Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Dunya Ki Pehli University, Jamea Al Qarawiyyin

Dunya Ki Pehli University, Jamea Al Qarawiyyin

دنیا کی پہلی یونیورسٹی "جامعہ القرویین"

جب ہم علم، درس و تدریس اور تعلیمی اداروں کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اکثر ذہن میں جدید مغربی یونیورسٹیوں کی بلند و بالا عمارات، کانووکیشن کی چمکتی گاؤنیں، یا آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ جیسے نام آتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ یونیورسٹی کا تصور شاید مغرب کی دین ہے۔ مگر جب تاریخ کے پردے ہٹتے ہیں، جب کتابوں کے گرد جمی دھول صاف ہوتی ہے، جب صدیوں پرانی خاموش عمارتیں بولنے لگتی ہیں، تو ایک ایسا روشن نام سامنے آتا ہے جو نہ صرف علم کا مرکز تھا بلکہ تہذیب، وقار اور روحانیت کا منبع بھی، جامعہ القرویین۔

فاس، مراکش کی پرشکوہ فضاؤں میں ایک تاریخ سانس لیتی ہے، ایک صدیوں پرانا سایہ دیوار و در سے جھانکتا ہے۔ یہاں، 859 عیسوی میں، ایک عورت نے وہ کام کیا جو اس کے وقت میں صرف مردوں سے وابستہ سمجھا جاتا تھا۔ فاطمہ الفہری۔ یہ نام تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ، دیندار اور دور اندیش خاتون، جس نے نہ شہرت کے لئے، نہ دولت کے لیے، بلکہ صرف خدا کی رضا اور علم کے فروغ کے لیے ایک ایسی جامع مسجد اور درسگاہ کی بنیاد رکھی جو آج بھی قائم ہے اور اسے دنیا کی سب سے قدیم فعال یونیورسٹی مانا جاتا ہے۔

فاطمہ الفہری کا خاندان تیونس سے ہجرت کرکے مراکش آیا تھا۔ ان کے والد ایک معزز اور مالدار تاجر تھے۔ جب ان کے والد اور شوہر کا انتقال ہوا تو فاطمہ کے پاس وراثت میں خاصی دولت آ گئی۔ مگر اس دولت نے ان کے دل میں دنیا کی حرص پیدا کرنے کے بجائے ایک سچا شوق جگایا، علم بانٹنے کا، جہالت کے اندھیرے مٹانے کا اور ایسی روشنی جلانے کا جو صدیوں تک ٹمٹماتی رہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تمام وراثت خدا کے راستے میں وقف کر دی اور جامعہ القرویین کی بنیاد رکھی۔

یہ درسگاہ ابتدا میں ایک مسجد تھی، جہاں نماز کے ساتھ ساتھ علم کی شمع بھی روشن کی گئی۔ لیکن وقت کے ساتھ، یہ صرف مسجد نہ رہی، بلکہ ایک باقاعدہ تعلیمی ادارہ بن گئی۔ یہاں فقہ، علم حدیث، طب، فلسفہ، ریاضی، منطق، گرامر اور ستاروں کا علم (ہیئت) پڑھایا جاتا۔ نہ صرف مسلمان طلبا یہاں آتے، بلکہ یہودی اور عیسائی طلبا بھی یہاں علم حاصل کرتے۔ اسپین، مصر، اندلس، مغرب اور افریقہ کے گوشے گوشے سے لوگ یہاں آ کر علم کا زاد راہ لیتے۔

یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا نہ صرف علماء اور فقہا بنتے، بلکہ بادشاہوں کے مشیر، قاضی، فلسفی اور سائنسدان بھی بنتے۔ یہاں کا نصاب وہ نہ تھا جو صرف دین تک محدود ہو، بلکہ اس میں دنیاوی علوم بھی شامل تھے اور وہ بھی اس ترتیب اور تنظیم کے ساتھ جسے آج کی جدید یونیورسٹیوں میں"فیکلٹی سسٹم" کہا جاتا ہے۔ ہر علم کے لیے الگ ماہر اساتذہ، مخصوص کتب اور درسی طریقے موجود تھے۔ طلبا کو باضابطہ اجازت نامے (Ijazah) دی جاتی تھیں جو آج کی "ڈگری" کہلاتی ہیں۔

یہ سب کسی حکومتی سرپرستی سے نہیں، بلکہ ایک عورت کی نیت، اخلاص اور عمل سے ممکن ہوا۔ وہ عورت جس نے نہ صرف اپنے مال کو وقف کیا بلکہ تعمیر کی نگرانی، نقشے کا انتخاب، حتیٰ کہ روزہ رکھ کر خود اس مقدس مقام کی بنیاد رکھی اور ایسا بھی ہوا کہ کئی سال وہ مسلسل روزے رکھتی رہیں یہاں تک کہ تعمیر مکمل ہوئی۔ ایسی عظمت، ایسی للہیت اور ایسا شعور، کیا یہ کافی نہیں کہ ہم اس عظیم خاتون کو تاریخ کے ماتھے کا جھومر مانیں؟

فاطمہ الفہری کا یہ عمل محض ایک ذاتی کاوش نہ تھی، یہ ایک تمدنی پیغام تھا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ عورت نہ صرف علم حاصل کر سکتی ہے بلکہ علم بانٹنے کی ذمہ داری بھی سنبھال سکتی ہے۔ ایک ایسا پیغام جو آج کی دنیا میں پھر سے دہرائے جانے کی اشد ضرورت ہے، جہاں تعلیم اب بھی بعض معاشروں میں صنفی تفریق کی نذر ہو رہی ہے۔ اگر 9ویں صدی میں فاطمہ الفہری علم کی روشنی عام کر سکتی تھیں، تو آج کی دنیا میں عورتوں کو اس دائرے سے کیوں محروم رکھا جائے؟

جامعہ القرویین کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ یہاں علم کے ساتھ ادب اور کردار کی تربیت بھی کی جاتی تھی۔ استاد اور شاگرد کے تعلقات میں ادب، وقار اور روحانی تعلق کا عنصر غالب ہوتا۔ علم صرف زبانی یادداشت نہ تھا، بلکہ اس کے ساتھ فہم، شعور اور عمل کی تربیت بھی ہوتی۔ یہ درسگاہ محض علم کا گہوارہ نہ تھی بلکہ روح کی سیرگاہ تھی، جہاں علم انسان کو اس کی اصل پہچان سے روشناس کراتا تھا۔

صدیاں گزر گئیں، حکمران بدلے، سلطنتیں آئیں اور گئیں، مگر جامعہ القرویین کی شمع بجھی نہیں۔ یہ شمع آج بھی جل رہی ہے۔ مراکش کی سرزمین پر آج بھی وہ مسجد اور اس کے پہلو میں بنی ہوئی یونیورسٹی موجود ہے، جہاں وقت کی گرد نے کچھ زخم ضرور دیے ہیں، مگر اس کے وجود کو مٹا نہ سکی اور شاید یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں آج فخر سے اپنے قیام کی تاریخ بتاتی ہیں، کوئی 1800 کی دہائی میں بنی، کوئی 1600 میں، کوئی 1200 میں۔ مگر جامعہ القرویین اس وقت علم بانٹ رہی تھی جب یورپ تاریکی کے عہد سے گزر رہا تھا، جب رومن سلطنت کے زوال نے مغربی دنیا کو علمی پیچھے دھکیل دیا تھا، جب دنیا اندھیروں میں تھی، تو اسلام نے اور ایک مسلمان عورت نے، علم کی مشعل بلند کی۔

یہ حقیقت بھی غور طلب ہے کہ جامعہ القرویین سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں کچھ ایسے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے یورپ کی علمی تحریک میں کردار ادا کیا۔ اسپین کے راستے جب مسلمان علوم یورپ میں پہنچے تو ان میں سے کئی علوم کی بنیادیں انہی اداروں سے لی گئی تھیں اور اسی پس منظر میں یورپ کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کا آغاز ہوا۔

علم، جب خلوص نیت سے، فلاح انسانیت کے لیے دیا جائے، تو وہ نسلوں کو بدل دیتا ہے اور جب وہ علم عورت کے ہاتھ سے دیا جائے تو وہ قومیں بدل دیتا ہے۔ فاطمہ الفہری کی زندگی، ان کا وژن، ان کی قربانی اور ان کا ادارہ، یہ سب ہمیں بتاتے ہیں کہ علم کا کام صرف ادارے بنانے کا نہیں بلکہ انسان بنانے کا ہے۔ وہ انسان جو علم سے جُڑ کر صرف ذہین نہیں، باکردار بھی ہو جائے۔

اور جب ہم آج کے دور میں تعلیم کے معیار، تعلیمی اداروں کی نیت اور علم کے مقصد پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں فاطمہ الفہری کی طرف پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ علم کی بنیاد دولت، مارکیٹنگ، شہرت یا ڈگریوں پر نہیں، بلکہ اخلاص، خیر اور رب کی رضا پر ہونی چاہیے۔ تبھی وہ علم واقعی روشنی بنے گا، بصیرت بنے گا اور بندگی کا راستہ دکھائے گا۔

جامعہ القرویین صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں، ایک علامت ہے، اس بات کی علامت کہ ایک انسان، ایک عورت، اگر نیت کر لے، تو وہ نسلوں کے مقدر بدل سکتی ہے۔ اس کی دی گئی روشنی صدیوں کے اندھیروں کو چیر سکتی ہے اور آج بھی، اگر کوئی فاطمہ الفہری پیدا ہو جائے، تو ایک نئی جامعہ القرویین بن سکتی ہے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed