیچ، ایک چھوٹا سا گروہ، تقریباََ ایک سو اسرائیلی کمانڈوز، اپنے مشن کی آخری تیاری کر رہا تھا۔ ہر دل میں ایک ہی جذبہ: یرغمالیوں سے لوگوں کو آزاد کرکے زندگیاں بچانا۔

ان کے پاس نہ صرف محدود وقت تھا بلکہ ہر طرف خطرات چھائے ہوئے تھے۔ یوگنڈا کی فوج، امین کے وفادار اور یرغمالیوں کی ذہانت ایک ساتھ ایک پیچیدہ جال بنا رہے تھے۔ ہر قدم احتیاط اور منصوبہ بندی کا تقاضا کر رہا تھا۔

کمانڈوز نے ہوائی اڈے پر داخل ہونے کے لیے ایک نہایت چالاک منصوبہ بنایا: ایک سیاہ مرسڈیز اور کچھ لینڈ روورز وہی گاڑیاں تھیں جو عام طور پر ایدی امین کے ساتھ نظر آتی تھیں۔ ان میں سوار کمانڈوز نے گاڑیوں کے ذریعے دشمن کی آنکھوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔

لیکن یہاں ایک انسانی منصوبہ بندی میں غلطی یا انٹیلیجنس فیلیئر ہوگیا کہ یہ معلوم نہ کیا جاسکا کہ حال ہی میں ایدی امین نے سفید مرسڈیز لے لی ہے۔ پہلے ہی لمحے میں یوگنڈا کے دو گارڈز نے کالی مرسڈیز دیکھ کر انہیں روک لیا اور اندر سوار لوگوں سے تفتیش کرنا چاہی لیکن مرسڈیز سواروں نے چاکبدستی سے سائیلنٹ رائیفل کا استعمال کرتے ہوئے ان دونوں سپاہیوں کو ہلاک کر دیا اور کچھ دیگر فوری طور پر خوف زدہ ہو گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب منصوبہ بندی اور حقیقت آپس میں ٹکرائی، لیکن کمانڈوز نے ہوش و حوصلے سے کارروائی جاری رکھی۔

ٹرمینل کے اندر حالات نہایت کشیدہ تھے۔ یرغمالی مسافر ہال میں جمع تھے، ہر آنکھ خوف اور بے یقینی میں جھول رہی تھی۔ کمانڈوز نے میگافون کے ذریعے اعلان کیا: "بیٹھ جائیں! ہم اسرائیلی فوجی ہیں!" یہ آواز خوف اور امید کی ایک آمیزش تھی، جو مسافروں کے دلوں میں ہلچل پیدا کر گئی۔

اس دوران کچھ مسافر، غیر ارادی طور پر، کمانڈوز کے لیے خطرہ بن گئے۔ ایک نوجوان فرانسیسی مہاجر، جین جیکس میمونی، بیٹھنے کی بجائے کھڑا ہوگیا اور اس غلط فہمی میں کہ شاید وہ ہائی جیکر ہے کمانڈوز کی فائرنگ کا شکار ہوا اور ہلاک ہوگیا۔ اس کے ساتھ دو دیگر مسافر بھی اس خوفناک فائرنگ کے دوران مارے گئے۔ لیکن یہی وہ لمحے تھے جب بہادری اور منصوبہ بندی کی اہمیت اور بھی واضح ہوگئی۔

کمانڈوز نے فوراً تمام یرغمالیوں کو قابو میں کرنے کی کوشش کی۔ گرینیڈ پھینکے گئے، ہال کے کونے میں موجود دشمن کے چھپنے کے مقامات نشانہ بنائے گئے اور ایک منظم حملے کے ذریعے یرغمالیوں کا صفایا کیا گیا۔ ہر فائر، ہر حرکت، ہر قدم ایک زندگی کی بازی لگاتا تھا۔ 30 منٹ کی اس شدید کارروائی میں سب کچھ طے پایا: یرغمالی ہلاک ہوئے، 102 افراد کی جان بچائی گئی اور ایک ہی کمانڈو، یوناتن نیتن یاہو، نے اس مشن میں اپنی جان دی۔

اس کارروائی کی خاص بات یہ تھی کہ یہ صرف فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ حکمت عملی اور جذبات کا ایک شاندار امتزاج تھا۔ ہر کمانڈو نے اپنی مہارت اور حوصلے سے نہ صرف دشمن کا مقابلہ کیا بلکہ مسافروں کی زندگیوں کو بھی محفوظ بنایا۔ یہ وہ لمحات تھے جب پیشہ وارانہ مہارت اور قابلیت کے روشن پہلو نے خطرے کے سائے کو شکست دی۔

یہ تحریر قاری کو اینٹیبے کے ہوائی اڈے کی رات، کمانڈوز کے بہادری بھرے اقدام اور یرغمالیوں کے خوفناک منصوبے کے درمیان جھولنے کا موقع دیتی ہے۔ یہ کہانی حوصلے اور قربانی کی علامت بن گئی اور تاریخ میں سنہری حروف سے یاد کی جانے لگی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan