Dushman Ko Janne Ka Aik Ghair Mutwaqa Moqa
دشمن کو جاننے کا ایک غیر متوقع موقع

میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ دشمن کو جاننے کا ایک بہترین موقع یوں سر راہے ایک عام سے کمرے کی شیئرنگ میں مل جائے گا۔ یہ مئی 1997 کا ذکر ہے جب دنیا کے مختلف ملکوں کے کچھ پائلٹس نوے دن کے ایک فلائنگ کورس کے لیے اردن کے کنگ حسین ائر بیس پر جمع ہوئے۔ مجھے وہ لمحہ یاد ہے جب مجھے کمرہ الاٹمنٹ کی لسٹ ملی اور میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ ایک اسرائیلی ہواباز کا نام لکھا ہے۔ مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ میں فوراً مقامی کرنل انچارج کے پاس پہنچ گیا اور مودبانہ عرض کیا: سر، آپ نے میرا روم میٹ اسرائیلی ہوا باز رکھ دیا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں ہماری ان سے بنتی نہیں ہے، نہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو براہِ کرم اسے بدل دیں۔
کرنل نے قلم اٹھایا، لیکن قلم استعمال کرنے سے پہلے وہ مجھ پر نظر ڈال کر بولا: آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے اور آپ کے لیے یہ بات ایک خبر سے کم نہ ہو کہ اسرائیلی پائلٹ نے مجھ سے خود درخواست کی ہے کہ وہ کمرے میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ میں چونکا۔ پوچھا: واقعی؟ تو کرنل نے کہا: جی بالکل، مگر اگر آپ چاہیں تو میں اسے کہیں اور رہائش دے دیتا ہوں۔ میں نے فوراً جواب دیا: نہیں، اگر وہ خود چاہتا ہے تو اسے میرے ساتھ ہی رہنے دیں۔ اگر دشمن نے یہ چیلنج دیا ہے اور میں انکار کر دوں تو پھر میں پاکستانی نہیں ہوں۔ میں نے وہ چیلنج قبول کر لیا۔
ہر اجنبی کی طرح ہمیں بھی ایک دوسرے کے قریب آنے میں چند روز لگے۔ ہر بات میں احتیاط، ہر مسکراہٹ میں تلخ سا سایہ۔ مگر وقت گزرا، روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی گفتگوؤں نے اجنبیت اور تکلف کی دیواریں گرا دیں۔ باہمی اعتماد قائم ہوا۔ ہم صبح ایک ساتھ کلاس میں جاتے، شام کو اکٹھے کھانا کھاتے اور چھوٹے چھوٹے لمحات میں سچی باتیں شروع ہوئیں۔ اعتماد آہستہ آہستہ اپنے پیر جماتا گیا اور ہم دونوں کی سوچ بدل گئی۔ ایک دن میں نے اس سے براہِ راست پوچھا: کیا واقعی تم نے کرنل سے میرے ساتھ رہنے کی درخواست کی تھی؟ اس نے ساده سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ہاں۔ پھر میں نے پوچھا: کیوں؟ اس کا جواب میری زندگی بدل دینے والا تھا۔
وہ بولا: "ہمیں تمہارے ملک پاکستان کو ایک دشمن ملک کے طور پر پڑھایا گیا ہے۔ ماں کی گود، مکتب، اسکول، یونیورسٹی، ملٹری اکیڈمیز، سبھی جگہ آپ لوگوں کو ایک دشمن کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ ہمارے اساتذہ نے ہمیں کہا کہ اسرائیل کا دشمن عرب نہیں، پاکستان ہے۔ میں نے سوچا جب موقع ملا ہے تو حقیقت جاننے کے لیے دشمن کو قریب سے دیکھنا چاہیے۔ نوے دن کے لیے تمہارے ساتھ رہ کر دیکھوں گا کہ تم کیا ہو، تم کیسے سوچتے ہو، تمہارا طرزِ زندگی کیسا ہے"۔
اس کی یہ مختصر مگر جامع وضاحت میری روح میں ایک ایسی چیز جلا گئی جو پہلے کہیں مدہم پڑی ہوئی تھی۔ پہلے میں صرف ایک پیدائشی پاکستانی تھا، مگر اس دن سے میں وہ پاکستانی بن گیا جو اپنے لیے دل سے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اس اسرائیلی پائلٹ نے جب ایک سیدھی سی دلیل دی کہ انہیں اپنے لیڈروں نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ ہم کون ہیں، مگر ہمیں اپنے لیڈروں نے نہیں بتایا کہ ہم کیا اور کون ہیں؟ تو میں چونک پڑا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ دنیا کی تاریخ میں صرف دو ملک نظریے کی بنیاد پر بنے ہیں: ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل، دونوں مخالف سمتوں میں ابھرے، دونوں کے پیچھے مختلف قوتیں اور عقیدے ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ایک دن ہماری آمنے سامنے لڑائی ہوگی اور اس کے لیے ہر طرف سے تیاریاں ہو رہی ہیں۔
اس کی باتوں نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، مگر کہیں زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی جب اُس نے ہماری کمیوں اور طاقتوں پر بات کی۔ اس نے کہا: "تم لوگ ایک پینسل تک خود نہیں بنا سکتے، مگر تم نے دنیا کا بہترین ایٹم بم بنا لیا۔ تم فائیٹر جیٹ بنانے جا رہے ہو، بین الاقوامی مقابلوں میں تم شاندار کارکردگی دکھاتے ہو اور تمھاری فوج ایک انتہائی پروفیشنل فوج ہے۔ یہ سب محض اتفاق نہیں۔ یہ کسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے"۔ اس نے میرے ملک کی تعریف کی، ہماری مہمان نوازی، ہمارے کھیت، پہاڑ، دریا، ہوا۔ وہ سب کچھ جسے میں محسوس تو کرتا تھا مگر شاید الفاظ میں بیان نہیں کر پاتا تھا، اُس نے ایسے سادہ اور محبت بھرے انداز میں پیش کیا کہ میری آنکھوں میں نمی آگئی۔
اس کی باتوں نے مجھے اندر سے جگایا۔ میں نے سوچا: ہم نے اپنی شناخت کے بارے میں کتنا کم سوچا ہے؟ اپنے وطن کی قدر ہم نے کہاں کھو دی تھی؟ وہ اسرائیلی دوست کہتا تھا کہ تم سوئے ہوئے ہو، تمہارے لیڈر تمہیں وہ نہیں بتا رہے جو تم ہو اور تم سے کیا توقع رکھی گئی ہے۔ یہ الفاظ تیز تیر تھے، مگر حقیقت میں ان میں ایک طرح کی محبت بھی تھی۔ محبت اپنی شناخت جاننے کی۔ اس نے مجھ پر یہ بھی اثَر ڈالا کہ میں نے اپنے بچوں سے وعدہ کیا کہ ہم اس ملک کو کبھی نہیں چھوڑیں گے، چاہے باہر رہنے کے کتنے ہی آسان راستے ہوں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جہاں بھی رہوں، اپنے وطن میں رہوں گا اور اسے بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔
یہ کہانی صرف ایک دوستانہ ملاپ سے آگے بڑھ کر ایک سبق بن گئی: دشمن کو جاننا صرف نفرت، خوف یا مقابلے کا نام نہیں، بلکہ یہ سمجھنا ہے کہ وہ کیا سوچتا، کیسے منصوبہ بندی کرتا، کون سی قدریں اس کو آگے بڑھاتی ہیں اور وہ خود کو کس طرح تشکیل دیتا ہے۔ جب آپ دشمن کے نقطۂ نظر کو سمجھ لیتے ہیں تو آپ اپنی کمزوریوں اور طاقتوں کا بھی بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو کمتر سمجھنے کے بجائے اپنی طاقتوں کو پہچانیں اور انہیں مضبوط کریں۔ تاکہ دشمن ہماری حدوں کو سمجھ لے اور ہمارے سامنے آنے کی ہمت نہ کرے۔ یہ ایک بہترین ڈیٹیرنس ہے۔
میں نے اس اسرائیلی دوست کے ساتھ گزارے وقت میں یہ بھی محسوس کیا کہ دشمن ہونا یکطرفہ احساس نہیں ہوتا، کبھی کبھی دشمنی سکھائی جاتی ہے، کبھی کبھی وہ پالے پوسے تناظر کی پیداوار ہوتی ہے۔ جب انسان اپنے مخالف سے مل کر بات کرتا ہے، جب وہ اس کی بات سنتا ہے، تبھی وہ جانتا ہے کہ حقیقت اکثر ایک دھار دار تصویر سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔ اسی لیے میں نے اپنے قارئین سے ایک عاجزانہ گزارش کرنی ہے: دشمن کو جاننا ہمیں خوفزدہ نہیں کرے گا بلکہ ہمیں مضبوط کرے گا۔ دشمن کی قابلیت، اس کی منصوبہ بندی، اس کے وسائل، اس کی بہادری و جان نثاری، یہ سب جان کر ہم اپنی حکمتِ عملی بہتر کر سکتے ہیں۔ مگر یاد رہے، یہ جاننا نفرت یا توڑ پھوڑ کا بہانہ نہ بنے۔ علم روشنی ہے اور روشنی سے ہم بہتر فیصلے کرتے ہیں۔
اب میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کو اگلی اقساط میں اس اسرائیلی دشمن کی وہ کہانی سناؤں گا جو راتوں کی تاریکی میں یوگنڈا کے شہر اور ایئرپورٹ اینٹیبے میں جولائی 1976 میں انجام پائی۔ ایک مکمل سوچا سمجھا، جرات مندانہ اور بے خوف آپریشن کی داستان۔ تاکہ آپ جان سکیں کہ ہمارا دشمن کیا کر سکتا ہے، کیسے کرتا ہے اور کس حد تک جراتمند اور بے باک ہے۔ یہ کہانی ہمیں یہ نہیں دکھائے گی کہ ہم ہار چکے ہیں یا ہمیں خوفزدہ ہونا چاہیے، بلکہ یہ ہمیں خبردار کرے گی اور ہم سے عہد لے گی کہ ہم دشمن کے اندازِ کار اور نفسیات کو سمجھ کر اپنی صلاحیتوں کو کہیں زیادہ اہلیت، قابلیت اور بے خوفی کے ساتھ نکھاریں۔
یاد رکھیے: ہم کسی طور پر کم نہیں۔ ہماری زمین، ہمارے درخت، ہمارے دریا، ہماری محنت، ہماری تربیت، ہمارے لوگ، ہماری اقدار اور ہماری جڑیں۔ یہ سب ہمیں وہ طاقت دیتی ہیں جو دنیا کے کسی بھی حصے سے کم نہیں۔ مگر دشمن کو جان کر ہم اپنے اندر کی خامیوں کو دور کریں گے، اپنی حکمت عملی کو بہتر بنائیں گے اور ایک ایسا دفاعی و ترقیاتی راستہ اختیار کریں گے کہ دشمن جب بھی ہمارے سامنے آئے تو پہلے سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آیا وہ خود اس آزمائش کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔
یہ کہانی ایک دوستی سے شروع ہوئی، مگر اس میں ہمیں وہ سبق ملا جو شاید بہت سی کتابوں اور تقریروں میں نہ ملے۔ دشمن کو جاننا ایک چیلنج ہے۔ اسے اپنے اس بہادر پائیلٹ کی طرح قبول کریں، سمجھیں اور پھر ہر قدم اس کامل عہد اور ایمان سے اٹھائیں کہ ہم اپنے وطن کو بہتر سے بہتر بنائیں گے۔ اگلی قسط میں اینٹیبے کی اس رات کا ذکر ہوگا۔ ایک آپریشن جسے جان کر آپ کے اندر ایک نیا شعور اور بے خوف جرات جنم لے گی۔

