Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Emma Raducanu

Emma Raducanu

ایما راڈوکانو

کبھی کبھی زندگی کے سفر میں ایسے موڑ آتے ہیں جو انسان کو حیرت کے سمندر میں غوطہ زن کر دیتے ہیں۔ یہ موڑ محض قسمت کے کھیل نہیں ہوتے بلکہ اس میں خوابوں کی شدت، جدوجہد کی آگ، قربانیوں کی تلخی اور وقت کے ساتھ جیتے جانے والے امتحانات کی سچائی چھپی ہوتی ہے۔ ایک عام سی بچی، جس کے بینک اکاؤنٹ میں پانچ سال پہلے صرف 44 پاؤنڈز تھے، آج برطانیہ کی وہ چمکتی ہوئی ستارہ بن چکی ہے جس کے پاس 13.5 ملین پاؤنڈز کی دولت ہے۔ یہ ہے ایما راڈوکانو کی کہانی، جسے اگر تقدیر اور محنت کا حسین امتزاج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

ایما راڈوکانو کی زندگی کی کہانی کسی فلمی منظرنامے سے کم نہیں۔ 2021 وہ سال تھا جب وہ صرف اٹھارہ برس کی تھیں اور نیویارک کے مشہور یو ایس اوپن کے ٹینس کورٹ پر اترنے والی تھیں۔ دنیا کو شاید اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایک گمنام سی لڑکی اگلے چند دنوں میں وہ تاریخ رقم کرنے جا رہی ہے جو صدیوں یاد رکھی جائے گی۔ اس وقت نہ اس کے پاس بڑے بڑے ٹائٹلز کا ذخیرہ تھا، نہ ہی کسی بڑے نام کی سرپرستی، مگر دل میں آگ تھی اور ہاتھوں میں وہ طاقت جو خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا ہنر جانتی تھی۔

یو ایس اوپن کا وہ لمحہ جب اس نے چیمپئن شپ پوائنٹ جیتا تو پورا میدان گونج اٹھا۔ دنیا نے ایک نئی ہیروئن کو جنم لیتے دیکھا۔ یہ جیت محض ایک ٹائٹل نہیں تھا، یہ ایما کی قسمت کا دروازہ کھلنے کی پہلی کنجی تھی۔ اس وقت تک شاید خود اس نے بھی سوچا نہ ہو کہ یہ ایک کامیابی اس کی زندگی کو زمین سے آسمان تک لے جائے گی۔ پانچ سال پہلے جن کے پاس بمشکل چوالیس پاؤنڈز تھے، وہ اب لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی مالک بننے جا رہی تھیں۔

لیکن زندگی ہمیشہ سیدھی لکیر میں نہیں چلتی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ 2021 کے بعد اب تک وہ کوئی ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ بظاہر یہ ایک تضاد ہے۔ ایک طرف وہ دنیا کے سب سے بڑے اسٹیج پر تاریخ رقم کرتی ہیں اور دوسری طرف مستقل مزاجی کے ساتھ اگلے ٹائٹلز اپنے نام نہیں کر پاتیں۔ ناقدین کی زبان پر سوال ہیں، ماہرین شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ شاید یہ کامیابی ایک اتفاق تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہانی صرف کورٹ پر جیتنے اور ہارنے کی نہیں۔ اس کہانی کا اصل جادو کورٹ کے باہر ہے۔

ایما نے یہ راز جان لیا کہ کھیل صرف کھیل نہیں رہا، یہ ایک عالمی صنعت بن چکا ہے۔ جیت کی چمک وقتی ہوسکتی ہے، مگر شخصیت کی کشش اور کردار کی طاقت مستقل سرمائے میں بدل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی دنیا کی مشہور ترین کمپنیوں کی برانڈ ایمبیسڈر ہیں۔ فیشن ہاؤسز، اسپورٹس برانڈز، گھڑی ساز کمپنیاں، حتیٰ کہ بڑی بڑی کمرشل مہمات میں وہ مرکزی چہرہ ہیں۔ اگرچہ کورٹ پر ان کے ٹائٹلز کی تعداد کم ہے لیکن آف دی کورٹ ان کی مقبولیت، مسکراہٹ، اعتماد اور شخصیت کی روشنی انہیں سرمایہ داروں اور برانڈز کے لیے سب سے قیمتی چہرہ بنا دیتی ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیسے ممکن ہے؟ دنیا تو فاتحین کے پیچھے بھاگتی ہے، تو پھر ایک کھلاڑی جس نے دو سالوں میں کوئی بڑا ٹائٹل نہیں جیتا وہ اب بھی کمپنیوں کی پہلی پسند کیسے ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ دنیا اب صرف جیت دیکھنے نہیں آتی بلکہ ایک کہانی چاہتی ہے۔ ایک خواب کی تعبیر چاہتی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں ایک ایسا کردار دکھائی دے جس میں وہ اپنے آپ کو دیکھ سکیں۔ ایما راڈوکانو وہی کردار ہیں۔ ان کی کہانی محض ٹینس کی کہانی نہیں، یہ غربت سے خوشحالی، گمنامی سے شہرت اور شکست سے امید کا استعارہ ہے۔ یہی کشش دنیا کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

ایما کی شخصیت میں یہ عجیب امتزاج ہے کہ وہ بیک وقت ایک پروفیشنل ایتھلیٹ بھی ہیں اور ایک عام سی لڑکی بھی۔ ان کے فینز ان میں ایک چمکتا ہوا خواب دیکھتے ہیں۔ وہ خواب جو انہیں بتاتا ہے کہ اگر ایک لڑکی جس کے پاس صرف 44 پاؤنڈز ہوں، دنیا کے سب سے بڑے کورٹ پر جیت سکتی ہے تو شاید وہ بھی اپنی زندگی میں کچھ بڑا کر سکتے ہیں۔ یہ پیغام کسی بھی برانڈ کے لیے سونے کی کان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دولت کا اصل ذریعہ ٹینس کے انعامات سے زیادہ اسپانسرشپس ہیں۔

اب اگر ہم ذرا گہرائی میں دیکھیں تو یہ کہانی صرف ایما کی نہیں بلکہ آج کی دنیا کی بھی ہے۔ کھیل اب محض میدان کی کارکردگی تک محدود نہیں رہا۔ اب یہ میڈیا، مارکیٹنگ اور برانڈنگ کا کھیل بھی ہے۔ ایک کھلاڑی کی جیت اسے کچھ وقت کے لیے یادگار بنا سکتی ہے، مگر اس کی شخصیت، اس کی عوامی مقبولیت اور اس کی کہانی اسے نسلوں تک زندہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راڈوکانو کے اکاؤنٹ میں کروڑوں جمع ہیں حالانکہ وہ کئی مہینوں سے بڑے ٹائٹلز سے محروم ہیں۔

اس کہانی میں ایک اور سبق بھی چھپا ہے۔ اکثر ہم یہ سوچتے ہیں کہ کامیابی صرف مستقل جیتنے والوں کے حصے میں آتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھی ایک لمحے کی جیت انسان کو اتنی بلندی پر پہنچا دیتی ہے کہ باقی زندگی اس کا اثر قائم رہتا ہے۔ یو ایس اوپن کا وہ ایک ٹائٹل ایما کو وہ بلندی دے گیا جو شاید کئی کھلاڑیوں کو درجنوں ٹائٹلز جیت کر بھی نصیب نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ یہ کامیابی اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک انسان اپنی شخصیت کو نکھارنے اور دنیا سے جڑنے کا ہنر نہ جانتا ہو۔ ایما نے یہ ہنر سیکھ لیا ہے۔

اس سفر میں ایک اور پہلو بھی ہے جو ہمیں حیران کر دیتا ہے۔ دولت آتی ہے تو انسان بدل جاتا ہے، لیکن ایما کی شخصیت میں سادگی اور حقیقت پسندی اب بھی جھلکتی ہے۔ وہ اب بھی محنت کرتی ہیں، اب بھی میدان میں اترتی ہیں اور اب بھی اگلے بڑے ٹائٹل کا خواب دیکھتی ہیں۔ ان کے اندر ایک جیتنے والی کھلاڑی کی آگ اب بھی زندہ ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کو ان کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔

یہ کہانی ہمارے لیے بھی سبق آموز ہے۔ ہم اکثر شکایت کرتے ہیں کہ حالات ہمارے ساتھ نہیں، وسائل کم ہیں، موقعے نہیں ملتے۔ لیکن اگر ہم ایما کی کہانی کو دیکھیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ خواب چھوٹے ہوں یا بڑے، اگر ان کے ساتھ لگن اور حوصلہ شامل ہو تو وہ حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ 44 پاؤنڈز سے 13.5 ملین پاؤنڈز کا یہ سفر ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کے لیے کوئی بھی رکاوٹ مستقل نہیں ہوتی۔ دنیا صرف ایک موقع دیتی ہے اور اگر آپ نے اس موقع کو بھرپور طریقے سے تھام لیا تو آپ کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل سکتی ہے۔

یہ کہانی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ کامیابی کے کئی پیمانے ہیں۔ کچھ لوگ ٹرافیاں جمع کرتے ہیں، کچھ اعزازات اور کچھ دل جیت لیتے ہیں۔ ایما راڈوکانو نے تینوں میں سے وہ پیمانہ چنا ہے جو سب سے زیادہ دیرپا ہے۔ لوگوں کے دل۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی خبروں میں ہیں، برانڈز کی پسندیدہ ہیں اور دنیا بھر کے نوجوانوں کے لیے امید کا استعارہ ہیں۔

ایما کی داستان ہمیں ایک اور سبق دیتی ہے، زندگی کا کھیل صرف کورٹ پر نہیں کھیلا جاتا۔ اصل کھیل تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ کورٹ سے باہر نکلتے ہیں، دنیا کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں اور اپنے کردار کو زندہ رکھتے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ آج بھی اپنے چاہنے والوں کے لیے روشنی کی کرن ہیں۔

یہی ہے ایما راڈوکانو کی جادوئی کہانی، جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خواب دیکھنے والوں کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ بس ضرورت ہے تو اس لمحے کو پہچاننے کی، جب قسمت آپ کو دروازہ کھول کر ایک موقع دیتی ہے۔ باقی کام آپ کی ہمت، آپ کا جذبہ اور آپ کا یقین کرتا ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari