Dil Bhi Tora To Saleeqe Se Na Tora Tum Ne
دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے

یہ شعر محض وارداتِ قلبی کا آئینہ نہیں بلکہ قوموں کے باہمی تعلقات اور ان کے رویوں پر بھی پورا اترتا ہے۔ جب ہم موجودہ پاکستان بھارت تعلقات کو دیکھتے ہیں، خصوصاً کرکٹ کے میدان میں، تو یہ شعر اپنے پورے معنی اور وزن کے ساتھ ذہن پر دستک دیتا ہے۔ کرکٹ محض ایک کھیل نہیں رہا، بلکہ برصغیر کے عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت نے اس دھڑکن کو نفرت، تنگ نظری اور سیاست کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ ایک ایسا کھیل جو محبتیں بانٹ سکتا تھا، دلوں کو قریب کر سکتا تھا، آج دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ یہ محض ایک کھیل کے ساتھ بے وفائی نہیں بلکہ کروڑوں شائقین کے جذبات کے ساتھ کھلا کھیل ہے اور وہ بھی بغیر کسی سلیقے کے۔
پاکستان اور بھارت کا کرکٹ تعلق ہمیشہ ہی سے دنیا بھر کے لیے کشش کا مرکز رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والا ایک ایک میچ تاریخ کے اوراق پر سنہری حروف میں لکھا جاتا رہا ہے۔ لوگ اپنے روزمرہ کے دکھ بھلا کر اس میچ کو عید کی طرح مناتے تھے۔ مگر جب سے بھارتی ذہنیت پر تنگ نظری کا پردہ پڑا ہے، کرکٹ بھی نفرت کی نذر ہوگیا ہے۔ بھارت کا رویہ دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر کھیل میں سیاست مل جائے تو وہ کھیل نہیں رہتا بلکہ انتقام کا ایک اوزار بن جاتا ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کھیل کی روح سے زیادہ اپنی سیاسی انا کو اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سیریز کو بند کر دینا، ہر عالمی ایونٹ میں پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بچھانا، یہاں تک کہ نیوٹرل میدانوں میں بھی پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرنا، یہ سب وہ رویے ہیں جو کرکٹ کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر بے وفائی کرنی تھی تو کم از کم اس کا سلیقہ ہی اپنایا جاتا، قواعد اور آداب کے ساتھ کیا جاتا، تاکہ کھیل کی روح پامال نہ ہوتی۔
بھارت کی یہ روش دراصل اس کی وسیع تر ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔ ایک بڑی معیشت اور جمہوریت ہونے کے باوجود بھارت کے رویوں میں وہ کشادگی اور اعتماد نظر نہیں آتا جو بڑے دل والوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ تنگ نظری اور نفرت ان کے فیصلوں پر غالب آ جاتی ہے۔ کھیل، ادب، ثقافت، معیشت۔ ہر میدان میں بھارت نے پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ ظلم کرکٹ پر ہوا ہے۔ یہ کھیل جو کبھی امن اور محبت کی علامت تھا، اسے بھارت نے اپنی انا اور سیاسی عزائم کے تابع کر دیا ہے۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے بھارت کی یہ ضد اور تعصب موجود ہے، مگر افسوس کہ طاقت اور دولت کی بنیاد پر اسے وہ آزادی حاصل ہے کہ وہ کھلے عام کھیل کے اصولوں کو روندتا پھر رہا ہے۔
پاکستانی ٹیم نے ہمیشہ میدان میں اپنی کارکردگی سے جواب دیا ہے۔ چاہے 1986ء کا شارجہ ہو، 2009ء کا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی یا 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی، پاکستان نے بھارتی تکبر کو بارہا خاک میں ملایا ہے۔ ان فتوحات نے یہ ثابت کیا ہے کہ کھیل کا فیصلہ میدان میں بیٹ اور بال کرتے ہیں، سیاسی مصلحتیں نہیں۔ مگر بھارت کی ذہنیت اتنی محدود ہو چکی ہے کہ وہ اپنی شکست کو برداشت کرنے کے بجائے کھیل ہی کو سبوتاژ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے کھیل کے ایونٹ یعنی ورلڈ کپ میں بھی بھارتی میڈیا اور سیاست دانوں کی زبان سے نفرت ٹپکتی ہے۔ کھیل کے شائقین کو لڑانے، کھلاڑیوں پر دباؤ ڈالنے اور پاکستان کے وجود کو کم تر ثابت کرنے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ تنگ نظری اس حقیقت کو نہیں چھپا سکتی کہ پاکستان کی کرکٹ نہ صرف زندہ ہے بلکہ عزت اور وقار کے ساتھ دنیا میں اپنا لوہا منوا رہی ہے۔
بھارتی ذہنی پسماندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ہر میدان میں دشمنی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کھیل کو سفارتی تعلقات بہتر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہاں بھارت کھیل کو دشمنی بڑھانے کے لیے بروئے کار لاتا ہے۔ کرکٹ کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام کے دل قریب لائے جا سکتے تھے، نفرت کی دیواریں گرائی جا سکتی تھیں، مگر بھارت نے یہ موقع ضائع کر دیا۔ اسے اگر کھیل کا بھی استعمال کرنا تھا تو کم از کم بے وفائی کے آداب ہی ملحوظ رکھے جاتے، کھیل کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جاتا۔
پاکستانی عوام کا دل کئی بار توڑا گیا ہے۔ کبھی یہ کہہ کر کہ پاکستان میں سیکیورٹی نہیں، کبھی یہ الزام لگا کر کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے، کبھی یہ کہہ کر کہ بھارتی کھلاڑی پاکستان کے ساتھ کھیلنے کے لیے تیار نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے دنیا کے تمام بڑے ایونٹس کی میزبانی کی اور دنیا بھر کی ٹیموں نے یہاں آ کر کھیل کر اس ملک کی محبت اور مہمان نوازی کو محسوس کیا۔ اگر بھارت کے دعوے درست ہوتے تو انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سری لنکا جیسی ٹیمیں پاکستان آنے کا رسک کیوں لیتیں؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنی عوام کو جھوٹ بیچ کر خوش کرنا چاہتا ہے۔ وہ کھیل کے میدان میں اپنی شکست کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے بہانے تراشتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت نے دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تلخیوں میں کرکٹ ایک ایسا موقع بن سکتا تھا جہاں دونوں ملک اپنے عوام کو کم از کم ایک پلیٹ فارم پر لا سکتے۔ لیکن بھارت کی سیاست نے اس موقع کو ہمیشہ ضائع کیا ہے۔ آج بھی اگر دونوں ملکوں کے درمیان سیریز ہو تو دنیا بھر کے کروڑوں شائقین اس کا انتظار کریں گے۔ مگر افسوس کہ بھارتی تنگ نظری کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔ یہ رویہ نہ صرف کھیل بلکہ انسانی رشتوں کے خلاف بھی ہے۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی مسائل ہیں، کشمیر جیسے سلگتے ہوئے تنازعے موجود ہیں، مگر کھیل ان تنازعات کو ختم نہ سہی، کم از کم کم کر سکتا ہے۔ مگر بھارت نے کھیل کو بھی سیاست کا حصہ بنا کر نفرت کو اور بڑھا دیا ہے۔ یہی وہ ذہنی پسماندگی ہے جس نے بھارتی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ طاقت اور معیشت میں ترقی کے باوجود سوچ کا افق تنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھارت کے رویوں پر دنیا سوال اٹھا رہی ہے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ کرکٹ کے ساتھ جو سلوک بھارت نے کیا ہے، وہ محض ایک کھیل کی بے وفائی نہیں بلکہ کروڑوں دلوں کی دھڑکنوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اگر دشمنی نبھانی تھی تو کم از کم اصولوں اور آداب کے ساتھ نبھائی جاتی۔ اگر کھیل کو سیاست کا شکار بنانا تھا تو کم از کم اس کے شائقین کے ساتھ مذاق نہ کیا جاتا۔ مگر بھارت نے نہ کھیل کے ساتھ انصاف کیا اور نہ ہی کھیل کے چاہنے والوں کے ساتھ۔ یوں اس شعر کی صداقت ایک بار پھر ثابت ہوتی ہے کہ:
دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے
بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں

