Do Azeem Adabi Dunyaon Ka Mussafah
دو عظیم ادبی دنیاؤں کا مصافحہ

بیجنگ کی ایک شام، جب خزاں اپنی سنجیدگی کے ساتھ درختوں کے پتوں میں سرگوشیاں کر رہی تھی، روسی ثقافتی مرکز کی عمارت میں ایک خوبصورت منظر رقم ہو رہا تھا۔ کتابوں، شاعری، ترجمے اور تہذیبوں کی خوشبو سے لبریز یہ منظر "چائنا۔ رشیا لٹریچر سیلون" کے عنوان سے منعقد ہونے والے ایک غیر معمولی ادبی مکالمے کا تھا، جسے Global Times نے اپنے سلسلہ "Reading through the Seasons" کے تحت منعقد کیا۔ یہ محفل صرف ایک تقریب نہیں تھی، بلکہ ایک فکری و روحانی مکالمہ تھی۔ دو عظیم تہذیبوں کے درمیان ایک خاموش مگر گہری گفتگو، جو لفظوں اور احساسات کے ذریعے جاری تھی۔
یہ ادبی اجتماع دراصل صدر شی جن پنگ کے ثقافتی افکار کے فروغ اور مختلف تہذیبوں کے درمیان باہمی سیکھنے کے اصول کو عملی صورت دینے کی ایک کوشش تھی۔ چین اور روس نے حال ہی میں اپنے باہمی تعلقات کے "سالِ ثقافت" کا اعلان کیا ہے اور اسی پس منظر میں یہ سیلون گویا دو قوموں کے درمیان ایک نیا ادبی پل تعمیر کرنے کی سعی تھی۔ تقریب کا آغاز Global Times کے نائب مدیرِ اعلیٰ بائی لونگ اور روسی سفارت خانے کی مشیر نتالیہ سٹپکینا کی تقریروں سے ہوا۔ دونوں مقررین کے الفاظ میں ایک مشترک نکتہ جھلک رہا تھا، یہ کہ ادب اور ثقافت وہ طاقت ہیں جو سرحدوں سے ماورا انسانی دلوں کو جوڑتی ہیں۔
بائی لونگ نے بڑی سادہ مگر گہری بات کہی کہ چین اور روس کے درمیان ادبی تبادلے ایک دوطرفہ سفر کی مانند ہیں، جو ہمیشہ ایک کشادہ اور روشن شاہراہ پر جاری رہتے ہیں۔ آج بے شمار روسی ادبی تخلیقات چینی زبان میں ترجمہ ہو رہی ہیں، جبکہ چینی ادب کی کئی نمایاں تصانیف روس میں قارئین تک پہنچ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ Global Times نے ہمیشہ اس ادبی مکالمے کا گواہ اور علمبردار بننے کی کوشش کی ہے۔
سٹپکینا نے اپنے خطاب میں کہا کہ چین اور روس کے تعلقات صرف سیاست یا معیشت تک محدود نہیں رہے، بلکہ انسانی سطح پر بڑھنے والے یہ روابط ثقافت اور ادب کے ذریعے مزید گہرے ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق، لٹریچر سیلون جیسی تقریبات دونوں قوموں کے قارئین کے دلوں میں ایک دوسرے کی ادبیات کے لیے دلچسپی اور احترام کو بڑھائیں گی۔ ان کی خواہش تھی کہ یہ تقریب تمام شرکاء کی ثقافتی یادداشت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے۔
اس نشست کا مرکزی حصہ وہ تھا جہاں معروف شعرا، مترجمین اور دانشوروں نے ادب کے ذریعے تہذیبی مکالمے پر گفتگو کی۔ روسی ثقافتی مرکز کی ڈائریکٹر تاتیانا اُرجمتسیوا نے روسی لٹریری سیلونز کی تاریخ پر ایک دلچسپ جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اٹھارہویں صدی کے اواخر سے لے کر آج تک یہ محفلیں روسی فکری زندگی کا دل رہی ہیں۔ ان میں نہ صرف ادیبوں اور شاعروں نے تخلیقی تجربات کیے بلکہ معاشرتی مباحث اور فکری دھارائیں بھی وہیں سے پھوٹیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ روسی قارئین موسموں کے ساتھ اپنی پسند بدلتے ہیں۔ سردیوں میں وہ سنجیدہ اور فکری مطالعے میں غرق ہو جاتے ہیں، بہار میں محبت کی کہانیاں پڑھتے ہیں، گرمیوں میں ہلکی پھلکی تفریحی تحریریں اور خزاں میں فلسفیانہ فکر کی کتابیں۔ گویا روسی قاری کے لیے مطالعہ بھی فطرت کے موسموں کی طرح ایک تغیر پذیر تجربہ ہے۔
چین کے معروف شاعر جی دی ماجیا نے گفتگو کو شاعری کے زاویے سے آگے بڑھایا۔ ان کے الفاظ میں ادب محض اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ تہذیبوں کے درمیان روحانی رشتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی شاعری پر روسی شاعری کا اثر بہت گہرا ہے، خاص طور پر پوشکن جیسے شعرا نے جدید چینی نظم کے خدوخال پر اپنی چھاپ چھوڑی۔ جی دی ماجیا نے یہ خوبصورت بات کہی کہ شاعری کے اس تبادلے نے دونوں قوموں کے درمیان ایک ایسا روحانی پل تعمیر کیا ہے جو وقت اور سیاست سے ماورا ہے۔
روس کے ادبی ترجمے کے ادارے کے سربراہ ایوگینی رزنیچنکو نے بتایا کہ اب تک تقریباً ڈیڑھ سو کتابیں دونوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان کے مطابق، ایک اچھا مترجم وہ ہے جو محض الفاظ نہیں بلکہ روح کو منتقل کرے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اگرچہ وہ لی بائی جیسے چینی شاعر کو اصل زبان میں نہیں پڑھ سکتے، مگر ترجمے کے ذریعے ان کے احساس تک پہنچنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ ان کے بقول، یہی اس طرح کے ادبی سیلونز کا مقصد ہے۔ زبانوں کی دیواریں توڑ کر روحوں کا مکالمہ ممکن بنانا۔
کیپٹل نارمل یونیورسٹی کے پروفیسر لیو وین فی نے کہا کہ چین اور روس کے تعلقات میں ثقافتی تبادلہ ہمیشہ مرکزی حیثیت رکھتا آیا ہے اور اس تبادلے کا سب سے مضبوط پل ہمیشہ ادب رہا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ دراصل چین اور روس کے درمیان ادبی تعلقات رسمی سفارتی تعلقات سے بھی پرانے ہیں۔ 1759ء میں روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں جب پہلی بار چینی ڈرامہ The Orphan of Zhao کا ترجمہ ہوا، تو وہ اس ادبی رشتے کا نقطۂ آغاز تھا جو آج بھی تازہ ہے۔
گفتگو کا اگلا حصہ ایک گول میز نشست تھی، جہاں مترجمین، ادیبوں اور ماہرینِ ادب نے ادب کے اثر، جدید ذرائع ابلاغ، روحانی تعلقات اور غیر مادی ثقافتی ورثے پر اظہارِ خیال کیا۔ معروف مصنف یاو ایمی نے یاد دلایا کہ ان کے والدین کے زمانے میں روسی ادب نصاب کا حصہ تھا اور ان کے بڑے بھائی کے آدھے کتب خانے میں روسی ناول بھرا رہتا تھا۔ ان کے مطابق یہ ورثہ آج بھی نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ روسی ادیب ولادیسلاف اوتروشنکو نے کہا کہ ان کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ ان کے ناول کا چینی ترجمہ ہوا، کیونکہ چین ایک ایسی سرزمین ہے جو عالمی ادبی ورثے کا حصہ ہے۔
پی کنگ یونیورسٹی کی پروفیسر ژاؤ گویلیان نے کہا کہ ادب کے تراجم دراصل ایک اخلاقی ذمہ داری ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران روسی ادیبوں نے جو فسطائیت مخالف ادب تخلیق کیا، وہ چینی زبان میں منتقل ہوا اور چین کے مصنفین نے بھی ایسے ہی موضوعات پر لکھا۔ ان کے مطابق یہ تراجم مشترکہ یادداشتوں اور روحانی ہم آہنگی کا مظہر ہیں۔
زینگ ہونگ بو، جو چین کے Copyright Society کے سربراہ ہیں، نے اعداد و شمار کے ذریعے بتایا کہ گزشتہ نو برسوں میں چین میں روسی ادب کی سات سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں، جبکہ روس میں چینی ادب کی چار سو سے زیادہ تصانیف منظر عام پر آئیں۔ یہ اعداد صرف تجارتی نہیں بلکہ تہذیبی تعلقات کی گہرائی کا ثبوت ہیں۔
اس نشست کا ایک دلکش پہلو نوجوان نسل کی شمولیت تھی۔ بیجنگ کی ایک مڈل اسکول کی طالبہ ہواںگ لی یو اور روسی طالبہ گوسارووا ایکاترینا نے اپنی مطالعاتی تاثرات بیان کیے۔ یہ منظر یقیناً امید افزا تھا کہ دو مختلف زبانوں کے یہ نوجوان کتابوں کے ذریعے ایک دوسرے کی روح کو چھو رہے تھے۔ اسی موقع پر "چائنا۔ رشیا یوتھ ریڈنگ انیشی ایٹو" کا آغاز بھی کیا گیا تاکہ نوجوان نسل کتاب کو محض تفریح نہیں بلکہ عمل کی بنیاد سمجھے۔
تقریب کے اختتام پر Global Times English Edition کے ایگزیکٹو ایڈیٹر لیو یانگ نے کہا کہ "چائنا۔ رشیا کلچرل ایئر" کے اس موقع کو ہمیں مزید گہرے مکالمے، باہمی سمجھ اور دوستی کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ ان کے بقول، کتاب وہ خاموش سفیر ہے جو لفظوں کے بغیر بھی محبت اور احترام کے پیغام پہنچاتی ہے۔
یہ محفل کتابوں کی خوشبو سے لبریز تھی۔ لوگ جب باہر نکلے تو ان کے چہروں پر ایک عجیب روشنی تھی۔ شاید اس احساس کی روشنی کہ ادب کسی قوم کا نہیں، انسانیت کا مشترک ورثہ ہے۔ کسی نے کہا کہ میں نے How the Steel Was Tempered اسکول کے زمانے میں پڑھی تھی اور آج بھی اس کے کرداروں کا حوصلہ میرے دل میں زندہ ہے۔ یہ جملہ گویا اس تقریب کی روح کا خلاصہ تھا۔
چین اور روس کی ادبی تاریخوں میں ہمیشہ ایک گہرا رشتہ رہا ہے۔ دونوں قوموں نے دکھ، جدوجہد، محبت اور انسان دوستی جیسے موضوعات پر ایک دوسرے کی تحریروں سے روشنی لی ہے۔ ترجمہ اس رشتے کی بنیاد ہے اور مترجم وہ خاموش فنکار ہے جو دو زبانوں کے بیچ روحانی دروازے کھولتا ہے۔
آج جب دنیا پھر سے تقسیموں، جنگوں اور فکری تنازعات میں الجھی ہوئی ہے، تب اس طرح کی تقریبات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ تہذیبوں کا اصل مکالمہ بندوقوں سے نہیں، کتابوں سے ہوتا ہے۔ شاعری، ناول، ڈرامہ اور نثر، یہ سب وہ ذرائع ہیں جو انسان کو انسان سے جوڑتے ہیں۔
ادب دراصل وقت اور جگہ کی قید سے آزاد ایک گفتگو ہے، جو کبھی ماسکو کی برف میں اور کبھی بیجنگ کی بہار میں جاری رہتی ہے۔ جب روسی قاری چینی شاعری پڑھتا ہے، یا چینی نوجوان پوشکن کے مصرعوں میں خود کو ڈھونڈتا ہے، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانیت کی روح ایک ہی ہے اور شاید یہی اس سیلون کی اصل کامیابی ہے، کہ اس نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ کتابوں کے موسم بدلتے رہتے ہیں، مگر مطالعے کی روشنی کبھی مدھم نہیں پڑتی۔

